رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں لاکھوں محصور فلسطینیوں پر قیامت برپا کر رکھی ہے۔ یہ گنجان ترین علاقہ ہے‘ جہاں کئی عشروں سے بے گھر کئے گئے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صہیونیوں کی جارحانہ توسیع پسندی کے سامنے نہتے فلسطینی کیا حصار بنا سکتے تھے؟ ان کے گھر‘ گائوں‘ بستیاں‘ شہر اور ہزاروں سالوں کی تہذیب اجاڑ دی گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب مغربی حلیفوں نے ٹھان لی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر کے وہاں ان کی ریاست قائم کی جائے گی‘ تو ہزاروں کی تعداد میں مسلح صہیونی دستے حملہ آور ہوئے۔ ان کی پشت پناہی سب مغربی طاقتیں کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ اشتراکی روس بھی اس سازش کے پیچھے تھا۔ امریکہ کے اندر دو آرا تھیں‘ مگر وہاں نادیدہ سیاسی اور معاشی طاقتوں نے اپنے مخصوص حربوں سے کام سیدھا کر لیا۔ چالیس سال قبل ایک کتاب ”بیہائنڈ دی سلکن کرٹن‘‘ (Behind the Silken Curtain) یعنی ‘ریشمی پردے کے پیچھے‘ نیو یارک میں راستے میں بکتی کتابوں میں پڑی ملی تھی‘ جو میں خرید لی۔ یہ کوئی افسانہ نہیں‘ ایک امریکی سفارت کار بارٹلی سی کرم (Bartley C. Crum) کی تحریر کردہ ان واقعات اور سیاسی کرداروں کی روداد ہے کہ کیسے اسرائیل کے قیام کی حمایت میں امریکہ کی پالیسی کو متاثر کیا گیا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ یورپ میں یہودیوں کے ساتھ صدیوں تک سلوک منصفانہ نہ تھا۔ برابری‘ احترام اور اپنائیت انہیں کبھی نہ ملی‘ بلکہ الٹا ان سے نفرت ان معاشروں کا شعار تھا۔ صرف جرمنی ہی نہیں‘ بلکہ فرانس‘ روس اور دیگر یورپی ممالک میں بھی انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ میں نئی دنیا آباد ہونے لگی تو وہاں ان کے بسنے پر اوائل میں پابندی تھی۔ یہ بعد کی بات ہے کہ راستے ہموار ہونے لگے‘ اور ان کا اثر و نفوذ بھی کوہ ہمالیہ جیسی بلندیوں کو چھونے لگا۔
پہلی جنگِ عظیم نے جرمنی میں جو سیاسی اور سماجی اثرات پیدا کئے‘ وہ وہاں کی یہودی آبادی کے لیے کسی بھی لحاظ سے سازگار نہیں تھے۔ جرمنی کی شکست کی وجوہات جو بھی تھیں‘ ہٹلر اور اس کی پارٹی نے نسل پرستی‘ فسطائیت اور جغرافیائی توسیع کے خطرناک فلسفوں اور نظریات کے جھنڈے بلند کرنا شروع کر دئیے تھے۔ کسی بھی مایوس اور شکست خوردہ قوم کے لیے جذباتیت سیاست چمکانے کے لیے تیر بہدف کا کام کرتی ہے۔ ان کے بارے میں عجیب و غریب افسانے تراشے گئے۔ آریائی نسل‘ خدا کی پسندیدہ‘ سب انسانی خوبیوں کا مرقع‘ بہادر‘ جری‘ جنگجو اور ہر دشمن کے خلاف ظفر مند۔ باقی سب نسلیں کمتر اور محکوم۔ مغرب کے گورے نسل پرست پہلے بھی نسلی درجہ بندیوں کے تصورات پھیلاتے تھے‘ مگر نازی جرمنی نے تو حد ہی کر دی۔ ان کے نزدیک سب سے نچلے درجے کے سیاہ فام اور یہودی تھے۔ اس وقت کا فسطائی جرمنی مغرب کی روشن خیالی کے فلسفوں کو اپنے ملک میں نیست و نابود کر چکا۔ جو بھی ان کے سامنے اٹھا‘ یا جس نے بھی ان کی سیاسی پرواز میں رکاوٹ ڈالی‘ بزورِ طاقت اسے تباہ و برباد کرتے گئے۔ یہودی آبادی کے خلاف صدیوں سے پھیلائے گئے زہر سے ہٹلر نے خوب فائدہ اٹھایا۔ جب اس نے ان کی آبادیوں کو تباہ اور معصوم عورتوں‘ بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کو گھروں سے گھسیٹ کر کیمپوں میں ڈالنا شروع کیا تو جرمن معاشرہ بد قسمتی سے اس ظلم اور بربریت کے لیے تیار تھا۔ میں مذہب کی بنیاد پر کسی منافرت کے حق میں نہیں۔ میں نے جو کچھ پڑھا ہے یا میں جو کچھ جان کاری حاصل کر سکا ہوں‘ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ظلم ہوا‘ لاکھوں کی تعداد میں قتل کئے گئے اور زہر اگلتی کیمیائی بھٹیوں میں انہیں دھکیلا گیا۔ میں ان کی نسل کشی اور ”مرگِ انبوہ‘‘ کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سب یہودیوں کو اسرائیل کے ساتھ جوڑنا یا یہودیوں سے ان کے مذہب کی بنیاد پر نفرت کرنا مناسب نہیں۔ یہودی مذہب سے متعلق کئی فرقے ایسے ہیں جو اسرائیلی ریاست کے قیام کے خلاف تھے اور اب بھی ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ بسنے والے یہودی اسرائیل کی بربریت کے حق میں نہ تھے‘ اور نہ اب ہیں۔ یہاں ہمارے ہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کے بارے میں عام سطح پر جو باتیں ہوتی ہیں‘ وہ بڑی عجیب محسوس ہوتی ہیں۔
ظلم تو یہ ہے کہ جن کی جرمنی میں نسل کشی ہوئی وہ اب وہی کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کا میرے نزدیک کوئی اخلاقی‘ سیاسی یا تاریخی جواز نہیں تھا‘ اور نہ اب ہے۔ میرے ایک مرحوم دوست کہتے تھے کہ جب لوگوں کے پاس دولت اور طاقت آ جاتی ہے تو علمی طور پر کچھ پلے ہو یا نہ ہو‘ وہ فلسفہ ضرور بگھارنا شروع ہو جاتے ہیں۔ صہیونیوں کے پاس تو علم بھی تھا‘ فنون بھی۔ دولت اور طاقت یورپ کے صنعتی انقلاب میں ان کی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اتنا دھن دولت کہ یورپ کے سیاسی محلات کے دروازے ان کیلئے کھلتے چلے گئے۔ پہلی جنگِ عظیم میں صہیونیوں کی اپنی ریاست بنانے کی دیرینہ خواہش کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر یہودی صہیونی نہیں‘ صہیونی وہ ہیں جنہوں نے اسرائیلی ریاست کے وجود کے بارے میں اساطیری اور فرضی داستانیں تراشیں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں خفیہ تحریک اس مقصد کے لیے شروع کی۔ انیس سو سترہ میں برطانیہ نے ”بالفور اعلان‘‘ جاری کیا‘ جس میں یہ کہا گیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ”قومی گھر‘‘ بنایا جائے گا۔ بات ”نیشنل ہوم‘‘ کی ہے ”نیشنل ہوم لینڈ‘‘ کی نہیں۔ بہرحال معنی جو بھی اخذ کئے جائیں‘ ان لفظوں کے ہیر پھیر میں اس ریاست کا وجود مضمر تھا۔
اس وقت فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا‘ اور وہاں جو بات کی گئی‘ وہ یہ تھی کہ یہودیوں کو زیادہ آباد کیا جائے گا۔ جب جنگ کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا اقتدار بطور ”وقف کار‘‘ سنبھالا تو عثمانی دور کی پابندیاں نرم ہو گئیں‘ ساتھ ہی عرب قومیت کا نعرہ بلند کیا اور کرایا گیا تاکہ صدیوں کا ترک‘ عرب اور دیگر قوموں کا اتحاد بکھر جائے۔ مانتے ہیں کہ عرب ایک قوم ہے‘ تو پھر ان کو چھوٹی بڑی ریاستوں میں بانٹ کر وہاں اتحادی قبائلی سرداروں کو کیسے بادشاہ بنا دیا گیا؟ بے بسی کو سمجھنے کے لیے بس اتنا کہنا ہی کافی ہے۔
آج کے دور کے ہمارے حکمرانوں کا کیا کہنا‘ مسلم ممالک کا سب کچھ لوٹ کر مغرب کے خزانوں میں رکھتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے لیے ان کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقوں کے مفادات غالب عالمی قوتوں کی خواہشات کے تابع ہیں۔ آپ کڑھتے رہتے ہیں کہ ہماری اتنی آبادی‘ ملکوں کی اتنی تعداد‘ وسائل اور سب کچھ‘ مگر ہم کیوں کچھ نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال عرصہ پہلے کہہ گئے ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ یہ واہمہ ہے کہ ہم مقتدر ہیں‘ یہ تاریخ کا پتلی تماشا ہے۔
ہم جس عالمی نظام میں قومی ریاستیں تشکیل دے کر جی رہے ہیں‘ اس میں صرف طاقت کا سکّہ چلتا ہے۔ ریاستوں کا قانونی طور پر برابر ہونا عملی سیاست میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ریاستیں چھوٹی ہیں اور بڑی بھی‘ ترقی یافتہ ہیں اور پس ماندہ بھی‘ طاقتور اور مستحکم ہیں‘ اور مسائل کا شکار‘ بحرانوں اور داخلی جنگوں میں گھری ہوئی بھی۔ اس نظام میں طاقت‘ وسائل اور ترقی کی تقسیم نہ کبھی یکساں تھی‘ اور نہ ایسا ممکن ہے۔ بڑی طاقتوں کا غلغلہ ہے‘ ان کی چلتی ہے۔ انصاف اور قانون کی باتیں صرف کمزور کرتا ہے۔ دیکھ لیں‘ مغرب کی بڑی طاقتیں فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ ساٹھ سے زائد بچے‘ اتنی ہی تعداد میں عورتیں اور سو کے لگ بھگ عام فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں گھر تباہ ہو چکے اور لاکھوں فلسطینی چھت‘ پانی‘ بجلی اور طبی سہولتوں سے محروم ہیں‘ لیکن فلسطینیوں کی طویل جدوجہد ہے‘ کبھی سرنگوں نہیں ہوئے‘ وطن پر جاں نثاری کی لا زوال داستان۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر