نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرے پاکستانی، ایسے تو نہ تھے!!||سارہ شمشاد

کئی دنوں سے بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں دیکھ کر دل بہت اداس ہے کہ ہمارے ہمسائے ملک میں کورونا کے وار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ بھارت کا ہیلتھ سسٹم بالکل ہی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی دنوں سے بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں دیکھ کر دل بہت اداس ہے کہ ہمارے ہمسائے ملک میں کورونا کے وار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ بھارت کا ہیلتھ سسٹم بالکل ہی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے جبکہ مودی سرکار کو بھارتی عوام جھولیاں بھر بھر کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ بھارت سوا ارب سے زائد کی آبادی والا ملک ہے جہاں روزانہ 4لاکھ سے زائد کورونا کیسز رپورٹ ہورہے ہیں مگر تاحال کورونا کے کیسز میں کوئی کمی رپورٹ نہیں ہورہی ہے۔ بھارت کا دکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ رپروٹس آگئیں کہ پاکستان بھارت سے چند ہفتوں کی دوری پر ہے یعنی اگر پاکستانیوں نے احتیاط نہ کی تو پاکستان میں بھی خدانخواستہ یہی معاملہ ہوسکتا ہے۔ یہ خدشہ جو مجھ سمیت ہر پاکستانی کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وطن عزیز بھارت سے صرف چند ہفتے کی دوری پر ہے۔اس سوچ نے مجھے ذہنی طور پر مفلوج کررکھا ہے کہ میرے وطن کے لوگ تو بہت غریب ہیں۔ میرے ملک کا ہیلتھ سسٹم تو کورونا دبائو آنے پر پہلے ہی جواب دے چکا ہے اور تو اور منافع خوروں اورہوس زر پجاریوں نے آکسیجن جیسی اہم اور بنیادی چیز کو ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے تاکہ مہنگے داموں بلیک میں فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔یہ طرز عمل کسی طور بھی پاکستانی قوم کے شایان شان نہیں کیونکہ پاکستانی قوم کا تو یہ خاصہ رہا ہے کہ یہ ہمیشہ مشکل کی گھڑی اپنے تمام تر اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر وطن عزیز کی پکار پر لبیک کہتی ہے اور آج جب کورونا کے کاری وار تیز تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور ماہرین چیخ چیخ کر احتیاط، احتیاط اور صرف احتیاط کی تلقین کررہے ہیں مگر ایک ہم ہیں جو بھارت میں موت کے گہرے ہوتے سایوں کو دیکھ کر بھی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔میرے پاکستانی کبھی بھی ایسے غیرذمہ دار تو نہیں تھے کہ جب جب مادر وطن نے انہیں پکارا تو انہوں نے اپنی جان و مال اس کی حفاظت کے لئے نچھاور کردیا اور آج جب پوری دنیا کورونا جیسی موذی وبا کی لپیٹ میں ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن چیخ چیخ کر جنوبی ایشیا کو تیسری لہر کا سنٹر قرار دےرہا ہے تو اس کے باوجود میری قوم کی جانب سے جو لاپروائی ارو بے احتیاطی برتی جارہی ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ رمضان کریم میں بازاروں میں رش کا عالم دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے جہاں لوگ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرنے دیتے کہ وہ بازار میں جانا ضروری نہ سمجھتے ہوں۔ آخر میرے ہم وطنوں کو یہ بات کیونکر سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اگر اس مرتبہ عید پر انہوں نے نئے کپڑے نہ پہنے تو کیا عید نہیں ہوگی۔ کیا خواتین نے چوڑیاں اور جیولری نہ خریدی تو عید کی خوشیاں پھیکی پڑجائیں گی۔ اسی طرح اگر افطار کے وقت سموسے اور پکوڑے نہ کھائے تو کیا روزے کا ثواب نہ ملے گا۔کیا ہم کورونا کوشکست دینے کیلئے اپنے منہ کی چاٹ کو کچھ دن کیلئے کنٹرول نہیں کرسکتے۔
حکومت کی جانب سے عوام کو سختی سے ایس او پیز پر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی لیکن عوام ہے کہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے بیٹھی ہے اور پھر مجبوراً وزیراعظم کو کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے فوج کو میدان میں لانا پڑا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ فوج کے آنے سے صرف چند دنوں میں ہی کچھ بہتری دیکھنے میں آرہی ہے تاہم ابھی ایک طویل سفر سے کرنا باقی ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ کورونا سے لڑنے کے لئے عوام کو خود آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ حکومت محدود وسائل میں رہتے ہوئے جو کرسکتی ہے وہ کررہی ہے لیکن اس سے مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عوام بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ غیرضٗروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے ہمسائے ملک بھارت میں موت کا رقص اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اگر اس کے باوجود میرے پاکستانیوں سے اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک نہ کیا تو میرے منہ میں خاک، معاملہ بھارت کا سا ہوسکتا ہے اور اس کے لئے آئندہ 3، 4 ہفتے پاکستانیوں کے لئے بہت اہم ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہم پاکستانیوں نے کرنا ہے کہ کیا اپنے ملک میں بھارت جیسے مناظر دہرانے ہیں یا دنیا کو ایک مرتبہ پھر ثابت کرنا ہے کہ پاکستانی ایک باوقار اور باشعور قوم ہے کیونکہ جب جب ہمارے وطن پر مشکل اور کڑا وقت آیا ہم نے دشمن کو چاروں شانے چِت کردیا۔ اس مرتبہ ہمارا دشمن ان دیکھا کورنا وائرس ہے جو کدھر ہے، کہاں ہے، کب، کیسے لگ جائے ، بارے ہم کچھ نہیں جانتے اس لئے اس کا مقابلہ نہیں محتاط اور کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرکے کرنا ہوگا۔
میرے لئے یہ امر انتہائی قابل فخر ہے کہ میرا تعلق اس قوم سے ہے زلزلہ، سیلاب، بارش، غرض کوئی بھی آفت ہو، سب اپنے اختلافات کو بھلاکر ایک پیچ کر اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میری قوم دنیا بھر میں سب سے زیادہ زکوٰۃ اور خیرات دیتی ہے۔ اپنی سخاوت کے لحاظ سے میری قوم ایک منفرد پہچان رکھتی ہے پھر میں یہ سوچ سوچ کر نجانے کیوں پریشان ہورہی ہوں کہ اس مشکل کورونا کے وقت میں میری قوم اپنے عظیم ماضی کو نہیں دہرائے گی۔ انشاء اللہ میری باشعور قوم مشکل کے اس وقت میں ضرورسرخرو ہوگی اور آج سے ہی یہ عہد
کرے گی کہ اپنی نقل و حمل کو ابھی سے ہی محدود کریں گے اور عید کے موقع پر بھی روایتی سماجی سرگرمیوں کی بجائے گھروں پر رہ کر ہی کورونا کے خاتمے کے لئے کوششیں کریں گے۔ اس کے لئے میڈیا اور علمائے کرام کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور عوام سے کورونا ایس او پیز اور سماجی دوری کے اصول پرعمل کرنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ حکومت ٹائیگر فورس سے بھی مدد طلب کرسکتی ہے۔ اگرچہ حکومت نے ایک ہفتے کے لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے جس میں بازار، مارکیٹیں، ہوٹل سے لے کر ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن ہمیں خود پر کنٹرول کرنا ہوگا اور دوسروں سے بھی تعاون کی اپیل کرنی ہوگی۔ اگرچہ حکومت کورونا سے نمٹنے کے لئے اپنے محدود ذٓرائع میں رہ کر بہتر انتظامات کررہی ہے لیکن ویکسین لگانے کی شرح میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی قانون پر عملداری کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ عید کے موقع پر ملک بھر میں دفعہ 144 ایک ہفتے کے لئے نافذ کردی جائے اور عوام بھی یہ سمجھیں کہ چند دنوں کی سختی ان کی اور ان کے پیاروں کی صحت کو محفوظ بنانے کے لئے کی جارہی ہے۔ مجھے اپنی قوم پر پورا اعتبار ہے کہ وہ اس مشکل کی گھڑی میں ہمیشہ کی طرح سرخرو ہوگی اور کورونا کی تیسری لہر کو شکست فاش سے دوچار کرکے ملکی معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے نہیں دیا جائے گا، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author