وقاص بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید دنیا کی فکر کو جن زاویوں سے پرکھا جا رہا ہے ان میں استعمار سرِ فہرست ہے۔ استعماریت کی چھتری تلے مزید دو ذیلی اصطلاحات مستعمل ہیں۔ ایک مابعد استعمار (post colonialism) اور دوسرا نو استعمار (neo colonialism). نو استعمار اُن علاقوں کے اقتصادی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو جدید تقاضوں سے دیکھتا ہے جہاں استعمار کا قبضہ رہا ہو۔ اِن علاقوں کے معاشی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی باگ عمومی طور پر ابھی تک استعمار کے ہاتھ میں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ استعمار کا ظاہری طور پر کوئی تسلط نظر نہیں آتا مگر پوشیدہ طور پر وہی اِجارہ دار ہیں۔ عبدالباسط بھٹی اپنی تحاریر میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ مصنف زندگی کی مختلف صورتوں کو ہمہ جہت اور بے پایاں انداز میں اظہر من الشمس کرتے ہیں۔ عبدالباسط بھٹی کی تحریر کا ایک زاویہ نو استعمار کی خصوصیات سمجھنے سے عیاں ہوتا ہے۔ عبدالباسط بھٹی کے کسی مبتدی قاری کو ان کے افسانہ پڑھنے کے لیے نو استعمار کو سمجھنا بہت ضروری ہو گا۔
نو استعمار اور مابعد استعمار میں سب سے بڑا مسئلہ ذہن کی مکان سے اجنبیت ہے۔ افسانہ "کہاڑا” میں افسانہ کے مرکزی کردار "مولوی کہاڑا” کی مسجد سے جڑت بالکل ایک مقامی آدمی کی اپنے وطن سے جڑت کی طرح ہے۔ انگریز کے برِ صغیر کو تقسیم کرنے کے بعد بہت سے مقامی ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہجرت کسی بھی نفس پر تازیانے کی طرح برستی ہے۔ اس ہجرت کے درد کو برِصغیر کے ادب میں "ہجر” جیسے کربناک نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مکان سے ہجرت/علیحدگی کو اگر سائنٹیفک اصطلاح دی جاۓ تو اسے ذہنی اجنبیت mental alienation کہا جاۓ گا۔ بھٹی صاحب کا افسانہ "کہاڑا” میں افسانہ کا مرکزی کردار رمضان کہاڑا اسی اجنبیت کو جھیل رہا ہے۔ مسجد اس کے گھر کی طرح ہے۔ اس مکان کی طرح جہاں وہ اپنی زندگی کا قیمتی وقت گزارتا ہے۔ مکان انسان کی ادھوری ذات کا دراصل حصہ بن چکا ہوتا ہے۔ مکان کو مسمار کرنا انسان کی اپنی ذات کو مسمار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مسجد میں کافی وقت گزارنے کے بعد جب یہ مسجد حکومت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ڈھا دی جاتی ہے تو گویا "رمضان کہاڑا” کی اپنی ذات کی عمارت ڈھا دی جاتی ہے۔ مسجد کو بلڈوز کرنے کی ایک ایک ضرب رمضان کے دل پر پڑ رہی ہوتی ہے۔ دراصل اس کا کسی مکان سے ناطہ کٹ رہا ہوتا ہے۔ اسی ذہنی اجنبیت کا درد نہیں سہہ پاتا کہ زمین پر دھڑام گر جاتا ہے۔
استعمار نے پیری مریدی، سردارانہ نظام کو جہاں فروغ دیا وہاں انسان کی قدر و قیمت جانوروں سے بھی بد تر ہو گئی۔ یہ نظام مکمل طور پر عام آدمی کا استحصال اس روش سے کرتا ہے کہ انسانوں کو جانوروں سے بھی نیچ کر دیتا ہے۔ "پیراں دی کتی” افسانے میں مخدوم لچھی اپنے نوکر "نبلے” کے زخموں سے زیادہ ایک کتیا کے زخموں کو ترجیح دیتا ہے اور اسے اسپتال پہلے لے جاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ "پیراں دی درگاہ” میں بھی اسی استیصال مصنف نے قاری کی نظر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک روشن خیال مصنف ہمیشہ ان روایات کو موضوع بنا کر ان کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جہاں انسانوں کی عزت ِ نفس مجروح کی جا رہی ہو۔ ان افسانوں میں سماج کے اس رویہ، نو استعمار کے ان سماجی اور معاشرتی مسائل کا اظہار ہے جہاں انسان بے قدر و قیمت ہو کر رہ گیا ہے۔
فلسفہ میں ایک مکتبہء فکر کا نام Solipsism ہے جس میں اس بات کی وکالت کی جاتی ہے کہ یہ دنیا محض میرے ذہن کی کاری گری ہے۔ اس دنیا کا سارا وجود صرف اس لیے ہے کہ میں اسے سوچتا ہوں، میں اس وجود کی تخلیق کرتا ہوں۔ مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ میں اس لیے ہوں کیوں کہ میں سوچتا ہوں۔ یعنی دنیا کی کوئی معروضیت نہیں ، یہ دنیا صرف میرے ذہن کی اختراع ہے۔ یہاں ہر وجود صرف میرے ذہن کی موضوعیت پر بنیاد رکھتا ہے۔ افسانہ "بندہ، بھاہ، ہوا تے پانؕی” میں راوی جب بتاتا ہے کہ آدمی ہوا، پانی ، آگ سب کچھ بن سکتا ہے۔ تو وہاں جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا ہے فلسفہ کی Solipsism کی فکر ذہن میں متوازی طور پر ذہن میں آتی رہتی ہے۔ دوسرا یہاں یونانیوں کا چہار عناصر کا تصور کہ ہر شے چار عناصر سے مل کر بنی ہے ؛پانی، ہوا۔ مٹی اور آگ ، بھی ذہن میں فوری اترتا ہے۔ اسی تصور نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح اس افسانے میں جب وقت صرف کسی ذہن کی قوت سے آگے چل رہا ہے اور دوسرے اذہان کے لیے بالکل تھم سا گیا ہے تو یوں آئین سٹین کا تصور "وقت کا پھیلاؤ (Lapse of Time)” بھی سامنے آ جاتا ہے۔ اس طرح اس افسانہ میں مصنف نے اپنی تحریر کو سائنٹیفک ٹچ مہیا کیا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے لٹریچر پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ امریکہ اور یورپ میں ما بعدِ جدید ادب میں ٹوٹے ہوۓ خان دانی تعلقات نہایت بہتیرے ملتے ہیں چاہے وہ ولیم فالکنر کا "آواز اور غضب” ہو یا ٹامس پنچن کا "لاٹ 49 پر چیخنا” ہو۔ عبد الباسط بھٹی کے افسانہ چوتھا مسافر میں بھی انفرادیت اور ٹوٹتے خان دانی تعلقات کی جھلک نہایت واضح ہے۔ اس طرح یہ افسانہ جدید معاشرتی رویویں کو بھی آشکار کرتا ہے۔
افسانوں کی اس کتاب میں زبان نہایت سادہ اور رواں ہے۔ زبان اور مضامین کے خیالات حل پذیر محلول کی طرح الگ نہیں ہو سکتے۔ جدید معیاری سرائیکی دوسری زبانوں کی طرح نئے سائنٹیفک اور جدید سماجی الفاظ جذب کر رہی ہے۔ نئ نسل کو سرائیکی سے وابستہ کرنے کے لیے نہایت ضروری ہےکہ زبان سریع الفہم ہو جو نئے آنے والے لوگوں کے لیے قابلِ سمجھ اور قابلِ اطلاق ہو ۔ عبدالباسط بھٹی کی زبان بھی جدید تقاضوں سے آہنگ اور سلیس ہے۔ کسی لیکھک کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ زبان کی بقا اور ارتقا کے لیے اسے نئے ضابطوں نئے تقاضوں سے ہم کنار کرے۔ عبدالباسط بھٹی اس صورت حال سے مکمل آگاہ ہیں۔ ان کی نثر پڑھنے سے زبان سیکھنے کا بہتیرا موقع میسر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
لون دا جیون گھر نیٹو سینسیبلٹی ہے۔۔۔کاشف بلوچ
رفعت عباس دا ناول لون دا جیون گھر۔۔۔ نذیر لغاری
ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔ پہلی دری
سرائیکی مقامیت کی سوجھ بوجھ اور لون دا نمک گھر ۔۔۔عامر حسینی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر