سول سروس کا امتحان پاس کرکے جمعرات کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہونے والی ڈاکٹر ثنا رام چند پاکستان کی پہلی خاتون ہندو اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔
ڈاکٹر ثنا رام چند نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک ریٹائرڈ ڈسپنسر کی بیٹی ہیں اور سرکاری سکولوں سے پڑھ کر پہلے ڈاکٹر بنیں اور اب سول سرونٹ۔
ڈاکٹر ثنا اپنی کامیابی پر خوش ہیں تاہم وہ کہتی ہیں کہ انہیں زیادہ حیرت نہیں کیونکہ بچپن سے کامیابیاں حاصل کر کے عادت سی ہو گئی ہے۔
’سکول، کالج اور ایف سی پی ایس کے امتحانات میں میرا ہمیشہ ٹاپ سٹوڈنٹس میں ہی شمار رہا ہے، اس لیے مجھے توقع تھی کہ میں سی ایس ایس میں بھی کامیاب ہو جاؤں گی۔‘
وہ کہتی ہیں سی ایس ایس کی تیاری انہوں نے بغیر کسی مدد کے ایک کمرے میں کی تاہم انہوں نے انٹرویو کے لیے کراچی میں گھر کے پاس فرئیر حال میں قائم کیے گئے فلاحی سی ایس ایس کارنر میں پریکٹس کی۔
ثنا نہ صرف شکار پور کے گاؤں چک کی پہلی سی ایس پی آفیسر ہیں بلکہ ان کے مطابق وہ میں پورے ضلع میں واحد خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ والدین کی چار بیٹیاں تھیں اور بیٹا کوئی نہیں تھا ۔ معاشی حالت بہت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں میں نہیں پڑھا سکتے تھے اس لیے وہ اور ان کی تین بہنیں سرکاری سکولوں میں پڑھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’چاروں نے اعلی تعلیمی کارکردگی دکھا کر والدین کا سر فخر سے بلند کیا۔ ’میری ایک بہن سافٹ وئیر انجینیئر ہیں، دوسری نے ایم بی اے کیا ہے اور تیسری میڈیکل کالج کی طالبہ ہیں۔‘
ڈاکٹر ثنا نے لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پھر کراچی میں آکر پریکٹس شروع کی۔ وہ سی ایس ایس سے قبل یورالوجی میں سپیشلائزیشن کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہندو کمیونٹی کی پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر بننے پر انہیں فخر بھی ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ وہ بطور ایڈمنسٹریٹو آفیسر اپنا کام دیانت داری کے ساتھ کرکے ہندو کمیونٹی کا اعتماد مزید مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔
’میں اچھا کام کروں گی تو میری کمیونٹی پر معاشرے کا اعتماد بڑھے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہندو کمیونٹی کے بچے اب پڑھ لکھ کر ڈاکٹرز اور انجینیئرز بن رہے ہیں میں انہیں پیغام دینا چاہتی ہوں کہ سول سروس اور بیوروکریسی میں بھی ان کے لیے بہت جگہ ہے۔‘
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مشکلات کے حوالے سے سوال پر ثنا رام چند کا کہنا تھا کہ انہیں کبھی زندگی بھر ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اقلیتی گروپ سے ہیں۔
’مجھے ہندو کے طور پر اپنے پاکستان سے ایک فیصد بھی شکایت نہیں۔ مجھے ہمیشہ مساوی سلوک ملا، پاکستان خوبصورت ہے اور مجھے کئی دفعہ باہر جا کر کیرئیر آگے بڑھانے کا موقع ملا مگر میں ہمیشہ پاکستان میں رہنا چاہتی ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر بھی ڈاکٹر ثنا رام چند کی کامیابی پر مبارکبادیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سنیٹر فرحت اللہ بابر نے ٹوئٹر پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہندو کمیونٹی بلکہ پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ