گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1967ء کی بات ھے کہ صدر ایوب نے ایک کتاب لکھی ۔نام تھا ۔
۔۔۔ Friends not masters… اس کتاب کے نام سے ہی مصنف کے خیالات کا اندازہ ہو جاتا ھے ۔اس وقت پاکستان تقریباً 8% سالانہ کے حساب سے ترقی کر رہا تھا اور ملک پر کوئی قرضہ بھی نہیں تھا.1970 ء تک پانچ روپے میں ایک ڈالر ملتا تھا۔۔ہماری ترقی کا ماڈل کوریا۔سنگاپور وغیرہ ملک نقل کر رھے تھے۔آجکل ہمارے اوپر تیس ھزارارب روپے سے زائد کے قرضے ہیں جس کا سود چھ ارب روزانہ ادا کرنا پڑتا ھے۔
لیکن میں بھی ڈکٹیروں کے خلاف ہوں اور جمھوریت کا lover ہوں ۔ ایسا نہ ہو آپ مجھے یہ بات سن کر گالیاں دینا شروع کر دیں۔ایوب کے بعد کہانی جمھوریت کا ٹرن لیتی ھے اور پھر ہمارے گھروں میں آج تک کچھ وقفے کاٹ کر جمھوریت کا راج ھے۔آخری ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے دور میں IMF کی قسط واپس کر دی تھی اور قرضے 40 ارب ڈالر سے 36 ارب کر دئیے تھے جو پچھلے دس سال کے جمھوری دور میں اب تک 100 ارب ڈالر سے اوپر ہو چکے ہیں ۔بہرحال جمھوریت میں ہم۔۔۔رُل تاں گیے ہاں پر چس بڑی آئی ھے۔۔والے مزے لیتے رھے۔جھوٹی کہانی کا دوسرا ٹرن 1970ء سے شروع ہوتا ھے جب تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے تیل کے نرخ بڑھانے کےلئیے ایک اتحاد OPEC بنایا تاکہ تیل کی قیمت بڑھا کر زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔
یہ وہ وقت تھا جب تیل کی کھپت زیادہ مغربی ملکوں میں تھی۔یہ اتحاد کامیاب ہوا تیل کی قیمت بڑھ گئی اور جتنی دولت اس سے حاصل ہوئی اس رقم کو پھر مغربی صنعتی ملکوں میں رکھوا دیا گیا۔اب ان بنکوں میں جب دولت کے انبار جمع ہوۓ تو اس کو سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بنکوں نے غریب ملکوں سے کہا ہم تمھیں آسان شرائیط پر قرضہ دیتے ہیں بس تم نے کرنا یہ ھے کہ ہماری صنعتوں سے تیار کیا ہوا مال خریدنا ھے اور اپنا خام مال ہمیں فراہم کرنا ھو گا۔اس طرح غریب ملکوں کی ترقی کی رفتار تیز ہو جاے گی۔ اس مقصد کے لئے غریب ملکوں میں حکومتیں تبدیل کی گئیں۔IMF/World bank کے ملازمیں کو بڑی بڑی تنخوھوں اور عہدوں پر تعینیات کرایا گیا تاکہ صنعتی ملکوں کا ایجنڈا مکمل طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔
خاص طور پر وزیر خزانہ اور وزارت عظمی کی کرسیاں اس مقصد کے لئیے خصوصی ریزرو کی جاتیں۔ قرضہ دینے کے لئیے بڑے بڑے غیر پیداواری سفید ہاتھی قسم کے منصوبے شروع کر دیے جاتے جس سے اس ملک کو تو کوئی فاعدہ نہ پہچتا مگر بنکوں اور کرپٹ مافیا کی چاندی ہوتی۔
اس اثنا اس بات کا بھی پوری منصوبہ بندی سے اہتمام کیا گیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے ان سربراھوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاۓ جنہوں نے تیل مہنگا کر کے مغربی دنیا کو مشکل میں ڈالا تھا تاکہ آیندہ کوئی جرات نہ کر سکے۔اور آہستہ آہستہ یہ منصوبہ بھی مکمل ہو گیا۔1980ء میں جب غریب ممالک قرضوں کے جال میں مضبوطی سے جکڑے جا چکے اچانک شرح سود کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا۔اس وقت دلچسپ بات یہ تھی کہ غریب ملکوں کا قرضہ 1980ء تک 567 بلین ڈالر ہو چکا تھا جبکہ 1980 سے 1992ء کے درمیان غریب ممالک 1662 بلین واپس ادا کر چکے تھے۔
لیکن اب سود کے بڑھنے سے ابھی غریب ملکوں نے 1419 بلین ڈالر کے قرضے واپس بھی کرنے تھے۔ ہر سال غریب ملک 160ارب ڈالر قرضہ واپس کرتے۔ جب غریب ملکوں کی قرضہ واپس کرنے کی سکت نہ رہی اور وہ بے بس ہو گئے تو انکے ہمدرد دیرینہ Imf/world bank ان کو بچانے کے لیے پھر میدان میں اترے اور سٹرکچرل ایڈسٹمنٹ پروگرام آفر کر دیا۔ اس قرضے سے آدھا تو واپس قسط میں چلا جاتا اور باقی شرط یہ تھی کہ قرضہ چونکہ ڈالرز میں واپس کرنا ھو گا اس لئیے ہر غریب ملک اپنی برآمدات میں اضافہ کر کے ڈالر کماۓ اور ڈالر تو صرف مغربی ملکوں کے پاس ہیں اس لئے برآمدات بھی ادھر ہونگی۔ برآمدات کے لئیے بھی ایک خاص کوالٹی اور سٹینڈرڈ برقرار رکھنا ہو گا۔
چنانچہ ہر غریب ملک غریبوں کا خون پسینہ ایک کر کے جب کوئی پیداوار بین الاقوامی منڈی لے جاتا ھے تو اسے دوسرے 170 غریب ملکوں کی پیداوار سے مقابلہ کرنا پڑتا ھے جس کے نتیجے میں ان کی پیداوار کی قیمت پچاس فیصد کم ہو جاتی ھے اور نقصان کر کے بیچنا پڑتا کیونکہ ڈالر کمانے ہیں۔ کئی سالوں سے پاکستان میں آم اور مالٹےکے موسم میں ہمیں اعلی درجے کا چونسا آم اور کینو نظر بھی نہیں آتا کیوں؟
اس لیے کہ ہم ڈالر کمانے کی مجبوری میں اسے آدھی قیمت پر غیر ملکیوں کو بیچتے ہیں اور گندی کوالٹی کے آم اور کینو ہمارے بچوں کو ڈبل قیمت پر ملتے ہیں۔۔ گلوبلائزیشن کے نام پر ہماری منڈیاں بھی صنعتی ملکوں کے لیے کھول دی گیئں اور ہمارا لوکل ۔لوہار۔درکھان۔موچی۔صنعتکار۔پاولی۔کسان ۔سب بیکار ہو گئے۔ گھریلوں صنعتیں دم توڑ گیئں ۔
ہماری عورتیں سلائی کڑھائی کا کام کر کے روزی کماتی تھیں وہ چھین لی گئیں انکو غربت مٹاو پروگرام دے کر بنکوں کے سامنے قطاروں میں ATM کارڈ دے کر کھڑا کر دیا گیا۔اس سارے منصوبے سے پیسہ کمانے والوں کی رہائشی کالونیاں۔ہسپتال۔سکول۔ تعلیمی کورسز ۔ٹرانسپورٹ۔ہوٹل۔ گاف کلب علیحدہ ہو گئے۔اور غریبوں کی بستیاں گند کا ڈھیر بننے لگیں جہاں جرائم پیشہ اور دھشت گرد ان بڑوں کی پشت پناہی سے پنپنے لگے اور غریبوں کوبم دھماکوں۔ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مارنے لگے۔خیر کبھی کبھی اس میں وقفہ بھی آ جاتا ھے۔
آخر میں عرض یہ ھے کہ میری اس کہانی کو میرا پہلا افسانہ سمجھا جاۓ ۔اس کہانی کا عملی یا سچی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر