اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”ڈیرہ بگٹی“ وارث سے لاوارث تک||عزیز سنگھور

ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے۔ جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی۔ جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کردیا

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا واحد ضلع ہے۔ جو سیاسی طورپر یتیم ضلع ہوچکا ہے۔ یہ یتیمی سیاسی اور سماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی۔ جس سے ضلع میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسئلوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ یہ سیاسی خلا2006 کو بزرگ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی تھی اور گرتی تھی۔ جہاں وزیراعظم، صدر مملکت، وزیراعلیٰ سمیت وزرا کی قطاریں لگتی تھیں۔ ان کی حاضریاں ہوتی تھی۔ سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھی۔ سیاسی جماعتیں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پر جمی ہوتی تھی۔ یہ ضلع ملکی سیاست کا سرچشمہ ہوا کرتا تھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔
سیاسی خلا کی وجہ سے آج ضلع ڈیرہ بگٹی مسائلستان بن چکا ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی سے گیس نکلتی ہے۔ جو سینکڑوں میل دور پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت سندھ کے مختلف شہروں تک تو پہنچائی جاتی ہے، لیکن ضلع کے مکین اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ملک کو گیس فراہم کرنے والا خطہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے بیشتر علاقوں کے لوگ آج بھی اپنے چولہے میں لکڑیاں جلاتے ہیں۔ جبکہ تحصیل سوئی شہر میں جن گھروں کو گیس فراہم کی گئی ہے وہاں بھی اکثر کو گیس کا دباؤ کم ہونے اور چولہے ٹھنڈے پڑنے کی شکایت رہتی ہے۔ سوئی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے پچاس لاکھ صارفین کو تو ملتی ہوگی لیکن خود سوئی شہرکے پچاس ہزار صارفین کو بھی ٹھیک سے نہیں مل پا رہی۔ جبکہ ضلع کے بیشتر علاقے گیس سے محروم ہیں۔
سوئی میں 1952ء میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے اور1967 تک پورے ملک کوصرف یہاں سے گیس سپلائی کی جاتی رہی۔ضلع ڈیرہ بگٹی میں اس وقت پانچ گیس فیلڈز ہیں جن میں سوئی، پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس فیلڈ ہے سوئی گیس فیلڈ، جو انیس سو باون میں دریافت ہوئی اور وہاں سے انیس سو پچپن میں گیس کی پیداور شروع ہوئی۔
سوئی گیس فیلڈ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نامی ایک بدمعاش کمپنی چلاتی ہے۔ جس کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے۔ یہ کمپنی بلوچستان حکومت کو گھاس نہیں ڈالتی ہے۔ بظاہر وہ حکومت سے معاہدے تو کرتی ہے مگراربوں روپے کے واجبات ادا نہیں کرتی ہے۔ یہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند بلوچستان کے وسائل کو روند رہی ہے۔ کھربوں روپے کمانے والی کمپنی ایک مافیا کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سوئی گیس فیلڈ سےگیس کی یومیہ پیداوارتقریباً چھ سو ساٹھ ملین کیوبک فٹ ہے اور وہاں اب بھی دو ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے باقی چار گیس فیلڈز پیر کوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی کا انتظام پاکستان کی ریاستی کمپنی آئل اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے پاس ہے۔

پیر کوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی کے غریب لوگ پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مقامی لوگ آئے روز مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے۔ ان دونوں کمپنیز سمیت حکمران بہرے ہوگئے۔ آج بلوچستان میں ایک غیر مستحکم اور سیاسی طور پر ایک کمزور حکومت قائم ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان حکومت وفاقی اداروں اور ان کمپینیز کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ شایدان کمپنیز کوپوچھنے والے کو ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹایا گیا۔ نواب اکبرخان بگٹی کو26 اگست 2006 کوکوہلو کے پہاڑوں میں شہیدکیا گیا۔ تاکہ اس آواز کو دبایا جائے۔ وہ آواز غریب عوام کی آواز تھی۔ جس کی گونج سےتخت پاکستان، اسلام آباد، ہلتا تھا۔
اب صورتحال بنیادی سہولیات کی فراہمی سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اب یہاں کی پوری پوری آبادی کو گیس کے ذخائر کی موجودگی کے نام پر ہٹادیا جاتا ہے۔ بغیر نوٹس جاری کئے ہوئے آبادی صفحہ ہستی سے مٹادی جاتی ہے۔ ان کے گھروں کو بلڈوزکیا جاتا ہے۔ ان سے چھت چھینی جاتی ہے۔ جبکہ ان اراضی سے نکلنے والی گیس مقامی آبادی کو نصیب نہیں ہوتی ہے۔ اور نہ ہی ان کمپینوں میں انہیں ملازمت دی جاتی ہے۔
2005 کے آپریشن کے بعد سوئی کی آباد اچانک بڑھ گئی۔ ضلع کے مضافاتی علاقوں سے لوگ امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے سوئی منتقل ہوگئے۔ اس وقت سوئی کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ پی پی ایل کا ویلفیر فنڈز بھی خرد وبرد کی نظر ہوجاتا ہے۔من پسند لوگوں میں بندربانٹ ہوجاتا ہے۔ سوئی میں قائم پی پی ایل کا اسپتال میں ادویات اور ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگ کشمور اور صادق آباد کا رخ کرتے ہیں۔
پی پی ایل حکام ایک عرصے سے سن کوٹہ پر مکمل عملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے نئی بھرتیاں نہیں کی جارہی ہے۔
مقامی افراد نے حکام پر الزام لگایا کہ ماضی میں چالیس کے قریب بگٹی انجینئرز کو ملازمت دلانے اور مذاکرات کے نام پر کراچی بلاکر انہیں لاپتہ کردیا گیا۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ گیس اور معدنی وسائل بلوچستان کی ملکیت ہیں اور ان پر صوبے کا ہی اختیار ہونا چاہیے وفاقی حکومت کا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے تیزی سے گیس نکالی جارہی ہے۔ اوردوسرے صوبوں کی نسبت کل ترقیاتی سرچارج میں اس کا حصہ زیادہ ہے بلوچستان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان سرچارجزیا اضافی ٹیکسوں کو وصول کرنے کا موجودہ طریقۂ کار ختم کیا جائے۔ جس سے بلوچستان کو گیس کی آمدن کی مد میں زیادہ پیسے مل سکے۔ مختلف فارمولوں کے تحت بلوچستان کو گیس ترقیاتی سرچارج کے محصول میں سے 53سے 65فیصد حصہ ملنا چاہیے ۔ اس وقت مختلف صوبوں میں گیس کی رائلٹی کے نرخ مختلف ہیں اور سب سے کم بلوچستان کی گیس کے نرخ ہیں۔
2014 کو بلوچستان حکومت نے سوئی کی آبادی کو پانی کی فراہمی ایک منصوبہ شروع کیا تھا۔ جس پر ایک ارب 25 کروڑ مختص کردیا گیا۔ تاہم منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ کام ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ رہا ہے۔
کچھی کینال پروجیکٹ 363 کلو میٹر مین طویل کینال میں سے 351 کلو میڑ کینال پختہ ہے۔ یہ نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے نکلتی ہے اور وہ سوئی میں ختم ہو جاتی ہے۔تاحال اس پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے سوئی کے ایک لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی کو پانی ملے گا۔ اب تک اس کینال سے سوئی کے چالیس ہزار ایکٹر زرعی اراضی کو پانی مل رہا ہے۔ تاہم کام سست روی کا شکار ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں نہ صرف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اس کے لیے مختص رقم بھی خورد برد ہونے کا خدشہ ہے۔

2005 کے بعد ضلع بھر میں ہجرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ضلع کی آدھی آبادی جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ سینکڑوں خاندان آج سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں خواری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ جہاں نہ روزگار ہے اور نہ ہی رہائش میسر ہے۔ وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کراچی، سکھر، کشمور، راجن پور، ڈیرہ غازی، صادق آباد رحیم یار خان سمیت دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔۔غریب بگٹی لاوارث ہوگئے ہیں۔ ان کی زخم پر مرہم پٹی رکھنے والے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ جنہیں دنیا ںواب اکبر خان بگٹی کے نام سے جانتی تھی۔ اس کی موت کی آگ نے ضلع ڈیرہ بگٹی سمیت پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ کیونکہ نواب کا قتل ایک قومی المیہ تھا۔ یہ ایک بزرگ سیاست دان کا ماورائے عدالت قتل تھا۔ نواب بگٹی اپنی موت کے بعد آج ایک افسانوی کردار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو مر کے نہ صرف امر ہوگیا ہے بلکہ بلوچ کاز کا سب سے بڑا حریت پسند ہونے کا درجہ بھی حاصل کر گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: