مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انگلستان میں اردو کا علم بردار||رضاعلی عابدی

مجھے ان کی اس بچوں جیسی ضد پر پیار آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں دو کی قدیم شکل کا اب بھی قائل ہوں اور جب اور جہاں تک یہ بحث چلے گی، قائل ہی رہوں گا۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر اردو دنیا میں چراغ بجھنے کا جو سلسلہ چلا ہے اس میں تازہ گھاؤ اردو کے استاد ڈیوڈ میتھیوزکی وفا ت نے لگایا ہے۔ دور حاضر میں اردو کے دو انگریز استاد برطانیہ کے حصے میں آئے تھے،رالف رسل اور ڈیوڈ میتھوز۔ان دونوں کے دم سے نہ صرف اردو کی اعلیٰ تعلیم جاری تھی بلکہ اردو زبان اور ادب کی تاریخ میں نئے نئے سنگِ میل بھی نصب ہورہے تھے۔رالف رسل تو کئی بڑے معرکے سر کرکے سنہ دو ہزار آٹھ میں چل بسے۔ان کے بعد ڈیوڈ اس محاذ پر ڈٹے رہے اور صرف برطانیہ ہی میں نہیں، دنیا کے مختلف علاقوں میں اردو کے دئیے روشن کرتے رہے۔ ان کے ہونے سے اردو کی محفلوں میں ایک عجب ڈھب کی رونق ہوا کرتی تھی۔ لوگ بڑے اشتیاق سے انہیں دیکھتے اور سنتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک سفید فام برطانوی باشندہ روانی سے سکہ بند اردو بولے گا تو حیرت تو ہوگی۔

ڈیوڈ خالص انگلستانی تھے لیکن مختلف زبانیں جاننے میں انہیں غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ وہ لندن یونی ورسٹی میں صرف اردو ہی کے نہیں، نیپالی زبان کے استاد بھی تھے۔ ان کی اہلیہ لُڈمیلا روسی تھیں، ان سے وہ روسی زبان میں بات کرتے تھے ۔ اور اردو میں مہارت کی خاطر انہوں نے عربی اور فارسی میں بھی حصہ ڈالا ہوگا۔ میرے ان سے اچھے مراسم تھے اور وہ میری اردو نثر کے مداح تھے۔ لندن میں اپنے شاگردوں کو میری کتاب ’جہازی بھائی‘ کی مدد سے اردو پڑھاتے تھے۔ ماریشس کے اس سفر نامے سے وہ اتنے متاثر تھے کہ خدا جانے کتنے عرصے بیٹھ کر انہوں نے جہازی بھائی کا انگریزی میں ترجمہ کیا،کچھ اپنے شاگردوں کی اور کچھ میری خاطر کہ اپنے ترجمے کا مسودہ مجھے دے گئے۔Ship Mateکے نام سے یہ ترجمہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے۔ میں نے کئی بار ان سے اشاعت کی اجازت مانگی جوانہوں نے خوشی خوشی دے دی لیکن اس کے بعد کبھی پلٹ کر پوچھا بھی نہیںکہ ترجمے کا کیا بنا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ترجمہ غور سے پڑھ لوں لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔اب کوشش کروں گا کہ یہ کتاب اشاعت کے مرحلے سے گزرے۔

ڈیوڈ میتھیوزسفر بہت کرتے تھے۔ اردو کے نام سے جہاں کہیں اور جب کبھی کوئی محفل آراستہ ہوتی تھی، وہ ضرور بلائے جاتے تھے۔ وہ شوق سے جاتے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جاتے تھے۔ پاکستان تو بارہا گئے، ہندوستان جانا بھی ان کے معمولات میں شامل تھا۔ وہاں جا کر وہ اردو بولتے تو مقامی باشندے حیرت سے ان کی باتیں سنا کرتے تھے۔ ڈیوڈ خود بھی ہندوستان میں پیش آنے والے لطیفے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب میں ہندوستان میں اردو بولتا ہوں تو لوگ بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور کہتے ہیں’ آپ بہت سندر ہندی بولتے ہیں‘۔اسی طر ح کا ایک واقعہ مدراس میں پیش آیا۔ خود سناتے ہیں کہ مدراس کے ایک ہوٹل میں قیام تھا، صبح اٹھ کر تمام انگریزوں کی طرح چائے کی طلب ہوئی تو ہوٹل کے بیرے کو بلا کر اس سے کہا کہ میرے لئے چائے لے آئیے۔ اس پر مدراسی بیرے نے انگریز ی میں کہا کہ سر مجھے ہندی نہیں آتی۔ اس پر ڈیوڈ نے کہا کہ بیرا صاحب ، یہ ہندی نہیں، اردو ہے۔ یہ سن کر بیرا کھل اٹھا اور بولا ’ اچھا اچھا ، اردو گجل (غزل) مجھے بھی بہت پسند ہے‘۔

تمام محفلوں، مشاعروں اور مذاکروں میں ڈیوڈ کی روسی اہلیہ لُڈمیلا ان کے ہمراہ ضرور ہوتیں۔ لوگ کہا کرتے کہ اگر لڈمیلا کو ارود زبان آ تی تو یہ اب تک بڑی عالم فاضل بن چکی ہوتیں۔ لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ کو کتنی اردو آتی ہے تووہ کہتیں کہ صرف ایک گانا گا سکتی ہوں۔ لوگ فرمائش کرتے تو وہ جھٹ ایک ہندوستانی فلم کا گانا’میں شاعر تو نہیں‘گاکر سنا دیتیں جس سےحاضرین خوب محظوظ ہوتے اور ڈیوڈ ایک طرف بیٹھے مسکراتے رہتے۔ لڈمیلا اپنے شوہر سے ایک سال پہلے چل بسیں۔ مجھے اور میری گفتگو کو بہت سراہتی تھیں۔ڈیوڈ نے اردو کے فروغ کے لئے بڑے کام کئے اور انگلستان والوں کو اردو سکھانے کی کتابیں لکھیں۔ یہ کام کوئی برطانوی باشندہ ہی کر سکتا تھا تو ڈیوڈ نے یہ فرض خوب نبھایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے غالب کا انگریزی میں ترجمہ کیااور میر انیس کے بے مثال مرثیے ’ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘ کا اردو میں ترجمہ کیا جو ہم نے کراچی کی ایک محفل میں ضیا محی الدین کی زبانی سنا۔

ڈیوڈ سے ایک بار میری دل چسپ بحث چھڑی۔ ہم سب ایک محفل میں بیٹھے تھے اور اردوزبان کے بدلتے ہوئے انداز پر بات ہورہی تھی۔ اس پر کہیں میں نے یہ کہا کہ اردو گنتی میں دو کا ہندسہ بعد میں کبھی داخل ہوا ہوگا، اس سے پہلے اردو بولنے والے کئی علاقائی زبانوں کی طرح دو کو بے یا با کہا کرتے ہوں گے۔ڈیوڈ نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے کیوں کر کہا۔ اس پر میں نے کہا کہ اردو گنتی کولے کر آگے چلیں با کی مناسبت سے بارہ، بائیس ، بتیس، بیالیس ، باون، باسٹھ ، بہتر ،بیاسی اور بانوے بنا، خدا جانے اسے کس نے منسوخ کر کے یہاں فارسی کا دو رکھ دیا حالانکہ باقی ساری گنتی ہندی میں ہے۔اس دلیل سے ڈیوڈ قائل نہیں ہوئے اور اس بات پر اڑے رہے کہ اردو گنتی میں دو کو ازل ہی سے دو کہا گیا۔ محفل میں یہ بحث ختم ہوئی لیکن ڈیوڈ پھر چین سے نہیں بیٹھے اور علمی کتابوں میں چھان بین کر کے ایک تحریر مجھے بھیجی جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ دو کا ہندسہ پرانے زمانوں میں بھی دو ہی کہلاتا تھا۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کی انگریزی تک میں دو کو بائی کہاجاتا ہے مثلاً بائی سائیکل، بائیسکوپ، بائی ویکلی، بائی فوکل، بائی پاس۔ مگر وہ نہیں مانے۔ مجھے ان کی اس بچوں جیسی ضد پر پیار آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں دو کی قدیم شکل کا اب بھی قائل ہوں اور جب اور جہاں تک یہ بحث چلے گی، قائل ہی رہوں گا۔

ڈیوڈ کو یہ بات ضرور باور کرانا چاہوں گا کہ ’ گجل‘ مجھے بھی بہت پسند ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: