ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریچل پیاری!
مجھے علم ہے کہ تم حالیہ واقعات پہ بہت اداس ہو گی سو جی چاہتا ہے کہ تم سے بہت سی باتیں کی جائیں۔ ان دنوں کی باتیں جب کچھ علم نہیں تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی ٹھہریں گے اور دلوں میں کدورتیں بھر چکی ہوں گی۔
تمہاری اور میری ملاقات میڈیکل کالج میں ہوئی جہاں تمہاری شوخی اور شرارت نے تمہیں بہت جلد ہر دلعزیز بنا دیا۔ تمہاری رگ رگ میں پارا بھرا تھا سو سارا دن تم کالج میں دوڑتی پھرتیں۔ ہر کلاس کی ہر لڑکی سے تمہاری بے تکلف گفتگو ہوتی اور ہر کوئی تمہارے ساتھ ہنس بول رہی ہوتی۔ مسیحی اور مسلمان ہونے کی لکیر ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔
تمہارے ساتھ رہنے کا زیادہ موقع یوں ملا کہ تم ہوسٹل میں ہمارے گروپ میں شامل ہوئیں۔ یوں ہمیں علم ہوا کہ تم رات سونے سے پہلے باقاعدگی سے بائبل پڑھنا تمہاری عادت ہے لیکن اس بارے میں نہ ہم نے کبھی کچھ پوچھا نہ تم نے کبھی کچھ کہا۔
ہماری اماں پرانے خیالات کی مالک تھیں اور چھوت چھات پہ یقین بھی رکھتی تھیں سو یہ جان کر بہت حیران پریشان ہوئیں کہ ایک مسیحی لڑکی ہماری دوست ہے، جس کے ساتھ نہ صرف ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں بلکہ کھانا پینا بھی ایک ہی جگہ ہے۔ وہ تیوری چڑھا کے کہتیں کہ تم وہی برتن کیسے استعمال کرتی ہو جسے غیر مسلم نے چھوا ہو؟ ہم ہنس کے کہتے، ویسے ہی جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ اماں سے انتہائی محبت کے باوجود ہم کبھی بھی ان کی اس بات سے متفق نہ ہو سکے۔ بھلا محبت اور دوستی فہم و ادراک کے در کہاں بند کرتی ہے؟
تم نے بچپن سے سکول میں اسلامیات پڑھی تھی سو تمہیں کلمہ بھی پڑھنا آتا تھا اور دوسری بنیادی سورتیں بھی ازبر تھیں۔ ہماری طرح عید رمضان بھی مناتی تھیں اور شب برات اور کونڈوں کا بھی بخوبی علم تھا۔ تم فخر سے ہر کسی کو بتاتی تھیں کہ تمہاری سب دوست مسلمان ہیں اور تمہیں عید منانے کا اتنا ہی مزا آتا ہے جیسے کہ کرسمس!
ہم جب اتوار کو سو کر اٹھتے، تم چرچ جا چکی ہوتیں۔ نہ کبھی ہم نے تفصیل پوچھی نہ تم نے بتائی۔ چرچ کو اندر سے دیکھنے کا اتفاق تمہاری شادی کے موقعے پر ہوا جب تم سفید لباس میں پریوں جیسی لگ رہی تھیں اور ہم سب سہیلیاں سب سے اگلی نشستوں پہ بیٹھی تالیاں بجا رہی تھیں۔ اس کے فورا بعد سفید لباس اتار کر پاکستانی دلہن کے روپ میں آ گئیں کہ تم اپنے کلچر پہ بھی نازاں تھیں۔
تم اپنے بچپن کا ایک واقعہ بہت جذباتی ہو کر سنایا کرتی تھیں جب اسلامیات کے استاد نے تم سے کلمے سننے کی فرمائش کی۔
“ریچل، پہلا کلمہ سناؤ”
تم نے رکے بغیر فرفر سنا دیا۔
“پھر سناؤ” دوبارہ فرمائش ہوئی اور تم نے بلا جھجھک تعمیل کی۔
“پھر سناؤ”
اب کے تم نے کچھ حیران ہو کے دیکھا لیکن پڑھ دیا۔
لیجیے جناب استاد صاحب نے فخریہ اعلان کیا کہ آج سے ریچل مشرف بہ اسلام ہو گئی جس پہ تم نے حیران ہو کے پوری کلاس کو دیکھا جو تالیاں بجا رہی تھی۔ یاد رہے کہ تمہارا تعلق تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا اور سکول ملک کے بہترین سکولوں میں سے ایک!
یہ آغاز تھا ایک عہد نو کا جس میں ہر کلمہ گو ارمان پالے بیٹھا تھا کہ کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھا کر ثواب حاصل کر سکے۔ آہستہ آہستہ وہ وقت آیا کہ تبلیغ اور دعوت اسلام دینے کا بیڑا ہر مرد و عورت نے اٹھا لیا اور اس تحریک میں کسی دوست کو بھی نہ بخشا۔
مجھے علم ہے کہ وہ لوگ جو تمہارے ساتھ پڑھے، اٹھے بیٹھے، ہنسے روئے، جب انہوں نے تمہیں توحید پہ درس دینے شروع کیے تو تم نے کیا محسوس کیا؟ سوشل میڈیا پہ تبلیغ کرنی آسان بھی تو بہت تھی نا!
تم جس محفل میں جاتیں، وہاں لوگ اشاروں کنایوں میں یہ کہنے سے باز نہ رہتے کہ اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ کبھی کبھی کوئی یہ بھی کہہ دیتا کہ ایک طرف تم پاکستانی اور دوسری طرف کرسچین، کچھ عجیب سا کومبینیشن ہے، تمہیں آخر ہم کہاں فٹ کریں؟
مسئلہ یہ تھا کہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی نسبت سے تم ہمارے درمیان رہنے پہ مجبور تھیں اور ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ عام چوڑھے کو تو ہم دور سے دیکھ کے رومال منہ پہ رکھ لیتے ہیں، مگر تمہارا کیا کریں؟
علم نہیں کہ تمہارے ہجرت کر جانے میں اس عنصر کا کتنا عمل دخل تھا لیکن بالآخر تم پاکستان چھوڑ کر چلی ہی گئیں۔ تم رخصت تو ہو گئیں مگر تمہاری مٹی تو پاکستانی تھی سو تم نے دیار غیر میں بھی اپنے ہم وطنوں سے تعلق بنانا چاہا یہ سوچتے ہوئے کہ شاید سوچ کچھ مختلف ہو۔
نہ جانے دفاعی حکمت عملی تھی یا کچھ اور لیکن مغرب میں رہنے والے تعلیم یافتہ طبقے میں بنیاد پرستی شاید پاکستان کی نسبت بھی کچھ بڑھ چکی تھی۔ تم سے ملنا جلنا کسی کو قبول نہیں تھا اور اگر کوئی طوعاً و کرہاً آ ہی جاتا تو تمہارے گھر کے کھانے کو مشکوک سمجھا جاتا۔ تمہاری ایک ڈاکٹر دوست تو اس حد تک بڑھیں کہ دعوت کے دوران کچن میں گھس کر کوڑے کے لفافے میں ہاتھ ڈال کر وہ پیکٹ دیکھنے کی کوشش کی جو کھانے میں استعمال کیے گئے تھے۔ جس پہ تم ہنس ہنس کے بے حال ہوکے کہنے لگیں کہ میں پاکستانی ہوں اور بہت سی عادات میں مسلمانوں سے قریب بھی۔
لیکن تمہاری ہنسی تھم گئی جب قریب سے کسی نے چپکے سے کہہ دیا کہ پھر دیر کس بات کی، اب کلمہ بھی پڑھ لیجیے!
یہ بات تمہیں ریزہ ریزہ کر دیتی کہ اس مادر گیتی سے جنم لینے والے تمہاری اصل مذہبی پہچان کے ساتھ تمہیں قبول کیوں نہیں کر سکتے؟ وہ دھرتی جو تمہاری بھی ہے اور جسے آج بھی تم اپنی شناخت سمجھتی ہو۔ آخر کوئی اپنی بنیاد سے تعلق کیسے توڑ سکتا ہے ؟
جوں جوں مذہبی تفریق بڑھ رہی تھی تمہاری تکلیف میں اضافہ ہو رہا تھا۔ گناہ و ثواب کے فلسفے، جنت و دوزخ کی بانٹ، متازعہ قوانین اور توحید کی تبلیغ۔ تمہارا صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا جب تمہارے کالج کے دوستوں نے تمہیں توحید کی دعوت دینی شروع کی اور جب تم نے انتہائی تکلیف سے بچپن کے اسلامیات کے استاد کا ذکر کیا تو جواب ملا کہ یہ ان کا فرض تھا کہ تمہیں دعوت حق دیتے۔ جس پہ تم پھٹ پڑیں اور مغرب میں رہنے والی دوستوں سے پوچھا کہ انہیں کیسا محسوس ہو گا اگر انہیں اور ان کے بچوں کو اقلیت ہونے کی بنیاد پہ کنورٹ کرنے کی کوشش کی جائے؟ کیا ان کا مذہبی استحقاق مجروح نہیں ہو گا؟
آخر تم نے دوستوں سے بندھی وہ آخری ڈوری بھی کاٹ ہی ڈالی۔ تم ایک تکلیف سے گزریں کہ تمہاری زندگی کے بیشتر ایام انہی سے بندھے تھے۔ تم نے مقامی لوگوں سے ربط ضبط بڑھانا چاہا لیکن کیا کیا جائے کہ مغرب کے رہنے والوں کے نزدیک تم تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والی ایشیائی ہو سو ان میں سے نہیں۔ اور مسیحی ہونے کی نسبت سے تم ہم میں سے نہیں۔
سو اب یوں ہے کہ تمہاری ہنسی اور تمہاری شوخی دم توڑ چکی ہے۔ اب تمہارا ایک ہی سوال ہے کیا آپ سب اپنی مرضی سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے؟ اگر نہیں تو جان لیجیے کہ ہمسائے میں پیدا ہونے والا مسیحی بھی اسی جبر وقدر کا شکار ہے۔ سو ایک دوسرے کو اس کی جگہ پہ رہنے دیجیے، آخر قومی جھنڈے میں سفید رنگ ہمارے لئے ہی تو ہے۔
قومی پرچم کا رنگ مت بدلیے!
ریچل، ہم تمہارے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور تمہارا دکھ ہماری آنکھ کو نم بھی کرتا ہے۔ لیکن ہمیں علم نہیں کہ ہم اس دھرتی پہ تمہاری زندگی آسان بنا سکیں گے یا نہیں؟ تمہارے جیسے بہت سے جنہوں نے اسی مٹی سے جنم لیا ہے، وہ کیسے سر اٹھا کے چلیں گے؟
لیکن اتنا جان لو کہ آج بھی بہت سے لوگوں کا دل تمہارے ساتھ دھڑکتا ہے۔
اپنا خیال رکھنا!
تمہاری دوست
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر