فیصل میر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں مماثلت تلاش کرنے والے ایک مبینہ تاریخ دان نے شہید بھٹو جیسے دیو ہیکل تاریخی کردار کے قد کو صرف ایک کالم لکھ کر چھوٹا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ یقیناً بری طرح ناکام ہوئی ہے کیونکہ تاریخ کو مسخ کرنے کا نتیجہ محض جگ ہنسائی کی صورت میں سامنے آتا۔ تاریخ کے یہ مبینہ طالبعلم اگر پچاس سال گزرنے بعد اچانک اپنی مرضی کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں اور اپنے کالم میں بھٹو صاحب کو زبردستی فوج کی انگلی پکڑوا کر انہیں عمران خان کی طرح اقتدار میں لانے جیسی کہانی بنانے کے کوشش کریں گے تو ان کی خواہش کے مطابق پانچ دہائیوں بعد یک دم گنگا الٹی نہیں بہہ سکے گی۔
کامریڈ معراج محمد خان جیسے فقیر منش سیاسی کارکن کو ایک کھرب پتی جہانگیر ترین سے ملانے والے مبینہ تاریخ دان اگر سکہ بند حقائق پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ ایک طرف 1972 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ترانوے ہزار فوجی بھارت کی قید سے آزاد کروا کر پاکستان لا رہے تھے تو دوسری طرف پاکستانی قوم میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر اپنی فوج کے بارے میں منفی جذبات کو ابھارا جا رہا تھا۔ شکست کھائی ہوئی پاک فوج کا مورال اپنی کم ترین انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ اس نازک دور میں شہید بھٹو نے ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت کوئی بھی شہری پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے عمل پر تنقید نہیں کر سکے گا۔ 1972 سے 1974 تک شہید بھٹو نے ایک شکست خوردہ فوج کے مورال کو بلند کیا۔ شہید بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکیوں کے باوجود پاک فوج کے لئے ایٹم بم بنا کر اپنی فوج کو دنیا میں ناقابل شکست بنایا اور 1974 میں ہی شہید بھٹو نے تمام اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس کی لاہور میں میزبانی کی۔
اس اجلاس میں شاہ فیصل، یاسر عرفات، شاہ ایران، انور سادات اور معمر قذافی وغیرہ کی موجودگی میں پاکستان کا ایٹم بم ”اسلامی بم“ قرار پایا۔ اس کانفرنس میں تمام مسلمان ممالک نے بین الاقوامی سیاست میں ایک مشترکہ بلاک کی حیثیت سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جس کی نتیجے میں پاکستان دنیا میں اسلامی ممالک کے لیڈر کے طور پر سامنے آ یا۔ شہید بھٹو سرد جنگ کے اس دور میں روس اور امریکہ کے بعد پاکستان کو دنیا کی تیسری بڑی طاقت بنانے کی طرف رواں دواں تھے مگر ہنری کسنجر نے جنرل ضیا الحق کی مدد سے شہید بھٹو کا یہ خواب چور چور کر دیا انہیں پھانسی چڑھا دیا۔
یہ مبینہ تاریخ دان جنرل ضیا کے مارشل لا دور میں میڈیا پر بیان کی گئی بھٹو حکومت کی پابندیوں اور سیاسی قیدیوں کی طوطا کہانیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں اور بھٹو صاحبہ کا اپنی والدہ کے حوالے سے خود ساختہ کمپلیکس تک بھی بیان کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہ تک بھول جاتے ہیں کہ عمران خان کا اقتدار میں آنے سے قبل بین الاقوامی سیاست اور اسلامی دنیا میں تو دور کی بات، پاکستان کی سیاست میں بھی کوئی کردار نہیں رہا تھا۔ عمران خان نے بائیس سال سیاست میں ناکامی کے بعد 2018 میں ریاست مدینہ کے علمبردار کی حیثیت سے ایمپائر کی انگلی کو انتہائی مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اور علی الاعلان فوج کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے۔
شہید بھٹو نے 1967 میں جنرل ایوب کی کابینہ کشمیر پالیسی کی بنیاد پر چھوڑی اور جنرل ایوب کو اقتدار سے نکالنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی۔ شہید بھٹو پیپلز پارٹی بنانے کے صرف چار سال بعد جنرل یحیی کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت میں آ گئے اور بعد میں شہید کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک بھارت سے جنگ لڑنے کا اعلان کیا جبکہ عمران خان نے 2019 میں کشمیر پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کر دیا۔
بھٹو صاحب اور عمران خان کو ملانے کی کوشش میں ششدر رہ جانے والے تاریخ دان یہ بھول جاتے ہیں کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد تین سال میں اسلامی ممالک کے آگے صرف ہاتھ پھیلانے کی ہزیمت ہی اٹھائی ہے جبکہ شہید بھٹو نے یونان کے خلاف قبرص کا دفاع کرنے کے لیے پاکستانی فوج کو ترکی بھیجا۔ شہید بھٹو نے عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان ائر فورس کے جہاز شام اور عراق بھیجے جنہوں نے اسرائیلی جہازوں کو تباہ کیا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ شہید بھٹو کے خون کے دشمن ہو گئے۔ ایک طرف بھٹو کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھانسی چڑھ گئے اور دوسری طرف عمران خان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بھارتی ٹی وی پر اعلان کیا کہ وہ سیاست کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتے۔ اپنی اسی بزدلی کی وجہ سے انہوں نے طالبان کی حمایت کی اور طالبان خان کہلائے۔
تاریخ کے جس طالبعلم کو عمران خان کے دور میں کلاسیک 77 کی جھلک نظر آتی ہے وہ اس بات کو بھی عمداً بھول جاتے ہیں کہ شہید بھٹو نے اپنی حکومت کے چار سال کے عرصے میں پاکستان کے غریب کو زبان دی، ووٹ کا حق دیا، آئین دیا، سکول سے یونیورسٹی تک تعلیم مفت دی، جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا، پاسپورٹ کا اجرا کر کے لاکھوں پاکستانیوں کے لئے عرب ممالک میں نوکریوں کا بندوبست کیا، کسانوں کو زمیندار بنایا، مزدوروں کو فیکٹری مالکان سے آٹھ گھنٹے کام اور دیگر حقوق دلوائے، پاکستان سٹیل مل جیسے کئی منصوبے شروع کیے، ہزاروں سکول کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں اور پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین وزیراعظم بنے۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں مڈل کلاس کے بچوں کے سکولوں کی فیس چھین لی اور غریب کے بچوں کا آخری نوالہ چھین کر آج پاکستان کی تاریخ کے ناکام ترین حکمران بن چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟|| اعزاز سید
وہ شہید بھٹو ہی تھے جنہوں نے نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین کو اقوام متحدہ کا ممبر بنا کر چین کو پاکستان کا ہمیشہ کے لئے مقروض کر دیا تھا۔ آج چین وہ قرض سی پیک کے ذریعے ادا کرنا چاہتا ہے تو عمران خان نے سی پیک کو نامعلوم مفادات کی بھینٹ چڑھا کر شیلف کر دیا۔ ایک طرف بھٹو صاحب کی پاکستان کے لئے خدمات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تو دوسری طرف عمران خان نے پاکستان کی سیاست، صحافت اور معیشت کو جس طرح تباہ کیا اس پر صرف بین کیا جاسکتا ہے
شہید بھٹو ایک ایسا اساطیری کردار ہیں جس نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف جدوجہد کے لئے ایک سیاسی جماعت بنائی پھر تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں پھانسی کا پھندا قبول۔ بھٹو کا یہ افسانوی کردار دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو چکا ہے۔ مگر سیلیکٹڈ عمران خان کا کردار ایوب خان، جنرل ضیا، جنرل پرویز مشرف جیسے سیلیکٹرز کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں ہمیشہ کی طرح گم ہو جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے بھٹو صاحب کی عمران خان سے مماثلت کی کوشش پر ”سورج کو چراغ دکھانے“ والا محاورہ بھی شرم سے پانی پانی ہو جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر