جام پور (وقائع نگار ).
معروف سماجی تنظیم نیلاب چلڈرن اینڈ وومن ڈویلپمنٹ کونسل کے زیر اھتمام خواجہ سراوں اور مستحق خاندانوں میں عید گفٹ راشن پیک تقسیم کرنے کی تقریب کے موقع پر تحصیلدار جام پور
عطا اللہ خان ملکانی نے کہا ھے کہ معاشرے کے غریب اور مستحق افراد کی معاونت بہت بڑا صدقہ جاریہ ھے اور ان مخیر حضرات کا جذبہ قابل تحسین ھے
جو ایسے مستحق افراد کی مدد کرتے ھیں وہ تقریب کے مہمان خصوصی اسسٹنٹ کمشنر جام پور فاروق احمد ملک کی نمائندگی کر رھے تھے
انہوں نے کہا کہ رضاکاریت پیمبری پیشہ ھے جو لوگ رضاکاریت کے ذریعے معاشرے کی خدمت کر رھے ھیں
انہیں اسکا اجر اللہ تعالی ا عطا کرے گا اس موقع پر خواجہ سرا ایسوسی ایشن کی کنوینیر میڈم راشی نے نیلاب ٹیم کا شکریہ ادا کیا
اور نیلاب کی جانب سے خواجہ سراوں کے ساتھ تعاون کو بھی سراھا بعد ازاں تحصیلدار عطا اللہ خان ملکانی چیف آفیسر میونسپل کمیٹی محمود علی خان مخیر
شخصیت چوھدری محمد اشرف اور صدر نیلاب آفتاب نواز مستوئی نے خواجہ سراوں اور دیگر مستحقین میں عید پیکج کے گفٹ تقسیم کیے ۔۔
: جامپور ۔
سماجی تنظیم نیلاب کے زیر اھتمام تحصیلدار جام پور عطا اللہ ملکانی چیف آفیسر محمود علی اور دیگر خواجہ سراوں و مستحق افراد میں عید گفٹ تقسیم کر رھے ھیں
جام پور سیوریج اسکیموں کی ناکارہ مشینری اور بوسیدہ مین فورس لائن تحریر
۔۔ ۔آفتاب نواز مستوئی ۔۔۔
ڈیرہ غازیخان ڈویژن کا قدیمی تاریخی تجارتی مرکز جام پور شہر جسے آج کے ترقی یافتہ دور میں پنجاب کے دیگر شہروں کے برابر ھونا چاھئیے تھا آئے روز ترقی ء معکوس کا شکار ھوتا چلا جا رھا ھے
ایک تحریک پاکستان میں گراں قدر خدمات سر انجام دینے والی شخصیات 1971 ، کی جنگ میں دفاع وطن کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والے نوجوانوں کا شہر جو ایک دور میں علم ادب اور ثقافتی
سرگرمیوں کا گہوارا ھوتا تھا جہاں پر تیار ھونے والا سرسوں کا تیل پورے برصغیر پاک وھند میں جاتا تھا جہاں کی لکڑی کی منقش مصنوعات دنیا بھر میں مقبول تھیں
جہاں کا پین نقاشی کا کام آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں پسند کیا جاتا ھے اور یہ وہ شہر ھے جہاں امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی
جہاں برصغیر پاک وھند کی سب سے بڑی دینی جماعت تنظیم اھل سنت کی بنیاد رکھی گئی جہاں ملک کے نامور سائنسدان ڈاکٹر عبداللہ خان نے جنم لیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی
جس کا قبرستان ٹھاکریوالہ اس لحاظ سے قابل تکریم شمار ھوتا ھے کہ اسمیں اپنے وقت کے اولیاء اللہ کے علاوہ سب سے زیادہ قران مجید کے حفاظ کرام مدفون ھیں
اور جن کے احترام میں سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید گھوڑی سے اتر کر ننگے پاوں اس شہر سے گزرتے تھے حضرت سخی لال پروانہ اور حضرت سید محسن شاہ المعروف مسن شاہ کے
سالانہ میلے طول وعرض تک ایک نمایاں اھمیت کے حامل سمجھے جاتے تھے اور آج وھی شہر ایک لا وارث اجڑی بیوہ کی طرح اپنی حالت زار پر نوحہ کناں ھے ۔
المیہ تو یہ بھی ھے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک اسے مقامی قیادت ھی نصیب نہیں ھو سکی تاریخ کے اوراق گواہ ھیں کہ
ملکی سیاست پر ھمہ وقت چھائے اقتدار کی غلام گردشوں کے اسیر علاقائی تمن داروں اور جاگیرداروں کے حسب ضرورت بنتے ٹوٹتے اتحادی گروپ اور پھر من پسند حلقہ بندیاں مقامی قیادت کے
آگے آنے کی راہ میں مسلسل رکاوٹ چلی آرھی ھیں۔اس شہر کیلیے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شوگر ملز منظور ھوئی
مگر کاٹن ۔تمباکو اور گندم کی فصلات سے زر مبادلہ کما کر لاھور اسلام آباد و لندن خرچ کرنے والے جاگیرداروں کو بھٹو کے ساتھ رھتے ھوئے بھی بھٹو کی یہ ادا پسند نہ آئی
اور یہ شوگر ملز پتوکی چلی گئی پھر ھوا یوں کہ 1982 میں راجہ اندر سنگھ کی روایت پر عمل کرتے ھوئے نوابوں اور سرداروں کو الگ الگ ” راجدھانیاں ” عطا کرنے کی ادائے شاھانہ کے
تحت ڈیرہ غازیخان کے فطری اور جغرافیائی لحاظ سے قریب ترین ھونے کے باوجود جام پور شہر سمیت رقبہ ریونیو آبادی کے لحاظ سے
سب سے بڑی تحصیل
( جو خود ضلع کا درجہ حاصل کرنے کی حقدار ھے )
کو ضلع راجن پور کا جبری حصہ بنا دیا گیا 1997 میں 38 کروڑ روپے کی لاگت سے شہر بھر میں سوئی گیس کی پائپ لائن بچھائی گئی جسکا افتتاح اس وقت کے وفاقی وزیر پٹرولیم وقدرتی
وسائل جاوید جبار نے کیا مگر آج تک شہر کو گیس کی سہولت میسر نہ آسکی ۔اس شہر کے ساتھ ھونے والے کھلواڑ کی داستان کچھ اس طرح ھے کہ ” ھزاروں کے قصے
ھیں کہاں تک سناوں ” 2010 کے سیلاب نے جہاں پورے سرائیکی وسیب کو برباد کر کے رکھ دیا وھاں یہ شہر بھی مکمل ڈوب گیا
مگر پھر بھی محنت کشوں اور غریب آبادی کے اس شہر کے باسیوں نے ھمت کر کے اسکی رونقیں بحال کر ڈالیں 2012 میں حکومت ترکی نے کمال مہربانی کرتے ھوئے ترکی ھسپتال کی منظوری دی شہر کے محلہ مندو والا میں نشانات لگ گئی بورڈ لگ گیا
تعمیراتی کمپنی نے کام بھی شروع کر دیا مگر روایتی بد بخت قبضہ مافیاء اور اسکے سرپرستوں کی مہربانی سے یہ ھسپتال مظفر گڑھ کے ریت کے ٹیلوں میں چلا گیا ۔2014 میں پھر ترکی کی امداد سے
اس شہر کو ماڈل شہر بنانے کیلیے پانچ ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دیا گیا تمام ٹھیکہ جات براہ راست لاھور سے جاری کئیے گئے
اسی گرانٹ سے ایک ارب 39 کروڑ روپے نام نہاد بائی پاس پر خرچ کر ڈالے گئے جسے مرمتی کیلیے نہ NHA تسلیم کرتا ھے نہ پنجاب ھائی وے اسے تسلیم کرتا ھے
اور اس وقت اسکی جو حالت زار ھے ناقابل بیان ھے ۔محکمہ پبلک ھیلتھ کو سیوریج سسٹم اور پنجاب ھائی وے کو روڈز کی تعمیر کی ذمہ واری دی گئی
اس وقت کے مقتدر گروپوں کے حامیوں نے اپنے اپنے "گودے ” کی بھر پور تشہہیر کی اور ان کے بڑے بڑے پورٹریٹ آویزاں کر کے ان کا شکریہ ادا کیا گیا ۔1984.85 میں محکمہ ھاوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ پنجاب کی ٹیم نے اپنے بیس روزہ سروے کے بعد کلیر رپورٹ دی تھی کہ
اس شہر میں اوپن ڈرینج سسٹم کامیاب رہ سکتا ھے گنجان آباد تنگ و تاریک محلے اور گلیاں سیوریج سسٹم کے قابل نہیں مگر اسکے باوجود یہاں 1985 میں ڈسپوزل اسکیمز بنا کر سیوریج سسٹم کی
پائپ لائنیں بچھا دی گئیں اور نالہ سون پر مین فورس لائن بھی بنا دی گئی یہ تمام اسکیمیں اور مشینری اپنی مدت پوری کر چکیں
اسی دوران محکمہ پبلک ھیلتھ اور ھائی وے نے میونسپل کمیٹی کی انجیئرنگ برانچ اور سینٹی ٹیشن برانچ کو اعتماد میں لیے بغیر اور متعلقہ سب انجینئرز سے مشاورت کے بغیر اپنا کام شروع کر دیا کہیں پرانی لائن ٹوٹ گئی
تو کہیں گٹر ابل پڑے جس مین لائن کو سب سے پہلے بنا چاھئیے تھا ھنوز نا مکمل ھے شہر بھر کو اکھاڑ پچھاڑ کر پائپ ڈال دئیے گئے اب مین لائن مکمل ھو گی تو شہر والی نئی لائنیں چلیں گی دوسری جانب بلدیہ کی تین ڈسپوزل اسکیمیز لنڈی پتافی ۔
کوٹلہ چونگی ۔اور نیو جنرل بس اسٹینڈ آئے روز خراب ان میں سے کسی ایک میں خرابی تو تینوں کو بند کرنا پڑتا ھے
جس کے باعث پھٹی پرانی لائنوں کے گٹر ابل پڑتے ھیں اور شہر بھر می۔ سیوریج کا پانی کسی بد مست ھاتھی کی طرح دھاڑتا چنگھاڑتا نظر آتا ھے سرکاری ملازمتوں پر مسلسل پابندی کے
باعث عملہ کی کمی کا رونا الگ سے اپنی جگہ موجود ھے ستم ظریفی کی حد تو یہ بھی ھے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کردہ میونسپل کمپلیکس کی اپنی عمارت سیوریج کے پانی کی
زد میں ھے چراغ تلے اندھیرا والی بات کی طرح کروڑوں روپے کی نئی مشینری کے باوجود بلدیہ انتظامیہ اپنا گھر بھی صاف نہیں کر پارھی اور ھم تو ڈوبے ھیں
صنم تجھے بھی لے ڈوبیں کے مصداق ملحقہ گورنمنٹ گرلز ھائی سکول کا سیکینڈری بلاک بھی متاثر ھو رھا ھے پور ا شہر سیوریج کے پانی کی لپیٹ میں ھے
صورتحال اس قدر افسوسناک ھے کہ انتظامیہ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ اور چیف آفیسر بلدیہ کو بھی ھسپتال روڈ ۔ ٹریفک چوک ماڈل بازار روڈز کی صفائی چھڑکاو کی تصاویر بھیج کر سب اچھا ھے کی
رپورٹ پیش کر دی جاتی ھے شہری جتنا چیختے چلاتے رھیں مذکورہ آفیسرز صرف اپنے ” ون مین ” عملہ کی رپورٹ کو صحیح تسلیم کرتے ھیں جہاں تک متعلقہ
ایم پی اے ایم این اے صاحبان ھیں انہوں نے پوری انتظامی مشینری اور تمام منصوبہ جات کی منظوری اپنے مینیجر کے سپرد کر رکھی ھے
اور ” بھائی جان ” جب اچھے موڈ میں ھوتے ھیں تو اپنے کسی من پسند جبری معزز حامی کی گلی یا محلے میں ٹف ٹائل لگانے اور نالی تعمیر کرنے کا ” نادر شاھی فرمان ” جاری کر دیتے ھیں اور جو لوگ ان کے ” دربار شاھی ” میں کورنش بجا لانے کے فن خوشامد سے نا بلد ھیں
ان کی گلیاں نالیاں سیوریج کے پانی سے لبریز ھیں ۔ماھرین کے مطابق مستقبل قریب میں ایک اور ستم متوقع ھے کہ جیسے ھی پبلک ھیلتھ کی مین لائن مکمل ھوگی شہر کی ڈسپوز ل اسکیمیز بند کر دی جائیں گی اورسیوریج کا پانی اپنے زور سے سیم نالہ میں جائے گا
جو کہ نا ممکن ھے کیونکہ نئی لائنوں کی تعمیر میں لیول کا خیال بالکل نہیں رکھا گیا تیکنیکی ماھرین کے مطابق شہر والی سیوریج لائینیں نشیب میں ھیں
اور مین لائن بلندی میں جب تک مین فورس پریشر نہیں ھوگا پانی مین لائن میں نہیں جا سکے گا اور شہر میں سیوریج کا مسلہ موجودہ صورتحال سے بھی دوگنا بڑھ جائے گا جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ھوگا اسکے لیے ضروری ھے کہ
بلدیہ کی ڈسپوزل اسکیمیز کے کنویں واز سر نو زیادہ کیپیسٹی اور گہرائی کے ساتھ تعمیر کیے جائیں لنڈی پتافی ڈسپوزل اسکیم سے سیم نالہ تک بذریعہ نالہ سون نئی مین فورس پریشر لائن تعمیر کی جائے
اور مطلوبہ عملہ تعینات کیا جائے تب جا کر جام پور شہر کو سیوریج کے گندے اور متعفن پانی سے نجات ملے گی
اسکے لیے پنجاب حکومت خصوصی گرانٹ جاری کرے تو یہ سب کچھ ممکن ھو سکے گا ۔
جام پور میونسپل کمیٹی کی کروڑوں روپے سے تعمیر شدہ عمارت سیوریج کے پانی کی نظر
جام پور شہر کے گلی کوچوں میں سیوریج کا پانی
جام پور کی ڈسپوزل اسکیموں کی ناکارہ بوسیدہ مشینری
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون