نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علی (علیہ السلام) کا قتل عظیم المیہ تھا اور رہے گا||عامر حسینی

میں بازار گئی ہاں دربار گئی ہاں۔۔۔۔۔ میکوں لوگ قیدن ڈسیندے رہئے ہن۔۔ میں خطبے دے اندر ڈسیندی رہی ہاں،میرے گھر خدا دا ہئے قرآن آا- ایہا گال سندے رہئے لوگ سارے تے ول چھت توں باہیئں سٹیندے رہے ہن

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی نوحہ خوانی سندھو وادی کی قدیم مارو روایت سے نشابر ہوئی ہے اور اس کا مقابلہ کوئی اور روایت نہیں کرسکتی ہے ، یہ خود بخود آپ کے دل کو جکڑ لیتی ہے اور یہ ایسے غم ، دکھ اور مصائب کی تجسیم کرتی ہے کہ آپ کو کسی اور تفصیل جاننے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے۔ ضربت علی کے سانحے کو لیکر اس خطے کے شاعروں نے ایسے ایسے طریقوں سے مضمون باندھے ہیں کہ آپ کے آنسو نہیں رکتے اور آپ کے دل میں خود بخود یا احساس جاگزیں ہوتا ہے اس سے بڑھ کر غم اور مصبیت سے بھری رات کوئی نہیں ہوسکتی ۔ میں اپنی ایک پوسٹ میں آج ہی امام حسن علیہ السلام کے جناب علی علیہ السلام کے قتل والی رات کے موقعہ پہ خطاب کو درج کرچکا ہوں اور اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ جس رات علی قتل ہوئے تھے وہ رات مذاہب کی تاریخ میں انتہائی اہم راتوں میں سے اہم رات تھی۔ آج کے ریشنلسٹ ، روشن گر اور خرد افروز ایسی باتیں لکھنے پہ ہم جیسوں کا مذاق اڑا سکتے ہیں ان کو اجازت لیکن تاریخ میں علی کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہ اس وقت تھا جب یہ ہوا تھا اور نہ ہی آج تک ہے جب صدیاں اس قتل کو گزر گئی ہیں ۔ جیسے عیسی ابن مریم کو سولی تک پہنچانے والا ان کے اپنے حواری میں سے ایک تھا یعنی جو امت مسیح کی پہلی صف میں سے تھا ایسے ہی علی کا قتل بھی ان کے عم ذاد کا کلمہ پڑھنے والوں میں سے ایک نے کیا تھا اور اس سے بڑا المیہ بھلا کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد از وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے لیکر ضربت تک علی المرتضی کو جس مخالفت، منافقت، دلوں میں بغض کا سامنا کرنا پڑا اسی میں علی المرتضی کی "تنہائی ” چھپی ہوئی تھی اور اتنی بے گانگی اور اتنی غیریت کا انھیں سامنا کرنا پڑا تھا کہ جب انھیں ضرب لگتی ہے تو پہلا جملہ ان کے منہ سے یہی نکلا ” رب کعبہ ممیں کامیاب ہوگیا” – آج بھی اسلام کے نام لیواؤں کی اکثریت اسلام کے نام نہاد بڑے بڑے دانشوروں ، مفکروں ، اسکالرز کی چرب زبانی اور ان کے پروپیگنڈے میں آکر "قتل علی ” کو معمول بہ واقعہ بناکر پیش کرنے کی مذموم کوشش میں اس دن اور اس شب کو یونہی سمجھ کر گزار دیتے ہیں اور ایسے ایسے شقی قلب عالمی مسلم مفکر ہیں جن کو علی کے نام لیواؤں کی جانب سے اس واقعے پہ زور قرآن اور اسلام کے مدمقابل آنا لگتا ہے۔ جب وحید الدین خان اور غامدی جیسے ان واقعات پہ پردہ ڈالتے ہیں اور قرآن کو احادیث اور تاریخ سے الگ کرنے پہ اصرار کرتے ہیں اور اسے شخصیت پرستی قرار دینے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں تو مجھے خود علی المرتضی کی زندگی میں ان کے سامنے قرآن اور اسلام پہ اپنے خودساختہ بھاشن دینے والے اور اپنی رائے کو تھونپنے والے یاد آجاتے ہیں – ویسے تو یہ کسی عام مسلمان کی تکفیر کے خلاف بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں اور کسی بے گناہ غیر مسلم کی جان لینے والوں کے نظریات پہ شدید تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن معاملہ جیسے ہی علی علیہ السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اور ان کے وفاداروں کے قتل کی آتی ہے اور اس کے پیچھے کار فرما نظریات کی آتی ہے تو پھر یہ تاویل کا بازار گرم دیتے ہیں ۔ یہ جدید دور کے اموی اور خارجی ہیں جو بظاہر جدید اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے پیچھے ظلم اور باطل کا دفاع ہوتا ہے۔
سرائیکی خطے کے شاعروں نے علی اور ان کے خانوادے کے ساتھ ہوئے المیے کو ان کے ذاتی دکھ کے تناظر میں بھی دیکھا اور ساتھ ساتھ ظالم و مظلوم کی روز ازل سے چلی آرہی کش مکش کے اندر دیکھا۔ ان شاعروں نے کہیں اس المیے کو علی کی بیٹیوں کی نظر سے محسوس کرایا تو کہیں ان کے بیٹوں کی نظر سے محسوس کرایا تو کہیں ان کے محبتیوں کے زریعے محسوس کرایا اور کربل تک یہ زاویہ ہائے نگاہ ہمارے سامنے بار بار لائے جاتے ہیں اور آپ علی المرتضی اور ان کے خانوادے کے دکھ کو ذاتی سطح پہ محسوس کرنے کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جسے کسی کی سردعقلیت آپ سے دور نہیں کرسکتی – علی المرتضی کے مصائب اور دکھ ذاتی سطح پہ بھی معمولی نہیں تھے اسے اسلام ،قرآن سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے آپ انسانیت کے روایت المیہ سے الگ کرسکتے ہیں جس نے ایک بار اسے ذاتی طور پہ محسوس کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کرلی تو پھر اس احساس سے وہ اپنے آپ کو الگ نہیں کرسکے گا۔ ایک بار ھما جعفری (اللہ ان کی قبر کو تجلیات سے منور رکھے ) کہنے لگیں کہ اگر علی اور ان کے گھر والوں کا المیہ عالمگیر جہت نہ رکھتا تو یہ کبھی ہزاروں صدیوں سے المیہ کی روایت سے بہرہ ور ثقافتوں کا حصّہ نہیں بن سکتا تھا اور نہ ہندوستان کے کونے کونے میں اس المیے کو مقامیوں نے اپنی روایت میں جذب کرکے اسے اپنایا ہوتا ہے۔ علی ، فاطمہ، حسن ، حسین، زینب و سکینہ و غازی عباس و دیگر کرداروں کو ایسے ہی کبیر ، گرونانک جیسی شخصیتوں نے اپنے اشعار میں جگہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو یہ اپنی ہی ٹریجڈی کا حصّہ لگے ۔۔۔۔۔ بھلا ہند اور سندھ کی مقامی زبانوں میں رثائی روایت میں آل بیت کے المیے یونہی جگہ پاگئے؟ کیا کسی حکومت کا جبر اس کے پیچھے کام کررہا تھا؟ نہیں جھانسی کی رانی کے لیے اہل بیت کے المیوں میں کیا کشش تھی وہ جو ان کی شہادتوں کے ایام پہ سراپا سوگ و ملال بن جایا کرتی تھی؟
کیا ایسے مصرعے یونہی تخلیق ہوجاتے ہیں؟
میں بازار گئی ہاں دربار گئی ہاں۔۔۔۔۔ میکوں لوگ قیدن ڈسیندے رہئے ہن۔۔ میں خطبے دے اندر ڈسیندی رہی ہاں،میرے گھر خدا دا ہئے قرآن آا- ایہا گال سندے رہئے لوگ سارے تے ول چھت توں باہیئں سٹیندے رہے ہن۔۔۔۔۔ جہیڑا کچھ گیا ہئے اوہ ڈہ دن دا پیاسا ، وہ جنت دا سردار نیزے تے ڈيکھو -کھڑے شامی آکھن نمازی بھرا کوں وہ باغی تے دیکھوں ویکھندے رہئے ہن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نوحے یونہی نہیں لکھے جاتے ۔۔۔۔۔۔۔ عیسائی بازار اچ ودے روکے آکھن – ایہہ قیدی نئیں سارے آل رسول ہن ۔۔۔۔۔۔ انھاں چادراں ڈیو انھاں بیبیاں کوں وہ سر ساڈے شام اچ کجیندے رہئے ہن (عیسائی بازار میں روتے ہوئے کہتے رہے ! یہ قیدی نہیں ہیں رسول کی آل ہے ان بیبیوں کو چادریں دو وہ شام میں ہمارے سروں کو ڈھانپتے رہے ہیں) ) ہائے اعلان تھیندا رہیا شام وچ ہئے اجاں قیدی روکو بزار سجدا اے-
۔۔۔۔۔۔۔
پردیس اچ دھیاں نال ودن کیا سوچ کے قتل علی کیتا ای
ہتھ نہ ہوندے تیڈے ملجم کیوں اتنا ظلم شقی کیتا ای
ڈھل سر دی گئی ہئے پاک ردا ڈھڈا جس دم ہئے زخمی بابا
رت وسن دی لگدا اے گزار گئی اے وین علی دی دھی کیتا ای
تیری ضرب علی کوں کھاگئی اے ،مر جیندی عون دی ماں گئی اے
اللہ دا عرش ہلا چھوڑا ای ، وچ قبر بے چین نبی کیتا ای
تر خون اچ ریش علی دی ہئے ، مک آس گئی ہر دھی دی ہئے
جیندی خاطر وطن توں ائی زینب اوہ زخمی پاک علی کیتا ای

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author