نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان امن پر خانہ جنگی کے منڈلاتے خطرات||حیدر جاوید سید

امریکی مختلف الخیال افغان دھڑوں کو 26نکات پر مشتمل ایک دستوری خاکہ جنوری میں فراہم کرچکے تھے۔ اشرف غنی کی 6ماہ میں انتخابات کروانے کی پیشکش کو طالبان نے مسترد کردیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغان عمل کے بہی خواہوں کی پریشانی بجا ہے۔ قطر معاہدہ کے مطابق امریکہ اور نیٹو افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے رخصت ہوجانا چاہیے مگر امریکی انتظامیہ کی تبدیلی اس فیصلے پر عمل کی راہ میں حائل ہوئی۔ اب جوبائیڈن سرکار نے مئی سے ستمبر 2021ء کے عرصہ میں انخلا مکمل کرلینے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی مختلف الخیال افغان دھڑوں کو 26نکات پر مشتمل ایک دستوری خاکہ جنوری میں فراہم کرچکے تھے۔ اشرف غنی کی 6ماہ میں انتخابات کروانے کی پیشکش کو طالبان نے مسترد کردیا۔
ماسکو کانفرنس میں شرکت کرنے والے افغان طالبان نے انقرہ افغان امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے ،
بظاہر یہ انکار غیرملکی افواج کے انخلاء کے شیڈول میں تبدیلی کا ردعمل ہے مگر لگتا یہ ہے کہ طالبان خود کو مزید معاہدوں کی بندش سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔
تین دن ادھر تاجک نژاد افغان دانشور سیاف ارسل نے کہا
’’ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں اب کی بار طالبان وہی کچھ نہ کریں جو انہوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ کیا تھا‘‘۔
مستقبل کے منظرنامہ کے حوالے سے یہ صرف سیاف ارسل کا خدشہ نہیں اور بھی بہت سارے لوگ اسی طرح کے خدشات ظاہر کررہے ہیں۔
طالبان کا ظہور ملاراکٹی والے اس واقعہ کے بعد ہوا تھا جب ملا راکٹی نے وار لارڈ کی طرح افغان سرزمین سے گزرنےوالوں سے بزور قوت بھتہ لینا شروع کیا لیکن اب 2021ء ہے۔
امریکی بظاہر یہ کہہ رہے ہیں ہمارے جانے کے بعد معاملات خراب نہیں ہوں گے لیکن خرابی نہ ہونے کی ضمانت کون دے گا۔ انقرہ کانفرنس سے توقع کی جارہی تھی کہ مستقبل کے حوالے سے طالبان اور افغان حکومت مفاہمت بھرا رویہ اپنانے کی ضرورت کا احساس کرلیں گے۔
گو ترک وزیر خارجہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم طالبان کو آمادہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاکہ عیدالفطر کے بعد افغان امن کانفرنس کا انعقاد ہوسکے۔
کیا انقرہ کانفرنس منڈلاتے ہوئے خانہ جنگی کے خطرات کو ٹال سکے گی؟
اس سوال کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ جس اہم معاملے کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ خود طالبان نے بعض پڑوسی ممالک میں عسکری کارروائیاں کرنے والے جن گروپوں سے اتحاد بنارکھا ہے کیا وہ ان گروپوں سے اتحاد ختم کردیں گے؟
لشکر جھنگوئی العالمی، جنداللہ۔ تحریک طالبان جماعت الاحرار، پہلی دو تنظیمیں پاکستان اور ایران میں اہداف رکھتی ہیں تیسری تنظیم صرف پاکستان میں کارروائی کرتی ہے۔
اسلامک موومنٹ آف ازبکستان طالبان کا ساتھ چھوڑ کر داعش کی حلیف بن چکی۔ بھارت کی اسلامک سٹوڈنٹ موومنٹ نے بھی داعش کو افرادی قوت اور وسائل فراہم کئے۔
بعض ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ رمضان المبارک سے قبل پاکستان میں طویل عرصہ سے دہشت گردی میں مصروف گروپوں اور طالبان قیادت کے درمیان خوست اور کنٹر میں دو مشاورتی اجلاس ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تنظیمیں مستقبل میں طالبان سے ماضی کی طرح تعاون کریں گی، کس برتے پر؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ان تنظیموں کے ہم خیالوں کے مراکز پاکستان بھر میں موجود ہیں۔ سوویت امریکہ جنگ طالبان کے ظہور اور اقتدار اور 9/11کے بعد ان مراکز نے طالبان کو افرادی قوت اور وسائل فراہم کئے۔
جواباً طالبان نے انہیں افغانستان میں تربیتی کیمپ قائم کرنے کی سہولت دی۔ طالبان کے پاکستانی ہم خیالوں کی شدت پسندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
ہماری ریاستی افغان پالیسی کی کون سی کل سیدھی ہے یہ ڈیڑھ ملین ڈالر کا سوال ہے۔
مئی سے ستمبر کے درمیان 4ماہ بہت اہم ہیں۔ طالبان افغان اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرنے کو اپنا شرعی حق گردانتے ہیں تو کیا افغان عوام کی قسمت اور مستقبل پھر سے بندوق برداروں کے ہاتھ میں ہوں گے؟
کیا افغانستان کا اقتدار اعلیٰ طالبان کے قبضے میں جاتا ہے تو ان کے پاکستانی ہم خیال پچھلے ادوار کی طرح پاکستان میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں گے؟
ان دو سوالوں کا جواب طالبانائزیشن کے ریاستی و غیرریاستی سہولت کاروں کو دینا چاہیے۔
پچھلے ماہ ماسکو میں منعقد ہوئی افغان امن کانفرنس کے بعد ان سطور میں عرض کیا تھا ہمارے پالیسی ساز خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ طالبان کسی کے سگے نہیں خود غرضی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ بھی پڑوس کے اسلامی ممالک میں اپنے مسلک کے انقلابات کا خواب دیکھتے ہیں۔
ماضی میں انہوں نے اپنے مسلک کی پڑوس کی ہم خیال تنظیموں کو کھل کر سپورٹ کیا۔ ہم نے نتائج بھی بھگتے۔
تو کیا اب پھر پرانے دن لوٹنے والے ہیں۔ جمہوری اور پرامن افغانستان کا خواب بکھرتا ہوا لگتا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کے بغیر طالبان کو کیسے پابند کیا جائے گا کہ وہ عوامی خواہشات کا احترام کریں؟
حیران کن موقف امریکی وزیر خارجہ کا ہے وہ کہتے ہیں
’’ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ طالبان افغانستان میں کیا کرتے ہیں ہماری تو بس ایک شرط ہے کہ وہ امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔
افغان امور کے حوالے سے معمولی سی سوجھ بوجھ کا حامل کوئی شخص بھی تاجک دانشور پروفیسر سیاف ارسل اور امریکی وزیر خارجہ کے خدشہ اور خواہش کو ملاکر تجزیہ کرے تو مستقبل کے منظرنامے کو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ ایک نئی خانہ جنگی کا دروازہ کھلنے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author