حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے ’’جاتی امراء نیوز‘‘ کے بڑے مالک کی چاپلوسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’کسبیوں‘‘ جیسے داو پیچ میں مہارت ہے اسے، اس ملاقات میں دوسرے صحافیوں کے علاوہ ارشاد راو (ہفت روزہ الفتح والے) بھی موجود تھے۔
انہوں نے اپنے ہفت روزہ میں بھٹو اور صحافیوں کی ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو تفصیل کے ساتھ شائع کی۔
اسی دہائی میں ’’جاتی امراء نیوز‘‘ کے چھوٹے مالک اور آصف علی زرداری کے درمیان میٹروپول کلب کراچی میں ایک تنازع پیدا ہوا اس تنازع نے بھی خاصی شہرت حاصل کی پھر کچھ بزرگ درمیان میں پڑے اور دونوں خاندانوں میں صلح کروادی۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ بڑے مالک جب تک حیات رہے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ان کے ہر مخالف کو ہیرو بناکر پیش کیا اور رجعت پسندوں کے بھٹو کے خلاف پروپیگنڈے کو اپنے اخبار میں اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔
چشم فلک نے یہ منظر دیکھا اور قارئین نے بھی کہ ان کے اخبار میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شادی کے حوالے سے ایک خاص مسلک کے مولانا صاحبان کا پہلے صفحہ پر چوتھائی پیج کا ایک اشتہار شائع ہوا
جس میں عوام کو بتایا گیا کہ چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کا نکاح شیعہ مسلک کے طریقہ سے ہوا ہے اس لئے وہ سنی اکثریت کے ملک میں سیاسی قیادت کی اہل نہیں۔
یہ اشتہار بظاہر مولانا سلیم اللہ خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے تھا لیکن خدمت اسلام کے جذبہ سے شائع کیا گیا
اس سے قبل پاکستانی صحافت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی اخبار یا جریدے میں کسی سیاستدان کے مسلک کے حوالے سے کوئی اشتہار شائع ہوا ہو۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں میر صاحبان کے اشاعتی ادارے کے اخبارات و جرائد کا ہدف بھٹو خاندان، پی پی پی اور خصوصاً محترمہ بینظیر بھٹو رہیں۔
آصف زرداری کو مسٹر ٹن پرسنٹ، گھوڑوں کو مربعے کھلانے، ٹانگ سے بم باندھ کر رقم وصول کرنے، جسٹس نظام کے قتل میں ملوث ہونے جیسے الزامات بھی انہی کے اخبارات و جرائد میں اچھالے گئے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی اقتدارمیں آئی تو چھوٹے میر نے اپنے میڈیا ہاوس کو اپوزیشن کی ایک پارٹی کا کردار نبھانے پر لگادیا۔
2008ء سے 2013ء کے درمیان ان کے میڈیا ہائوس کی فائلزاور ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا پی پی پی کے خلاف غلیظ ترین پروپیگنڈہ کس کے سازشی ذہن کی تخلیق تھا۔
تمہید طویل ہوگئی لیکن یہ اس لئے ضروری تھی کہ قارئین پس منظر سمجھ سکیں کہ اس کالم کے لکھنے کی وجہ کیا بنی۔
جاتی امرا نیوز کے ایک ’’سراغ رساں‘‘ رپورٹر نے گزشتہ روز بھٹو صاحب اور موجودہ دور کی مماثلت پر ایک کالم لکھا ہے۔
اس کا دعویٰ ہے کہ بھٹو فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے۔ یہ دعویٰ درست نہیں۔
بھٹو کو مجبوراً اقتداردیا گیا تھا کیونکہ جی ایچ کیو میں نوجوان فوجی افسروں نے جرنیل شاہی کے خلاف جو ردعمل ظاہر کیا تھا اس سے جرنیلوں کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔
1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا بھٹو پر الزام جماعت اسلامی برانڈ صحافیوں اور بڑے میر کا پروپیگنڈہ تھا۔ فوج نے اس انتخابات میں بھٹو کی نہیں قیوم لیگ اور جماعت اسلامی کی مدد کی تھی۔
جماعت اسلامی کو تو امریکہ کی مالی اعانت بھی حاصل رہی۔ بھٹو سیاست میں ایوب خان کے توسط سے نہیں آئے تھے بلکہ سکندر مرزا کے دور میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کا حصہ بنے ان کی کارکردگی کو دیکھ کر سکندر مرزا نے انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا۔
ایوب اسی کابینہ میں وزیر دفاع تھے۔
بلاشبہ بھٹو ایوب کی کابینہ میں بھی شامل ہوئے۔ کنونشن لیگ کے سیکرٹری بھی بنے لیکن وہ مستعفی ہوکر عوامی سیاست کا حصہ بنے۔
ان دنوں پی آئی ڈی نے باقاعدہ تحریری حکم جاری کیا کہ بھٹو کے مستعفی ہونے کی خبر کی بجائے یہ لکھا جائے کہ انہیں علالت کے باعث رخصت کردیا گیا ہے۔
صرف روزنامہ حریت کراچی نے مستعفی ہونے کی خبر شائع کی۔ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ والی سرخی کے خالق عباس اطہر ساری زندگی اپنی سرخی کی وضاحت کرتے رہے لیکن بھٹو کے مخالفوں کے لئے یہ سرخی آسمانی پیغام ہے اسی لئے آگے بڑھاتے ہیں۔
خواجہ رفیق اور ڈاکٹر نذیر کے قتل سے بھٹو کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھٹو مخالف اخبارات نے دو شہید گھڑ کر قوم کے سامنے رکھے۔
بھٹو دور میں میڈیا پر اتنی زیادہ پابندیاں تھیں کہ اخبارات نے انہیں گھاسی رام لکھا ان کی والدہ کو ایک ہندو عورت۔
اسی لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی پانے والے بھٹو کے برہنہ جسم کی تصاویر بنوائی گئیں۔
بھٹو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھے۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ محض وچولے کا کردار ادا کرپائی۔
یہ درست ہے کہ ان کے عزیز ترین ساتھی انہیں چھوڑ گئے کیوں چھوڑ گئے اس کی وجوہات جاتی امرا نیوز کی خبریں اور کہانیاں نہیں بلکہ اس دور کے معاملات کو دیکھ کر سمجھ میں آئیں گی۔
یہ بھی پڑھیے:کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟|| اعزاز سید
بھٹو صاحب انسان تھے ہمارے اور آپ جیسے، ولی قطب یا ابدال ہرگز نہیں۔
البتہ وہ اس حوالے سے بدقسمت ہی رہے کہ ان کے مخالفین نے ان کی زندگی اور پھانسی کے بعد ان پر کیچڑ اچھالنے کی غلیظ عادت ترک نہیں کی۔
جاتی امراء نیوز نے اپنے مالکان کی تسکین کے لئے بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جس طرح کردار کشی کی یہ کام کسی مہذب ملک میں کوئی کرتا تو ہرجانے بھر بھر کر دال چاول کی ریڑھی لگائے پھر رہا ہوتا۔
بھٹو صاحب سے جاتی امراء نیوز نے چھوٹے مالک کی نفرت کی ایک وجہ مالک کی اہلیہ کا خاندان بھی ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ جاتی امرا نیوز نے جتنا جھوٹ بھٹو خاندان بارے پھیلایا اس سے نوے فیصد کم سچ اگر میر صاحبان کے بارے میں لکھ دیا جائے تو وہ کچھ ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بھٹو کی پھانسی پر شادیانے بجانے والے اور ان کا تختہ الٹنے والے ضیاء الحق کو نجات دہندہ قرار دینے والا میڈیا ہاوس جمہوریت کا نہیں بلکہ بھٹوز کی نفرت کا علمبردار ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر