اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم نے مصروفیت ڈھونڈ لی||رضاعلی عابدی

یہ جو ہماری آپ کی زندگیوں میں کمپیوٹر نامی مخلوق داخل ہوگئی ہے یہ بھی نئے زمانے کا نیا کمال ہے۔اس میں خرابیاں ڈھونڈو تو سینکڑوں ملتی ہیں اور خوبیاں تلاش کرو توان کا شمار مشکل ہے

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہاں الیکشن ہوئے، کہاں ووٹ ڈالے گئے، کس کا پلہ بھاری رہا اور کہاں کہاں ضمیر کا سودا ہوا، لوگوں نے سوچا کہ خاک ڈالو اور سوچو کہ ہمیں کیا۔ دنیا میں بے شمار دوسرے مسئلے ہیں، ان پر دھیان دو اور اپنے کام سے کام رکھو۔چنانچہ لوگوں نے اچھا کیا، خود کواور اس سے بھی بڑھ کر اپنے دل و دماغ کو کسی اور طر ف لگانے کے راستے تلاش کر لئے۔

یہ جو ہماری آپ کی زندگیوں میں کمپیوٹر نامی مخلوق داخل ہوگئی ہے یہ بھی نئے زمانے کا نیا کمال ہے۔اس میں خرابیاں ڈھونڈو تو سینکڑوں ملتی ہیں اور خوبیاں تلاش کرو توان کا شمار مشکل ہے۔اسی بیچ جو کووِڈ 19،یا کورونا نام کی آفت نازل ہوئی اس نے بھی اپنے دو رُخ تلاش کرلئے۔ لاک ڈاؤن ہوا، لوگ گھروں میں بند ہو کر بیٹھ رہے۔ اب مسئلہ تھا خود کو مصروف رکھنے کا، دل کہیں لگانے کا اور ذہن کو کسی ٹھکانے لگائے رکھنے کا۔ایسے میں کسی کو بہت دور کی سوجھی۔کیوں نہ کوئی ایسا آلہ اس میں ڈالا جائے کہ اپنے اپنے گھروں میں بند لوگ سارے کے سارے اکٹھا ہوکر آپس میں باتیں کریں، گفتگو کریں ،تبادلہ خیال کریں اور اس سیاست کی دلدل میں دھنسنے کے بجائے کوئی خوش گوار موضوع لیں، کوئی جی کو بہلانے والا عنوان لیں اور اس پر اپنی برادری کی بیٹھک جمائیں،بقول شاعر، رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوش بو آئے۔

تو اب صورت یہ ہے کہ جس طرح ایجاد کرنے والوں نے رات دن ایک کرکے کورونا کا ٹیکہ ایجاد کرلیا، اسی طرح انٹر نیٹ یااسمارٹ فون پرمحفلیں آراستہ کرنے کی تدبیریں بھی نکال لی گئیں۔اب جو رسم چلی ہے وہ اگرچہ نئی نہیںمگر کیا خوب ہے کہ بدن کی ورزش کی طرح ذہن کی ورزش کی صورت بھی نکل آئی ہے۔ وہ جو بڑی زحمتیں اٹھا کر بڑی بڑی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں، دنیا زمانے کے لوگ تھکادینے والے سفر کرکے شرکت کیا کرتے تھے انہوں نے کیا شکل نکالی ہے ، یقین نہیں آتا۔ اب چاہے بڑا بین الاقوامی اجلاس ہو یا آٹھ دس احباب کی نجی بیٹھک، اپنے گھر کے آرام دہ کمرے میں بیٹھے بیٹھے محفل آراستہ ہو جاتی ہے اور اگر اس میں کہیں شعر وشاعری یا رقص و موسیقی راہ پاجائیں تو ایسا رنگ جمتا ہے جس کا ابھی پچھلے سال تک تصور کرنا مشکل تھا۔

ابھی کچھ روز ہوئے یہاں لندن میں ایک پرانی تنظیم نے جو انجمن ترقی اردو، خواتین برطانیہ کے نام سے مشہور ہے، اپنا سالانہ مشاعرہ کیا۔ پہلے تو یہ مقامی مشاعرہ ہو ا کرتا تھالیکن اب جو دشوار زمانے آئے ہوئے ہیں، یہی عالمی مشاعرہ بن گیا۔ لند ن میں بیٹھے بیٹھے امریکہ ، کینیڈا ، بھارت اور پاکستان کے شاعر بھی اس میں شریک ہوئے۔ اس مشاعرے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ آندھی آئے یا طوفان، یہ محفل ٹلتی نہیں۔ یہ بات کہنے والوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ آندھی اور طوفان کے علاوہ کورونا نام کی ایک آفت اور بھی ہے جو ہر محفل کے رنگ میں بھنگ ڈال سکتی ہے۔ لیکن یہ ہوا کہ سارے شاعر اور تمام حاضرینِ مشا عرہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر موجود رہے اورانجمن کی کرتا دھرتا نجمہ عثمان اور رخشند ہ ظفر اگر چہ اپنی سالانہ ضیافت کا اہتمام تو نہ کرسکیںمگر مشاعرہ ہوا اور خوب ہوا۔ ہم نے یخ بستہ امریکہ اور کینیڈا کی خواتین کا کلام لندن کی فضاؤں میں بیٹھ کر سناجہاں بہار کے پھول کسی بھی لمحہ کھلنے کو ہیں۔

اسی دوران امریکہ کی ایک ادبی تنظیم نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ہے ۔ یہ بھی آن لائن ہوگا ۔ اس کا عنوان دل چسپ ہے: میڈیا یا ذرائع ابلاغ میں ادبی اقدار کا فقدان۔ سہل لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ آج کے ریڈیو، ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ پر جو پروگرام نشر ہورہے ہیں ان میں وہ شعر و ادب کی خوبیاں ختم ہوتی جارہی ہیں ، اس کا کیا علاج ہو۔یہ مباحثہ بھی دنیا بھر میں سنا جائے گا۔ دیکھیں گے کہ آج کے ریڈیو اور ٹی وی سے متعلق اکابرین ان روکھے سوکھے پروگراموں کے بارے میں خود کیا کہتے ہیں۔آن لائن ایک اور مذاکرے کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔ اس کا اہتمام پرانے گانوں اور نغموں کی غیرمعمولی مہارت رکھنے والے محترم سلطان ارشد خاں اور عمرانہ عینی نعیم کر رہی ہیں۔ عنوان بہت ہی دل چسپ ہے: ایک شام ساحر لدھیانوی کی یاد میں ۔اس میں ہندوستان ، پاکستان ، برطانیہ اور امریکہ کے اکابرین حصہ لیں گے۔ ساحر لدھیانوی کا نام ہی ایسا ہے کہ ان کا ذکر چھڑ جائے تو ختم ہونے پر نہ آئے۔ اس گفتگو میں ساحر کے لکھے ہوئے نغمے بھی شامل ہوں گے۔خاص طور پر وہ جنہیں دنیا بھول گئی:

برسو رام دھڑاکے سے،بڑھیا مر گئی فاقے سے

لکشمی اس کے گھر نہیں آتی،مُڑ جاتی ہے ناکے سے

یہ او ر اسی طرح کی دوسری محفلیں خوب آراستہ ہور ہی ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی انٹرویو یا کسی نہ کسی موضوع پر مباحثے کی نوید سننے میں آتی ہے۔ پچھلے دنوں دلّی کے بے مثال ادارے ’ریختہ‘ نے اپنے جس جشن کا اہتمام کیا وہ بھی دلّی کے کسی دالان کی بجائے آن لائن ہوا تھا جسے ایک عالم نے دیکھا ۔کراچی کی آرٹس کونسل نے اپنی سالانہ اردو کانفرنس نئے ڈھنگ سے منعقد کی۔اس میں مقامی اکابرین نے خود موجود رہ کر شرکت کی اور جو دور کے مہمان تھے وہ اگرچہ اُسی ہال میں اور ان ہی شرکا کے سامنے بولے لیکن ایک بہت بڑے پردے پر نظر بھی آتے رہے اور آواز کا سنائی دینا تو اس زمانے میں کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔

غرض یہ کہ حالات اگرچہ بہت سازگار نہیں۔ کورونا اور سیاست کے عذاب کے علاوہ یوں بھی زندگی بہت دشواریوں میں الجھ کر رہ گئی ہے۔بے روزگاری اور اس سے بھی بڑھ کر گرانی نے ہر شے میں ایسی آگ لگائی ہے کہ جس کی تپش سب ہی کو جلائے ڈالتی ہے۔ ایسے ماحول میں ذرا سا جی بہل جانے کا سامان مہیا ہو تو غنیمت ہے۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خود کو بہلانے کا ہنر سیکھ لیا ہے، اب جو بھی ہو، جیسے بھی بنے گا جی لیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: