نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جاتی واد ،نسل واد بارے ہندوستانی لیفٹ کے رجحانات اور جنگ کے بعد کا برطانیہ||ترجمہ عامر حسینی

تو تضادات تو ہمہ وقت بدلتے رہتے ہیں اور اہم بات یہ سمجھنا ہے کہ تضادات کب تبدیل ہوں گے۔ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے تضادات ایک جیسے نہیں رہتے: یہ پروسس ہیں ناکہ جامد چیزیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

انڈین ورکرز ایسوسی ایشن میں جات سکھوں کی اکثریت دلت سوال پہ میکانکی مادیت پرستی کا شکار تھی-جب کبھی مسئلہ اٹھایا جاتا کچھ لوگ کمیونسٹ مینی فیسٹو لہراتے اور پوچھتے”دکھاؤ کہاں لکھا ہے؟”

 

 

ترجمہ: عامر حسینی

 

حال ہی میں ہندوستان سے چلنے والا ویب رسالہ جمہور کے مدیران دیویانی موٹلا، ارسلان صمدانی اور شوذب رضا نے دلت شکراا سے بات کی-وہ انڈین ورکرز ایسوسی ایشن/تنظیم برآئے ہندوستانی کامگران – آئی ڈبلیو اے کے عہدے دار رہ چکے ۔ آئی ڈبلیو کی بنیاد 1930ء کے عشرے کے برطانیہ میں پڑی اور یہ مبعد جنگ زمانے کے دوران نسل پرستانہ سرمایہ داری اے خلاف لڑائی میں رہنماء کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس میں ادھم سنگھ جیسی شخصیات بھی شریک رہیں۔

 

اس انٹرویو میں انھوں نے آئی ڈبلیو اے کی نسل واد، جات وادکے ساتھ ٹکراؤ اور لڑائیوں پہ بات کی- ہم امریکی سیاہ فام اقوام کی پاور موومنٹس  سے ان کے 60ء اور 70ء کے عشرے میں تعلقات کو زیر بحث لائے۔ حال ہی میں دلت -سیاہ فام یک جہتی پہ بات کی- ساتھ ساتھ امبیرکر اور مارکس کے درمیان جو تناؤ والا تعلق بنتا ہے اور ماؤ نے کیسے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جیسے سوال پہ غور کیا۔

 

 

دیویانی موٹلا(ڈی ایم): کیا آپ یہاں سے شروعات کرسکتے ہیں جس میں آپ اپنے بارے میں بتائیں – خاص طور پہ یہ بتائیں آپ نے "دلت شکلا” نام اختیار کیا؟

 

دلت شکرا(ڈی ایس): جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ "دلت” مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کے لیے استعمال اہونے والا سنسکرت کا لفط ہے۔ یہ نام ہندؤ مت کے براہمن واد کو چتاؤنی دیتا ہے۔ شکر چاریہ ایک جانے پہچانے گرو ہیں جو کہ ہندومت میں جو لوکایت یا چارواک کے فلسفے میں راکھششوں کا گرو ہے۔(لوکایت کا فلسفہ ہندوستان کے قدیم ترین فلسفہ مادیت میں شمار ہوتا ہے) شکرا اور یہ راکھشش مادیت پرستی کے معمار اور "خیال پرستی/عینیت پسندی”کے مخالف تھے۔ میں نے شکرا نام کو اپنے نام کے ساتھ مادیت پرستانہ فلسفوں سے اپنی وابستگی کی وجہ سے جوڑا۔ مجھے اپنا ذاتی نام استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ میں نہیں سمجھا انفرادی شخص کوئی بہت بڑی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ہے۔

 

ڈی ایم: بہت دلچسپ بات ہے۔ آپ اس تشکیلی تجربات بارے بتاسکتے ہیں جنھوں نے آپ کو یہ نام اپنانے کی راہ سجھائی؟ 

 

ڈی ایس: یہ نام امبییدکرواد اور مارکس واد دونوں سے میری وابستگی کو پورا کرتا ہے۔ امبیدکرواد سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں ایک بچےطور پہ ہندوستان پھل پھول رہا تھا۔ 14 سال کا تھا میں تو برطانیہ چلا آیا۔ جب میں نے ویسٹ مڈلینڈز فونڈریوں اور کارخانوں میں کام کرنا شروع کیا تو مجھے یہاں برطانیہ میں پہلی بار نسل پرستی/نسل واد دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ میں فیکٹری ورکر تو نہیں تھا (میں ٹیکنکل اپرنیٹس تھا) میں نے دیکھا کہ کیسے جاتی واد (ذات پات کی پوچا)ہندوستانی ملازمین میں اندر تک سرایت کیے ہوئے تھا۔ جات پات کی بنیاد پہ امتیازی سلوک جیسے رویے اس زمانے کی ترقی پسند تنظیموں میں بھی نظر آجاتے تھے۔ مثال کے طور پہ آئی ڈبلیو اے جہاں میں ٹریننگ لے رہا تھا اس کارخانے میں بہت سرگرم تھی۔ لیکن ابتداء میں، میں نے ان سے منہ پھیر لیا کیونکہ وہاں کوئی دلت کے ان کے درمیان تھے ہی نہیں۔ پھر بھی یہ اس وقت بہت ہی  ترقی پسند ہندوستانی گروپ ——— ٹریڈ یونینز وغیرہ تھیں جو روزانہ کی بنیاد پہ نسل واد سے لڑ رہی تھیں۔ وہ مالیکم ایکس اور سٹاکلے کارمیکائیل جیسے لوگوں کو یو کے آنے کی دعوت دی جاتی اور ان سے کہا جاتا کہ وہ نسل واد پہ اپنے تجربات لوگوں کو بتائيں- میں یاد پڑتا ہے کہ ایک امریکی سفید فام رپورٹرنے آئی ڈبلیو اے کے مرکزی جنرل سیکرٹری جگ موہن جوشی  سے برطانیہ میں نسل پرستی بارے انٹرویو کیا تھا۔ رپورٹر نے مذاق میں کہا "نسل پرستی اتنی بری نہیں ہے جتنی یہ امریکہ میں ہے۔” تو جوشی نے رپورٹر سے کہا کہ رات کے پہر میں وہ اس کے ساتھ باہر شراب پینے چلے  اور خود دیکھ لے کہ نسل پرستی کیسی لگتی ہے- ان کی شراب خانوں کی یاترا کے آخر میں رپورٹر نشے میں دھت ہوچکا تھا جبکہ دوسری طرف جوشی کو کسی شراب خانے سے ایک جام بھی پینے کو نہیں مل سکا تھا۔ وہاں پہ نسل پرستی کس قدر گہری تھی۔ میں آئی ڈبلیو اے کے قریب اس وقت ہوا جب میں برمنگھم میں ایک یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ میں ترقی پسند بک شاپ کے قریب رہتا تھا جو جوشی چلاتے تھے۔ میں گاہے بگاہے وہاں چلا جاتا اور اس طرح سے میں نے ان سے یارانہ گانٹھ لیا۔ ہم ہر طرح کے موضوعات پہ باتیں کرتے تھے- خاص طور پہ بائیں بازو کی کی سیاست پہ بات ہوتی تھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میں مارکس واد، ماؤ واد اور چین میں دلچسپی لینے لگا۔

 

میرے چینی دوست (مین لینڈ چین سے نہیں) بھی میری چینی ثقافت اور تاریخ کا مطالعہ کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ خاص طور پہ چین کی 20ویں صدی کی تاریخ کے مطالعے پہ اکسایا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ جوشی اور چینی دوستوں کے اشتراک سے بننے والے ثر نے مجھے آئی ڈبلیو اے کو جوائن کرنے پہ آمادہ کیا۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ آئی ڈبلیو اے ماؤواد کے بہت زیراثر تھی۔ پھر میں نے برمنگھم کو چھوڑا اور لٹن چلا گیا جہاں مجھے جاب ملی تھی – وہاں پہ آئی ڈبلیو اے کی کوئی شاخ نہیں تھی۔ تو پڑوس کے شہر بریڈفورڈ میں ایک برانچ تھی میں نے وہاں شرکت کرلی۔

آئی ڈبلیو اے بریڈ فورڈ برانچ مقامی طور پہ نسل واد کے خلاف لڑائی میں بہت سرگرم تھی۔ ان لڑائیوں میں سے مجھے بطور خاص شراب خانے (کے اندر غیر سفید فام اقوام کے داخلے) کے مسئلے کی لڑائی خوب یاد ہے۔ بریڈفورڈ میں جو شراب خانے تھے وہ غیر سفید فام کو سروس دینے سے انکار کرتے تھے۔ پہلے تو ہم نے شراب خانے میں ملازم ساقی اور مالکان سے بات چیت کی- مجھے یاد ہے ایک بار تو انہوں نے ہمارے خلاف پولیس بلالی تھی۔ چھے پولیس کاریں ، ایک بڑی پولیس وین اور نصف درجن تربیت یافتہ کتّے  اور ان کے ٹرینر وہآں نمودار ہوئے۔ ہمیں گرفتار نہیں کیا گیا اور ہم سختی سے وہاں جمے رہے۔ لیکن اس نے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت کا سبق دیا۔ ہمیں منظم ہونے کی ضرورت تھی۔

 

تو ہم نے گورمکھی(پنجابی) ، اردو ، بنگالی اور انگریزی میں لیف لٹ چھاپے اور اسے کمیونٹی میں تقسیم کیے۔ ہم نے لوگوں کو نسل وادی شراب خانوں کا سماجی مقاطعہ کرنے کی دعوت دی۔ بائیکاٹ کی وجہ سے شراب بنانے والی کمپنیاں چھے ماہ کے بعد ڈھیر ہوگئیں۔ انھوں نے شراب خانوں کے مالکان بدل ڈالے اور کہا وہ شراب خانوں میں اب اور امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔

 

اس وقت بریڈفورڈ آئی ڈبلیو اے کی نسل واد مخالف سرگرمی کا ایک طرح سے مرکز تھی۔ جزوی طور پہ اس کی ایک وجہ  آئی ڈبلیو اے ک اس شاخ کے اراکین نوجوان تھے۔ دوسری شاخوں میں ممبران جیسے ویسٹ مڈلینڈز تھی میں ممبران پرانی نسلوں کے تھے۔ ان کے پاس ہندوستان میں جدوجہد کا تجربہ تھا جسے وہ یو کے میں ساتھ لائے تھے۔ لیکن بیڈفورڈ شائر کے لوگ بہت نوچوان تھے، وہ یو کے ميں ہی پلے بڑھے تھے اور تنظیم سازی بارے ان کے تصورات بھی قدرے مختلف تھے۔

 

اس نسبتا نوجوان نسل کے اندر سے آئی ڈبلیو اے کے دلت ممبران آئے تھے۔ ان میں سے ایک بلبیردت تھا۔ وہ ترقی کرتے ہوئے بعد ازاں آئی اے ڈبلیو کا مرکزی جنرل سیکرٹری کے عہدے تک پہنچا اور کمیونٹی میں بہت مقبول تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے کریا کرم  کی رسومات اس کی اپنی کمیونٹی (دلت جاتی کی ذیلی جات بالمیکی) کے مندر میں ادا نہ کی جاسکیں کیونکہ وہاں جگہ بہت کم تھی۔ اس کی ارتھی کے جلوس میںبہت سارے لوگوں کی آمد متوقع تھی تو اس کی آخری رسومات سکھ گورودوارہ میں ادا کی گئیں جو کافی کشادہ تھا۔ ارتھی کا جلوس اس قدر لمبا تھا کہ پولیس کو بیڈفورڈ کے باہر سے ٹریفک کو متبادل روٹ پہ ڈالنا پڑا۔ وہ اس قدر لوگوں میں نام رکھنے والا شخص تھا۔ لیکن پھر بھی آئی ڈبلیو اے کی آفیشل کہانی میں اسے اکثر بھلا دیا جاتا ہے۔

 

ڈی ایم: یہ تو ظاہر ہے کہ آئی ڈبلیو او کی سیاست کافی پیچیدہ تھی۔ اس کے ممبران  نسل پرستی کے خلاف متحد تھے۔ لیکن جیسے کہ آپ کہتے ہیں جاتی پہ مبنی امتیازی سلوک وہاں موجود تھا نہ صرف تنظیم کے اندر اور بڑے پیمانے پہ یو کے میں بھی۔ کیا آپ تھوڑا کھول کر بتاسکتے ہیں کہ وہ امتیازی سلوک نظر کیسے آتا تھا؟  

 

ڈی ایس: بات یہ تھی کہ جو دلت برطانیہ آتے وہ بہت ہی غریب ہوا کرتے تھے، تو ان کو تارک وطن سے قرضہ اٹھانا پڑتا، جبکہ اونچی جاتی سے تعلق رکھنے والے لوگ جیسے جاٹ پس منظر کے لوگ تھے وہ اپنی زمینں رہن رکھوا کر یہاں آتے تھے۔ تو اونچی جاتی کے لوگ ہمیشہ نچلی جاتی کے لوگوں کے مقابلے میں آغاز سے ہی اچھی حالت سے آغاز کرتے تھے۔ لیکن جب ہندوستانی پہلے پہل یو کے آئے تھے تو چاہے ان کا تعلق کسی بھی جاتی سے تھا ان کو جات واد کی قائم کردہ حدود کو ضرورت کے سبب توڑنا پڑا تھا۔ ان کو بہتر رہائش، مل جل کر رہنے ، نوکریاں تلاش کرنے جو کم ہی دستیاب تھیں کے لیے ایک دوسرے سے جات پات سے ہٹ اککر تعاون کرنا پڑا تھا۔ ان کو بین المذاہب اشتراک بھی کرنا پڑا تھا۔ جب گرودوارہ کی  ضرورت تھی تو جاٹ سکھوں کو روی داسوں اور بالمکیوں کے پاس جانا پڑا جنھوں نے پھر اس کے چندہ بھی دیا۔

 

البتہ جب ہندوستان سے عورتیں آئیں اور ان کی شادیاں ہندوستان اور یہاں رہنے والوں کے درمیان ہونے لگیں تو جاتی واد مضبوط طریقے سے ابھرنا شروع ہوگیا۔ دلت اس وقت گرودوارہ سے باہر کردیے گئے تو انھوں نے اپنی تنظمیں بنانا شروع کردیں۔

آئی ڈبلیو اے ایک حد تک ان ہی حرکیات کا پرتو تھی ۔ لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ ہر آدمی ہی ایسا ہی تھا۔ بريدفورڈ شاخ عام رجحان سے ہٹ کر کسی حد تک ایک استثنا تھی جس میں بہت سارے نوجوان تھے۔ آئی ڈبلیو اے کی قیادت جیسے جوشی اور گوتم اپّا جو لندن اسکول آف اکنامکس سے تھے ان سب چیزوں کی طرف بہت کشادہ رویہ رکھتے تھے۔ لیکن اکثریت اراکین میں جو ہندوستان کے دیہاتوں سے آئے تھے انھوں نے آئی ڈبلیو اے میں خود جات پات کی تقسیم دوبارہ انسٹال کردی تھی۔

 

جاتی کے بھید بھاؤ کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ جینڈر/صنف کا تھا۔ بہت تھوڑی عورتیں آئی ڈبلیو اے میں حصّہ لیا کرتی تھیں۔ آپ ان کو انگلیوں پہ گن سکتے تھے۔ اور اس کا جواز نہیں بنتا تھا اگرچہ وجہ سمجھ آتی تھی۔ بڑي وجہ اس کی یہ تھی کہ قیادت اور کارکنان آئی اے ڈبلیو نے عورتوں کو تنظیم میں لانے کی بہت زیادہ کوشیں ہی نہں کیں۔ ایک طرح سے انھوں نے یو کے ميں پنجابی دیہاتی علاقوں میں پایا جانے والا صنفی تعلقات کا ڈھانچہ  پیدا کردیا تھا۔ بالکل ایسے ہی 1960ء میں امریکہ میں بلیک پاور موومنٹ پہ بھی تنقید کی جاسکتی ہے کہ اس نے بڑی وسیع معاشرت میں پدرسریت کو ازسر نو جنم دے دیا تھا۔ ہم بھی اس سے مستثنی نہ تھی۔

 

ارسلان صمدانی(اے ایس): انڈین ورکرز ایسوسی ایشن میں کیا خاص کردار تھا؟ 

 

ڈی ایس: میں 1980ء میں چند سالوں کے لیے لندن براانچ کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ اس سے پہلے 1970ء میں میں بریڈفورڈ فورڈ برانچ میں سرگم تھا جہاں بلبیر دت آئی ڈبلیو کا ممتاز رہنما بھی کام کرتا تھا جیسا کہ میں نے اس کا زکر پہلے کرچکا ہوں۔ میں ایڈوائس سنٹر میں بھی سرگرم تھا جو ویک اینڈ پہ کام کرتا تھا۔ دت اور میں ایک ٹیم کے طور پہ کام کرتے تھے۔ دوپہرے کے کھانے کے وقفے میں، میں لیف لیٹ کا ڈرافٹ بناتا ،شام کو اس کو فون پہ پڑھ کر سناتا اور مين آئی ڈبلیو اے کے ممبران سے ملاقات کے لیے بیڈفورڈ کا سفر کیا کرتا تھا۔

 

 

اے ایس: آپ نے بلبیر دت کا زکر کیا۔ آپ پہلے زکرکرچکے کہ آئی ڈبلیو اے جیسے بائیں بازو کی طرف مائل ہندوستانی گروپ عام طور پہ جاتی واد سوال کو مسترد کرتے تھے۔ چک موہن جوشی اور بلبیر دت جیسوں کا وہاں ہونا مستثنیات میں سے تھا۔ کیا مسترد کرنے کا یہ عمل آئی ڈبلیو اے کی رہمنائی اونچی جاتی کے لوگوں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے تھا؟ 

ڈی ایس:  کسی حد تک، ہاں۔ قیادت کا زیادہ تر تعلق جاٹ سکھوں پہ مشتمل تھا وہ "دلت سوال” کو سنجیدگی سے لیتے نہیں تھے۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں دلت پینتھر ہندوستان میں فعال تھے۔آئی ڈبلیو اے میں اعلانیہ تو نہیں مگر غیر نمایاں طور پہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ ہر کوئی بطور ورکرز کے متحد ہوجائے تو انقلاب آجائے گا اور "جاتی واد کا مسئلہ” خود ہی حل ہوجائے گا۔

 

مختصر طور پہ حقیقت یہ تھی کہ ہندوستانی لیفٹ میں بہت سارے جن میں آئی ڈبلیو اے بھی شامل تھی میکانکی مادیت پرستی کی گرفت میں تھے۔ کچھ ملیٹنٹ لوگ تو کمیونسٹ مینی فیسٹو ہاتھ میں لہرانے لگتے تھے جب کبھی آپ دلت مسئلہ اٹھاتے۔ وہ کہا کرتے: "ہمیں دکھاؤ یہ کہاں لکھا ہوا ہے۔”

 

 

کسی بھی حالت میں، میرا نہیں خیال کہ آپ "جات کے سوال” کو کتابوں کے زریعے سے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ اسے حقیقی طور پہ سمجھنے کے لیے آپ کو حقیقت میں لڑنا پڑتا ہے۔ عمل بہت ضروری ہے نہ صرف جاتی مواد سے لڑنے کے لیے بلکہ اس کے آپریشن کو کو بھی سمجھنے کے لیے۔ میکانکی مادیت پرستی کے خلاف ، آج جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے اور کل بھی تھی وہ ہے "جات پات” کے سوال کی طرف جدلیاتی مادیت پرستانہ سوجھ بوجھ –

 

اے ایس: ان دنوں جوشی، بلبیر دت اور آپ کے درمیان آئی ڈبلیو اے میں کس قسم کی بحثیں ہورہی تھیں؟ کیا آپ اس سوال پہ روشنی ڈال سکتے ہو؟ دلت سوال پہ اس زمانے میں آپ اور دوسروں کی مداخلتب کس قسم کی تھیں؟  

 

ڈی ایس: ہم کچھ اس طرح کے سوالات اٹھایا کرتے تھے: "جات” ان سب میں کہاں فٹ ہوتی ہے؟ ہمارے ہاں اور زیادہ دلت ممبران کیوں نہیں ہیں؟ جاٹ سکھ برادری سے ہمارے ہاں اراکین زیادہ کیوں ہیں؟

 

آئی ڈبلیو اے کے اکثر لوگوں کا عمومی جواب یہ ہوتا تھا کہ دلت ممبران کو اپنا زیادہ کام اپنی برادری/قوم کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ممبران بنانے پہ صرف کرنا چاہئیے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوآ آئی ڈبلیو اے کے اٹھائے گئے نمایاں ایشوز میں سے اسے ایشو نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح کے جواب نے ہم جیسے دلتوں کو کبھی مطمئن نہیں کرپاتے تھے۔

بتدریج جوشی نے اس طرف قدم بڑھایا اور ہم نے "جات” پہ زیادہ سے زیادہ کام کرنےنگے۔ 1970ء میں ہم نے برمنگھم میں ایک کانفرنس جاتی واد کی اصلیت پہ کی۔اتفاق سے سنت رام اداسی ترقی پسند دلت شاعر اور پنجابی نکسل باڑی جو اس زمانے لندن کے دورے پہ تھے کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ان سے ملنے کے بعد میں سمجھ گیا کہ دلت سوال ہندوستان میں بھی زورو شور سے اٹھایا جارہا تھا۔

بدقسمتی سے اداسی کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوا جب وہ یہاں تھے اور ایسا سلوک ہمارے اپنے ممبران کی طرف سے ہوا۔ ایک شام ہم اداسی کے ساتھ بیٹھے تھے اور سارے کامریڈ بھی تھے۔ اداسی صرف ایک بہترین شاعر ہی نہیں تھا بلکہ وہ طبعی سائنسی علوم میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ یہ جاننے کے بعد کہ ہم سے کچھ کا پس منظر طبعی سائنسی علوم کا تھا تو انھوں نے ہم سے ایٹمی سٹرکچر اور کوانٹم فزکس بارے سوال کرنا شروع کردیے۔‎ی

 

ہمارے کچھ جاٹ کامریڈوں نے ان کو بہت ہی بیوقوفانہ جوابات دیے جبکہ وہ ان کے سنجیدہ جواب چاہتے تھے تب میں نے انکے سوالوں کا جواب دینے کے لیے مداخلت کی ۔ انھوں نے اسے سراہا۔ اداسی جاٹ کامریڈوں کے جات پرستانہ رویے پہ ان کی سرزنش کی تھی ۔

 

اے ایس: تو یہ صرف آئی ڈبلیو اے ہی نہیں تھی جس نے اپنی سیاسی لائن میں جات کو نظرانداز کیا بلکہ اس کے اراکین ، کم از کم جاٹ سکھوں کا رویہ دلت کی طرف نفی کا ہی تھا۔

ڈی ایس: ہاں، یہ رویہ اراکین میں میں تو غالب تھا اور کچھ رہنماؤں میں بھی۔ بعض اوقات سینئر قیادتاعلانیہ تو اسے ظاہر نہ کرتی لیکن آپ دیکھ سکتے تھ کہ وہ اس م‎ئلے سے نبردآزما ہونا ہی نہیں چاہتے تھے۔

جائزبات تو یہ ہے کہ اب بھی ہندوستانی لیفٹ میں بہت سے دلت مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے نہیں جان پائے۔ ہندوستانی لیف اب بھی امبیدکرواد اور مارکس واد کے درمیان محاذ آرائی ميں الجھا ہوا ہے -اور وہ اب بھی اس مسئلے سے دوچار ہے کہ دونوں میں عملی اور نظریاتی سطحوں پہ کیسے مفاہمت پیدا کرے۔

 

اے ایس: کیا آپ ہمیں دلت رہنما بلبیر دت بارے بتاسکتے ہیں؟ وہ کیسے اس جات پات واد کے سیاق و سباق میں آئی ڈبلیو اے کے رہنما بن پائے؟

 

ڈی ایس: بلبیر، اگرچہ ہندوستانی جڑیں رکھتے تھے لیکن وہ اصل میں ملائشیا سے آئے تھے۔ وہ تجسس اور کھوج والا دماغ رکھتے تھے۔ چھٹی حس سے ول بہت ساری باتوں کا ادراک کرلیتے تھے۔ بہت اچھے منتظم/ آرگنائزر تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار ایک انٹرویو کرنے والے صحافی نے ایک اونچی جات کے ہندؤ دکاندار سے پوچھا کہ اچھوت لوگوں کو ہندؤ مندروں میں داخل ہونے کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا کیونکہ وہ ناپاک ہوتے ہیں۔ یہ بیان پریس میں چھپپ تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بلبیر اور آئی ڈبلیو اے کے دیگر اراکین خاص طور پہ دلت اراکین نے دکان کا بائیکاٹ کردیا تھا اور دکاندار کو اپنی دکان بڑھانا پڑی اور وہ علاقہ بھی چھوڑنا پڑگیا۔

 

پھر بریڈ فورڈ میں ایسے عوامل تھے جنھوں نے بلبیر جیسے دلت رہنماؤں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ آئی ڈبلیو اے کی اس برانچ میں نوجوان زیادہ تھے۔ ان میں بہت سے سارے دلت بھی تھے آئی ڈبلیو اے کی بریڈفورڈ شاخ میں جاٹ سکھوں کی نوجوان نسل بھی تھی جو یا تو انگلیڈ اس وقت آئے تھے تو بہت کم عمر تھے یا وہ یہیں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ذہنیت مختلف تھی۔اور جات کے مسئلے پہ ان کا کے سوچنے کا انداز ترقی پسندانہ تھ- جبکہ دوسرے کسی ٹآؤں میں آئی ڈبلیو اے کی شاخ میں دلت کا رہنما بننا ناقابل قول تھا- یہ صرف بریڈ فورڈ میں ہی ہوسکتا تھا کہ وہاں دلت بلبیر رہنما بن سکتا تھا۔

شوذب رضا(ایس آر): میں آئی ڈبلیو اے کا سیاہ فامیت سے تعلق بارے پوچھنا چاہتا ہوں۔  اب تو بہت سارے لوگ دلت اور سیاہ فام کے درمیان یک جہتی کی بات کرتے ہیں۔ فاصلے کو پاٹنے کی یہ دعوت ان دونوں برادریوں اور ان کی جدوجہد نے اپنے مشترکہ تجربے سے سیکھی ہے جو ان کو آمریت پسند حکومتوں کے دوران ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہندوستان میں مودی سرکار اور امریکہ میں ٹرمپوابھاجی کی سرکار میں ہوئے۔

 

 

کچھ طریقوں سے آئی ڈبلیو اے کا تجربہ دلت سوال اور سیاہ فام سے یک جہتی کی طرف مختلف انداز سے دیکھنے پہ مبنی ہے اور اس کی وجہ برطانیہ کی سطح پہ اس زمانے کی خاص انداز میں ہوئی نسلیت پرستانہ طبقاتی سیاست تھی۔ تب آئي ڈبلیو اے کے اراکین اپنے آپ کو "سیاہ فام” کے طور پہ چان چگے تھے۔ ان کے ہاں سیاسی سیاہ فامیت کا تصور تھا جس کا فہم ان کے لی مالیکم ایکس اور سٹاکل لے کار مائیکل نے آسان بنئی تھی اور اس سوجھ بوجھ کی بنیاد پہ وہ سالیڈرٹی (یک جہتی) کے احساس سے بھی اوپر چلے گئے تھے۔ آئی ڈبلیو اے نے خود کو بلیک پاور موومنٹ کے حصّہ کے طور پہ دیکھا ناکہوہ اس کے ساتھ محض یک جہتی کے ناط جڑے تھے۔ اس لیے سیاہ فام اور دلت کے درمیان جس قسم کا امتیاز تھا جس پر آج کی معاصر سیاہ فام-دلت یک جہتی کے دعوتی پیغامات کی بنیاد ہے ضروری نہیں ہے کہ اس وقت موجود ہو۔ کیا آپ اس بارے میں کوئی تبصرہ کرسکتے ہیں کہ آئی ڈبلیو اے اور خاص طور پہ اس کے دلت اراکین نے کیسے سیاہ فامیت سے اپنے تعلق کا ادراک کیا؟ 

 

ڈی ایس: یہ بہت دلچسپ سوال ہے۔

یہ بہت  اچھی بات تھی کہ دو گروپوں کے درمیان بین البراعظمی اتحاد تھا۔ آئی ڈبلیو اف اراکین (بشمول دلت) نے خود کو سیاہ فام کی طرح دیکھا چاہے وہ برطانیہ میں تھے یا امریکہ میں۔ لیکن وہآں تضادات بھی تھے۔ ایک طرف ـ ـئی ڈبلیو اے نے سیاسی اعتبار سے اپنےآپ کو سیاہ فام کے مماثل قرار دے لیا لیکن اسی وقت میں انھوں نے دلت کے ساتھ استحصال اور جبر کو امتیازی اور مخصوص ماننے سے انکار کردیا۔ یعنی ان کی جو مخصوص سیاہ فامیت تھی۔۔۔۔  سیاسی اعتبار سے سیاہ فام ہندوستانی ہونے کی مجموعی درجہ بندی کے اندر( دلت پہ جو مخصوص جبر اور استحصال تھا اس کا انکار)

 

امبیدکر اس سے کہیں زیادہ متفق تھا کیسے دلت اور سیاہ فام سیاسی سیاہ فام ہندوستانیوں سے ایک جیسے تجربات سے گزرے تھے۔ جب وہ امریکہ میں تھا تب سے وہ شہری حقوق کی تحریک سے رابطے میں تھا۔ وہ امریکہ میں سیاہ فام مسئلے کو سمجھ چکا تھا جیسے وہ ہندوستان میں اسے ملتے جلتے "دلت سوال” کو سمجھ چکا تھا۔

 

 

لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ سیاہ فام سوال دلت سوال جیسا کیسے ہے اور اس سے مختلف کیسے ہے؟ میرے نزدیک ایک مماثلت جس پہ یک جہتی کی بنیاد بھی ہے اور وہ ہے نوآبادیاتی نظام/ کالونیل ازم ۔ امریکہ میں سیاہ فام نسل واد کی مخالفت نسل واد مخالفت اور غلامی تھے۔ یہ بہت واضح ہے۔ جبکہ جات کا سوال یا جات کی بنیاد پہ امتیازی سلوک  ہندوستان میں آدی واسیوں کو داخلی نوآبادیائے جانے کی وجہ سے ہوا جو کہ جات پات کی درجہ بندی میں بطور اچھوت کے گھیسٹ لائے گئے تھے۔ اسی طرح سے ان کو جات پات کی درجہ بندی میں دوسرے شودر جاتوں کے برابر ٹھہرادیا گیا۔ جات اور نسل دونوں  سماجی ساختیے ہیں  جو کالونیل ازم کی وجہ سے پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔ ایک خارجی امر تھا تو دوسرا داخلی امر۔ لیکن دونوں ہیں طبقاتی جدوجہد کی پیداوار جو بذات خود نوآبادیاتی نظام کا جزو اور ٹکڑا ہے۔

 

حال میں تحریکیں اس مسئلے کو نسل اور جات کے درمیان تعلق اور ربط کے حوالے سے بلند کررہی ہیں – ان تحریکوں کے مخالفین بھی ہیں۔ جب جات  کی بنیاد پہ امتیازی سلوک نسل پرستی کی ایک شکل کے طور پہ 1990ء میں اقوام متحدہ میں لیجایا گیا تو ہندوستان کی حکومت کا کہنا تھا کہ جات نسل جیسی چیز نہیں ہے۔/ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ماہر بشریات نے بھی دلیل دی کہ جات کو ہم نسل جیسے سماجی ساختہ کے طور پہ نہیں مان سکتے۔ لیکن ہماری دلیل  تھی  جب کاسٹ نسل جیسی نہیں ہے لیکن نسل واد جات پات کی بنیاد پہ امتیازی سلوک جیسا ہے۔ اور دونوں کی تاریخ میں جو مشترک چیزیں ہیں وہ ہے نوآبادیاتی نظام اور طبقاتی جدوجہد۔

 

ایس آر: یہ بات مجھے دوسرے سوال تک لے آئی ہے۔ آج کی جو سیاہ فام- دلت یک جہتی کی آوازیں 70 کے دلت پینتھرز کی کوششوں سے کیسے قابل موازانہ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو بلیک پینتھر پارٹی کی نہج پہ ڈھالا تھا؟ میرے نزدیک یہ ایسا لگتا ہے  کہ وہ ابتدائی کوشیں بہت زیادہ ملیٹنٹ تھیں: انھوں نے جات کے سوال کو طبقے کے مسئلے، کمیونزم / سوشلزم سے جوڑ دیا تھا۔ دلت پینتھر نے دلت شناخت کو ایک ایسی شناخت کے طور پہ دیکھا جو سادہ طور پہ جات واد کو الٹ دے گی بلکہ سرمایہ داری نظام کو بھی تلپٹ کردے گی۔ اور پلیک پینتھر پارٹی نے بھی سیاہ فام شناخت کو لیکر ایسے ہی دلائل جنے۔ ان دنوں بھی یہ متحد لگتی ہے یعنی دلت سیاست اور سرمایہ داری مخالفت کے اشتراک جیسی یا سیاہ فام سیاست اور سرمایہ داری مخالفت کے باہم اشتراک جیسی۔ مثال کے طور پہ سوراج یگندے نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا کہ دلت ایک ایسی (سماجی ساختہ) درجہ بندی ہے جو جبرکرنے والے سے بات چيت اور مکالمے کو ممکن بناتی ہے اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہ شناخت بارے ایک ایسا موقف اپناتی ہے جو دلت پینتھر کے دیے ہوئے معانی سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ آپ اس پہ کچھ تبصرہ کرسکتے ہیں؟

 

ڈی ایس: ہاں، ہم اور دوسرے دلت کارکن خاص طور پہ 70 اور 80 کے عشروں میں زیادہ ملیٹنٹ تھے۔ دلت تحریک اس وقت زیادہ ملیٹینٹ تھی کیونکہ امریکہ میں بنی بلیک پینتھر کی طرز پہ انھوں نے اپنے آپ کو ڈھال لیا تھا جیسا کہ تم نے کہا لیکن اس کی وجہ ہندوستان میں ری پبلکن پارٹی کا آس زمانہ میں منتشر ہونا بھی تھا، جب کہ امبیدکر 1956 میں گزر کئے تھے۔ وہ انتشار اور ٹوٹ پھوٹ ای؛سی تھی جس نے دلت کو یہ سوال اٹھانے پہ اکسای؛ا: اب ہم کیا کریں گے؟ تو کچھ تو اصلاح پسندانہ سیاست کی طرف مڑ گئے جبکہ کچھ اس کے ردعمل میں اور زیادہ ملیٹنٹ شکلوں کی طرف۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمنے دلت پینتھر تحریک کی پیدائش ہوتے دیکھی۔ اب بہرحال یہ بتدریج تقسیم ہوگئی  اور تین سے چار مختلف اطراف میں چلی گئی۔ ان کے لیڈروں میں سے ایک تو بی جے پی کا رکن ااور مرکزی سرکار میں وزیر بھی ہے۔

 

لیکن یہ مت بھولیں کہ ہندوستان میں اس وقت زیادہ تر دلت نے اپنے آپ کو دلت کے طور پہ پیش بھی نہيں کیا تھا: صرف سرگرم کارکن اور دانشور یہ لفظ استعمال کرتے تھے۔ آج دلت شناخت بہت وسیع طور پہ استعمال ہونے والا لفظ بن چکی ہے۔ یقینی طور پہ یہ دلت پینتھر کا ورثہ ہے۔ لیکن آج کی نسل کے دلت کارکنوں کے اہم ترین سیاسی کام کا بھی یہ نتیجہ ہے۔/

 

ڈی ایم: یہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ آئی ڈبلیو اے کی اکثریت نے "جات” کو مسترد کردیا تھا، لیکن تب اسی وقت انھوں نے اپنے آپ کو سیاہ فام سیاست کے مماثل خیال کرلیا گیا۔ میرے نزدیک یہ تنظیم کے اندر بہت واضح تضاد تھا۔ آئی ڈبلیو اے کی یک جہتی سیاہ فامیت کے ساتھ اس مفہوم میں آج کے دلت اور سیاہ فام کے درمیان یک جہتی سے بالکل مختلف تھی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس بارے ميں کچھ اور بھی کہیں۔

 

 

ڈی ایس: ہآں، یہ بہت پیچیدہ سوال ہے۔ تمہارے پیچیدہ سوال کو سمجھنے کے لیے آپ کو تاریخ پہ نظر ڈالنا ہوگی- اور آپ کو اس حقیقت کو زیر غور لانا پانا پڑے گا کہ تضاد تو ہرجگہ موجود ہے۔

اب، 70 کی دہائی میں بلیک پینتھرنے چینیوں کو اپنے ماڈل بنایا۔ وہ ماؤ واد اور "ریڈ بک(سرخ کتاب از ماوزے تنگ) کے زیراثرتھے۔ وہ کالونیل ازم اور امپریل ازم اور ان کے ریس ازم سے ربط بارے مطالعہ کررہے تھے۔ اور بہترین ماڈل جو وہ سوچ سکے وہ ماؤ وادیوں کا تھا۔ خود اپن اوپر ہونے والے جبر کو فکری نظریہ میں ڈھالتے ہوئے انھوں نے ماؤواد ماڈل کو اس کے ایک حصّے کی تشریح کرنے والا پایا۔ اور دوسرے حصّے کی وضاحت انھوں نے سیاہ فام کی بغاوتوں جیسے ہیٹی میں ہوئی تھی میں پائی۔ دلت پینتھر مؤ اور چین کے زیر اثر براہ راست نہیں آئے تھےبلکہ ہندوستان میں نکسلائٹ کے ساتھ تعلق کے زریعے سے آئے تھے۔

برطانیہ میں دیکھیں تو آئی ڈبلیو اے کی قیادت امریکہ و برطانیہ بلی پاور موومنٹ کے ساتھ رابطے میں تھی پھر بھی وہ ویسا ہی تضاد اپنی کمینٹی کے اندر رکھتے تھے اور وہ تھا ” جات پات کا تضاد” جس کا سامنا وہ نہيں کرسکے۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں تضادت ہرچکہ ہیں- آئی ڈبلیو اے  جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں برطانیہ مں سب سے بڑی ترقی پسند تنظیم تھی  اپنی برتری کھو بیٹھ جب اس نے خود اپنی تنظیم میں اس تضاد کو نظر انداز کردیا۔ دوسری جزوی وجہ اس کے زوال کی یہ تھی کہ گروپ کی یہ تھی کہ فیکٹریوں اور اورفونڈریز 1970 میں ڈھے گئی تھیں اور اس کے ساتھ ہی اس کی ٹریڈ یونینوں میں جو بنیاد تھی وہ بھی ڈھے گئی تھی – لیکن میرے نزدیک اس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جات پر پیدا ہونے اندرونی تضادات کی پرواہ نہ کی۔ لیکن جینڈر بارے تضادات کو بھی اس نے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔

 

ایس آر:  یہ وقت مناسب ہے کہ ہم سوالات کے دوسرے سیٹ کی طرف جائیں جو آپ سے کرنا ہیں: خاص طور پہ امبیدکر- مارکس کے درمیان تناؤ بھرے تعلق بارے۔ وہ تناؤ جو بدنامی کی حدتک امیبیدکر اور ایس اے ڈانگے کے درمیان بحث کے درمیان پیدا ہوئی – ڈانگے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی تھے۔ اوریہ بحث اس وقت ہوئی جب ڈانگے بمبئی ٹیکسٹائل ورکرز یونین کو منظم کررہے تھے۔ امبیدکر چاہتے تھے کہ ڈانگے  مزدوروں کے درمیان جات کا مسئلہ اٹھائیں، لیکن ڈانگے نے انکار کردیا تھا اور ان کا کہنا یہ تھا کہ جات بارے بات چیت مزدوروں کو تقسیم کرے گی۔ امبیدکر کا جواب تھا کہ جات نے پہلے ہی مزدوروں کو تقسیم کر رکھا تھا۔

ب سے لیکر ابتک امبیدکر اور مارکس میں مفاہمت پیدا کرنے کی اس یا اوس راستے سے پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یا یہ کہا جارہا ہے کہ ان دونوں کے درمیان مفاہمت ناممکن ہے۔

آپ کا موقف جو آپ ماؤ کو استعمال کرکے نتھار کر لاتے ہیں یہ ہے کہ یقینی طور پہ تضاد تو ہے لیکن بالکل ہی غیر مطابقت پذیر نہیں ہے۔ تو یہ جو ںظریاتی طور پہ آپ مفاہمت کی بات کرتے ہیں اسے مزید کھول سکتے ہيں؟اور مزید کہ ایسی نظریاتی مشق کے سیاسی عمل کے لیے کیا معانی ہوں گے؟ 

 

ڈی ایس: آئیں ڈانگے اور امبیدکر سے شروعات کرتے ہیں – اس وقت جب امبیدکر لیفٹ طاقتوں کے ساتھ شریک ہونے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ انھوں نے دو چیزوں کی تشیض کی تھی جو کہ دلت لوگوں کی دشمن تھیں: براہمن واد اور سرمایہ داری – اگر آپ اسے کلاسیکل مارکس واد نظریے کے تناظر میں دیکھیں تو براہمن واد بالائی ڈھانچہ/سپر سٹرکچر اور سرمایہ داری زیریں /بنیادی ڈھانچہ/ انفراسٹرکچر بنتے ہیںں تو وہ سماج وادیوں کے ساتھ شریک ہونے مين درست تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائیں بازو کی قیادت کی اپنی صفوںمیں جات کو لیکر تضادات تھے۔ قیادت پہ براہمن جات سے تعلق رکھنے والے کمیونسٹوں کا غلبہ تھا۔

 

ڈانگے یقینی طور پہ ٹھیک تھا جب اس نے امبیدکر کی مخالفت تھے ۔ لیکن کچھ نظریاتی کارنامون کی سطح پہ آپ دیکھیں جو ڈانگے نے اس زمانے میں سرانجام دیے وہ قطعی باغیانہ تھے۔ مثال کے طور پہ اس نے اپنے نسبتی بیٹے کی کتاب ” ویدانت کی دنیا” پہ  پیش لفظ لکھا- وہ کتاب فلسفہ ویدانت اور مارکس واد کے درمیان مفاہمت دکھانے کے لیے لکھی گغي تھی۔ اس کی اپنی جماعت نے اس کے اس عمل کی مخالفت کی تھی۔ اس نے خود بھی ایک کتاب لکھی ” ہندوستان ابتدائی کمیونزم سے غلام داری تک” ۔ اس وقت ڈانگے کے دوست ای ایم ایس نمبودرپد نے بھی اس میں نظریاتی اعتبار سے اپنا تحریری حصّہ ڈالا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ براہمن واد ہندوستان کی تاریخ میں مثبت رجحان تھا۔ جیسے تمام بڑے جھوٹ میں ہوا کرتا ہے اس میں بھی کچھ سچ شامل تھا۔ جب براہمن واد قبائلی سماجوں میں گیا تو وہاں اس نے جدید طریق پیداوار کو متعارف کرایا- انھوں نے جدید کاشت کاری کی طاقت کو وہاں پھیلایا جہاں شکار جمع کرنے اور ابتدائی سطح کی کاشت کاری رائج تھی۔ تو تاریخی اعتبار سے یہ ترقی پسند تھا لیکن اس نے فائدہ بالائی جات کے سماجی گروہوں کو فائدہ پہنچایا۔ ای ایم ایس کا اصل مقصد تو نظریاتی سطح پہ امبیدکر کی مخالفت کرنا تھا۔

 

امبیدکر اور ڈانگے درمیان اختلاف صرف مل مزدوروں کی ہڑتال کے سوال اور اس مکالمے تک محدود نہ تھی بلکہ وہ اسے کہیں گہری تھی۔ میرا خیال ہے کہ امبیدکر امبیدکر مارکس ازم کو اچھے سے پڑھے ہوئے تھا۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اپنی فکر کے کئی پہلوؤں کے اعتبار سے وہ مارکس وادی تھا۔(مثال کے طور پہ جات پات، صنف/جینڈر، نسلیت اور مذہبی / کمیونل سوالات پر اس کی سوچ مارکس وادی تھی) لیکن وہ فکری سوچھ بوجھ کے لحاظ سے مارکس وادی تھا کسی بھی رسمی لیبل کے بغیر۔ اگر آپ اسے باقاعدگی سے پڑھیں تووہ بہت واضح خیالات کا مالک نظر آئۓ گا- مثال کے طور پہ اگر آت اس کی کتاب "بدھا اور کارل مارکس” پڑھیں تو میری بات آپ کو سمجھ آئے گی – وہ کہتا ہے کہ پرولتاریہ کی آمریت ہندوستان کے لیے بہترین تصور ہے۔

 

وہ تشدد/وائلنس کے سوال کو بھی زیر غور لاتا ہے۔ اگرچہ وہ بدہسٹ ہونے کے ناطے تشدد کو ناپسند کرتا ہے لیکن وہ پھر بھی اس بارے بہت ہی محتاط موقف اپنایا۔ وہ اپنی طرف انصاف کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عدم تشدد ایک قانون /رول تو ہے لیکن یہ اصول نہیں ہے۔ یا تو آپ قانون توڑتے ہو یا قانون آپ کو توڑتا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے، اگر آپ قانون سے سختی کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں تو یہ آپ کو توڑدے گا لیکن اگر آپ اپنی طرف انصاف کرتے ہیں اور تشدد ایک مدافعتی تشدد ہو تو تب آپ اسے استعمال میں لاسکتے ہو۔

 

میرے نزدیک امبیدکر کی مارکس کے ساتھ جڑت یہ دکھاتی ہے کہ ہندوستان میں لیفٹ اور دلت کے درمیان کوئی ایسا تضاد نہیں ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق پہ فتح یاب ہوگا تو تضاد ختم ہوگا۔ ایک ساتھ رہتے ہوئے آپ تضاد کے دونوں طرف مستقل طور پہ نہیں رہ سکتے اگرچہ عارضی طور پہ وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ دلت اور لیفٹ ہندوستان میں اکٹھے ایک ساتھ بالائی طبقات اور جاتیوں سے مسلسل کشاکش والے تضاد میں ہیں اور دونوں کا ایک مشترکہ مقصد بالائی طبقات اور جاتیوں پہ مستقل فتح پانا ہے ۔جبکہ دلت اور بائیں بازو کا جو تضاد ہے وہ مستقل کشاکش والا نہیں یہ ایک کی دوسرے پہ فتح کے بغیر بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

 

آر ایس ایس کا اکثریتی ہندتوا پروجیکٹ اسے قبائلیوں/آدی واسیوں، دلت ، مسلمان، مسیحی اور دوسری پسماندہ جاتیوں کے ساتھ مستقل تضاد میں ڈال دیتا ہے۔ ناگزیر بات ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کی بھاری اکثریپ کے ساتھ مستقل تضاد میں ہے اور اس کا پرامن بات چیت کے زریعے سے نہیں ہوسکتا۔ یا تو آر ایس ایس جیتے گی یا اکثریت چیتے گی۔ سیاسی طور پہ بولیں تو یا یہ ناش ہوگی یا وہ فنا ہوجائیں گے۔ اگر کوئی تعطل آئے گا تو یہ تضاد چلتا رہے گا یہاں تک کہ یہ تعطل ایسے وقت ٹوٹے گا جب کوئی ایسی چیز ہوگی جیسے آج کل کسانوں کے احتجاج سے ان کا سلوک دیکھ رہے ہیں اور بڑے پیمانے پہ ناقد دانشوروں اور ایکٹوسٹوں کی گرفتاریوں کی صورت ہمیں نظر آرہا ہے۔

 

دوسری طرف مثال کے طور پہ ہم غیر مستقل تضاد دلت اور مسلمانوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے اختلاف تو ضرور ہے لیکن اسے مذاکرات سے دور کیا جاسکتا ہے خاص طور پہ جب ان کا دشمن ایک ہے اور ول ہے آر ایس ایس اور بی جے پی۔ اب ماضی میں آر ایس ایس ک کیڈر جاتا اور ول دلت کو بھرتی کرلیتے ہیں اور کبھی کبھار مسلمان کے خلاف لڑائی ميں ان کو مخاذ میں صف اول میں بھیج دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آر ایس ایس نے دلت اور مسلمانوں کے درمیان عارضی تضاد کو مستقل تضاد میں بدلنے کی کوشش کی۔

 

اس سے کیا پتا چلتا ہے – یہی ناکہ  براہمنی آئیڈیالوجی/فکر  تضاد کے قانون کو اچھے سے سمجھتی ہے۔ ہندتوا ماؤزے تنگ کو آجھے سے جانتی ہے اور وہ اس کی فکر کو نافذ کرنا بھی اچھے سے جانتی ہے۔ گزشتہ بیس تیس سال سے بی جے پی-آر ایس ایس  عوام میں رہ رہی ہیں اور ان کو اپنی فک اچھے سے پڑھا چکی ہے۔ انھوں نے آسانی سے عارضی تضادا کو مستقل تضادات میں بدل ڈالا ہے۔ اور آخری دس سالوں میں انہوں نے ان سب کے خوب ثمرات اٹھائے ہین۔

 

خوش قسمتی سے ان کے غلبے میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ دلت تیزی سے سمجھ رہے ہیں آر ایس ایس سے اتحاد بنانا ان کی غلطی  تھی۔ ہم بھی مثال کے طور پہ دوسرے مذہبی گروہوں کو مسلمانوں کا تحفظ کرتے دیکھ رہے ہیں۔ ژثال کے طور پہ جب آر ایس ایس نے پنجاب کے کچھ حصّوں میں خاص طور پہ پھاگوارہ ميں مسلمانوں کو مستقل حریف بناکر پیش کرنے کی کوشش کی تو آر ایس ایس کے بھگتوں کو سکھوں نے پھینٹی لگائی کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی ایک ہی وقت میں سارے لوگوں کو نکال رہی ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ یہ ان کا فرض ہے مسلمانوں کی حفاظت کی جائے۔ اور اب پنجاب میں مسلمان سکھ کسانوں کے لیے کھانے پکارہے ہیں۔ لوگ اب سمجھ رہے ہیں کہ ہندتوا کا کھیل رہے ہیں کہ وہ حل ہوجانے والے مذہبی برادریوں کے باہمی تضادات کو ناقابل حل تضادات می بدلنے کا پريوگ کررہی ہے۔ 

 

یہاں پہ ہم انتینوگرامچی کی اصطلاح "کارپوریٹ مفادات” پہ غور خوض کرتے ہوئے ماؤ (کی فکر) کو تھوڑ اور اگے بڑھا سکتے ہیں۔ تو اس کا مطلب کیا نکلے گآ؟ اس کا مطلب ہوگا اگر آپ اپنے آپ کو آزد کرانا چاہتے ہو تو جو آپ سے تھوڑا سا مختلف موقف رکھتے ہوں ان کی آپ کو مدد کرنا ہوگی۔ آگر آپ مرد ہو تو آپ عورتوں کے حقوق کے لیے بھی لڑسکتے ہيں۔ کیونکہ تبھی آپ حقیقی طور پہ خود کو آزاد محسوس کروگے۔ یا آگر آپ ایسے ہی دوسری پسماندہ جاتیوں سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کی آزادی بھی دلتوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ ایسے ہی آگڑ دلت ہو تو آپ کی آزادی بھی دوسروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔

 

 

مثال کے طور پہ دلت بھیم فوج کے نیتا چندر شیکھر آزاد انہی حقائق کی بنیاد پہ کسانوں کی مانگوں کی حمایت کرنے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں کی حمایت اس وجہ سے کررہے ہیں اگر یہ قانون سازی نافذ ہوگئی تو ملٹی نیشنل ايگری بزنس آئے گا اور اوسط درجے کا کسان قلاش ہوجائۓ گا اور وہ کھیت مزدور بن کر کام کرنے پہ مجبور ہوں گے، اناج کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ جائیں گی اور ان کے لوگ متاثر ہوں گے۔ راون اس بات کو پہچان گیا تھا، اگرچہ دلت لوگوں کو کسانوں کی مانگوں کی حمایت سے فوری فائدہ تو کوئی ہونے والا نہیں تھا ان کو جو بھی حاصل ہونا ہے وہ درمیانی مدت یا طویل مدت میں ہونا ہے۔

 

ایس آر: تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بے زمین دلت جو پنجاب میں ہیں وہ بھی چھوٹے جاٹ سکھ کسانوں سے غیر مستقل تضاد ميں ہیں؟ 

 

ڈی ایس: یقینا- یہ کبھی مستقل حریفانہ پن ہوا کرتا تھا، لیکن تب ہم نے بہار اور دوسرے علاقوں سے پنجاب میں دلت کی داخلی ہجرت دیکھی۔ پنجاب کے جات کسانوں نے اوپر کی طرف جانے کا تجربہ کیا ہے اور کچھ کی خوشخالی تقسیم نو سے نیچے کی طرف گئی ہے۔ پنجاب میں دلت اب شاید دلتوں میں سب سے خوشخال دلت ہیں۔ دلت مخالف جو مظالم ہم پنجاب میں دیکھا کرتے تھے اب وہ غائب ہوچکے ہیں اور جاٹ سکھ کسان کسانوں کی تحریک کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھیں سیاسی طور پہ دلتوں کی ضرورت ہے۔

 

تو تضادات تو ہمہ وقت بدلتے رہتے ہیں اور اہم بات یہ سمجھنا ہے کہ تضادات کب تبدیل ہوں گے۔ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے تضادات ایک جیسے نہیں رہتے: یہ پروسس ہیں ناکہ جامد چیزیں۔

 

ڈی ایم: آپ نے معاصر کسان تحریک کا ذکر کیا اور بتایا کہ پنجاب میں دلت اور جاٹ کسانوں کے درمیان تضاد کیسے تبدیل ہوا ہے۔ لیکن مجھے اس بات میں شک ہے کہ یہ بہت حد تک تبدیل ہوا ہو۔ دلت پنجاب کی کل آبادی کا 35 فیصد ہیں، لیکن ان میں محض تین اعشارریہ پانچ فیصد قابل کاشت زمینوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ کسان بل دلتوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا، کیونکہ وہ لازمی اپنی ملکیت میں موجود انتہائی کم زمین کھوبیٹھیں گے۔ دلت اور جاٹ سکھوں میں تضاد اگر عارضی بھی ہو تب بھی یہ موجود ہے اور حقیقی ہے۔ سب سے اموپر ہمارے پاس جو ہندوستان کا موجودہ تصور ہے وہ براہمنی قوم پرستی سے نتھی ہے جو کہ مذاہب کے درمیان اور جاتیوں کے درمیان اتحاد اور وحدتوں کے قیام میں روکاٹیں کھڑی کررہا ہے۔ لیفٹ یقینی طور پہ ان مختلف گروپوں اور مفادات کو اکٹھا کرنے میں بہت اہم ہے، لیکن کسی حد تک وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ 

 

ڈی ایس: میرے خیال میں دلت اور جاٹ سکھوں کے درمیان پنجاب میں جو غیر مستقل تضاد ہے اس پہ ان کے درمیان جو مستقل تضاد ہے بطور ایک گروپ کے وہ غالب آچکا ہے اور وہ سامراجیتی اور مقامی سرمائے کے درمیان پایا جانے والا تضاد ہے۔ ماؤواد کی اصطلاح کو استعمال کیا جائے تو یہ "پرائمری/ بنیادی تضاد ہے۔ پہلے یہ ثانوی تضاد ہوسکتا تھا لیکن کسانوں کی تحریک کی وجہ سے اولین اور پرائمری تضاد بن چکا ہے۔ تو اگر یہ پرائمری تضاد ہے تب جاٹ سکھوں اور دلت میں جو تضاد ہے وہ ثانوی ہے۔ اب پرائمری تضاد سے نمٹنا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس میں ایک فریق کو ہر حالت میں جیتنا ہے۔ اگر بل پاس ہوجاتے ہیں اور کسان کاروبار سے باہر ہوجاتے ہیں تو دلت کیسے اناج کو حریدنے کی استعداد برقرار رکھ پائیں گے اور اپنے خاندانوں کو کیسے پالیں پوسیں گے؟ دلت کا جاٹ سکھوں سے اتحاد ان کی بقا کا مسئلہ ہے۔

 

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دلت اور جات سکھوں کے درمیان جو تضاد ہے اسے ایڈریس نہیں کرنا چاہئیے۔ اس سے بھی نمٹنا ہے لیکن اتحاد اور یک جہتی کے تمام تر فریمورک کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے پہ تنقید بھی کرنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اتحاد بھی برقرر رکھا ہے یعنی یہ ایک جدلیاتی پروسس ہوگا۔ اگر ہم ایک دوسرے پہ تنقید کی شدت کو بڑھائیں گے اور اسے بکھرجانے کی نہج پہ پہنچادیں گے تو ہم سب ہندتوا کے غلبے کو مضبوط تر کردیں گے۔

 

لیفٹ اس میں اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم ایسے بہت سارے لیف ونگ گروپ ہیں جو امبیدکر کی  تمام ترکمزوریوں پر انتہائی شدید تنقید کرتا ہے  اور ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے لیکن اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا- بالکل ایسے ہی جیسے دلت کا لیفٹ پہ بس شدید تنقید کیے جانے سے کوئی مقصد حصل نہیں ہوتا۔ بلکہ آپ کو اپنی تنقید کو تضاد کو سمجھ کر مرتب کرنا ہوگی تو جو تضاد بنیادی ہے اور اولین ہے اس پہ شدید تنقید کرنا ہوگی اور جو تضاد ثانوی ہے اور وقتی ہے اس پہ دوستانہ تنقید کرنا ہوگی تاکہ یک جہتیوں کو نقصان نہ پہنچے۔

 

آخرکار مارکس واد اور امبیدکر واد کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے آپ جس نتیجے پہ پہنۃے ہیں وہ ہے تہت ساری مختلف سطحوں پہ لڑنا۔۔۔۔ بیک وقت بنیاد/انفراسٹکرچر اور بالائی ڈھانچے /سپرسٹرکچر کی سطح پہ لڑنا۔ تو ہمیں انقلاب کا انتظار کریں گے اور پھر ہمیں جاتی سسٹم کو دیکھنا پڑے گا، جو کہ پرانی لائن تھی۔ اصل میں تو آپ کو یہ دککھنا ہوتا ہے کہ کون سا تضاد بنیادی ہے اور کون سا اس سے باہر ہے جوکہ لوگوں کو اکٹھا ہونے سے روک رہا ہے۔ اگر جاتی سسٹم لوگوں میں عدم اتحاد کا سبب ہے جیسا کہ میرا یقین ہے کہ ایسا ہی ہے۔۔۔ تب آپ کو جاتی سسٹم کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے اگر آپ کے پاس سرمایہ داری کو شکست دینے کا کوئی موقعہ حاصل کرنا ہے تو۔۔۔۔۔ یہ آپ کا جواز ہے ۔۔۔۔ نظریہ تضاد کے نکتہ ںظر سے۔۔۔۔جاتی سسٹم پہ ابھی حملہ کرنا اور اس کے مستقبل میں واقع ہونے کا انۃطار نہ کرنا۔ اوریہی وہ بات تھی جس پہ امبیدکر یقین کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے یہ سوال سن 1936ء میں خام انداز میں اٹھایا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب ماؤ اپنے نظریہ تضاد کو مرتب کرنے کی طرف بڑھ رہا تھا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author