حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے 25کے لگ بھگ ٹی وی اینکرز کی ساڑھے سات گھنٹے تک جاری رہنے والی نشست کے حوالے سے دلچسپ باتیں سامنے آرہی ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف نے اینکرز صاحبان سے کہا
’’یہ ساری باتیں آف دی ریکارڈ ہیں آپ لوگوں نے ملاقات کا احوال بیان کیا تو میں اس کی تردید کردوں گا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگر ساڑھے سات گھنٹے کی اس نشست کی روداد سے عوام کو آگاہ نہیں کرنا تو پھر اس ملاقات کی ضرورت کیا تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو بلایا گیا ان میں سے اکثر نے ہمیشہ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کا منجن ہی بیچا اب بھی وہ یہی منجن فروخت کرتے رہیں گے۔
ساڑھے سات گھنٹوں میں سے لگ بھگ جو چھ گھنٹے سوال و جواب میں گزرے، اس حوالے سے راوی بہت کچھ بتابھی رہے اور چھپا بھی۔
کہا جارہا ہے کہ انہوں نے میڈیا پر فوج پر ہونے والی تنقید کے معاملے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جی بالکل لینا چاہیے لیکن یہ بھی بتایئے کہ چار بار سول حکومتوں کا تختہ کیوں الٹا گیا۔
نوازشریف کی حکومت گرانے کے لئے جو کچھ ہوا وہ تو کل کی بات ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں کی کردار کشی کون کرواتا ہے۔
نوازشریف یقیناً اپنے بوجھ سے گرے ہوں گے لیکن ڈان لیکس کا شوشا چھوڑ کر کیا خدمت کی گئی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ بعد کے عرصہ میں افغان پالیسی اور چند دوسرے معاملات پر جو اعتراف کیا گیا ان میں اور ڈان لیکس میں فرق نہیں تھا۔
2018ء کے انتخابات میں وہی واردات ہوئی جو ہمیشہ ہوتی ہے کیوں اور کس نے کس لئے کی؟
علی وزیر کے حوالے سے باہر آنے والی بات درست ہے تو پھر مقدمہ شمالی وزیرستان یا ڈیرہ اسماعیل خان میں درج ہونا چاہیے تھا لیکن وہ کراچی میں کی گئی ایک تقریر کی بنیاد پر درج مقدمہ میں گرفتار ہوئے اور مقدمہ درج کرنے کے لئے ایس ایچ او اور متعلقہ ایس پی کو کس نے کہا؟
سندھ حکومت تو کہتی ہے مقدمہ ہمارے علم میں لائے بغیر درج کیا گیا۔
سنا ہے کہ کشمیر پر بڑی باتیں ہوئیں، کیا باتیں ہوئیں، مسئلہ کشمیر کا اب بچا ہی کیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرچکا اور آپ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔
جی بی کے الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس معاملے پر اعتماد میں لینے کے لئے ہی تو بلایا گیا تھا یہ وہی تاریخی ملاقات ہے جسے تین وجہ سے شہرت ملی۔
اولاً یہ کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
دوئم بلاول بھٹو اور میزبانوں میں تلخی ہوئی تھی
سوئم اس ملاقات کو بھی آف دی ریکارڈ رکھنے کا کہا گیا اور پھر اپنے مخصوص ذرائع بھونپوئوں کے ذریعے ملاقات کی رام کہانیاں مارکیٹ میں پھینکوائی گئیں۔
اس ملک میں سب سے زیادہ بربادی آف دی ریکارڈ ملاقاتوں نے پھیلائی۔
اب دیکھیں نہ لانگ ماچ سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا پروپیگنڈہ کروایا۔ نون لیگ اور مولانا جذباتی ہوئے پھرتے تھے۔ جناب نوازشریف نے یہاں تک کہہ دیا ’’جو استعفی نہیں دے گا سہولت کار اور غدار ہوگا‘‘۔
اب ان کی صاحبزادی مریم نواز کہہ رہی ہیں حکومت تو دو منٹ میں گرائی جاسکتی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں یہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے۔
اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دلوادیں گے۔ یہ استعفے نہیں تھے 18ویں ترمیم کے خاتمے کی سہولت کاری تھی۔
اب باتیں کھل رہی ہیں سارا ڈرامہ سمجھ میں آرہا ہے۔
گیلانی کی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈری والے معاملے پر نون لیگ اور مولانا ایسا کوئی تحریری معاہدہ پیش نہیں کرپائے کہ جس سے یہ ثابت ہوکہ پیپلزپارٹی نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔
مریم نواز کی ایک اور بات بھی دلچسپ ہے کہتی ہیں جہانگیر ترین کے لوگ ہمارے رابطے میں ہیں۔
خیر اس بات کو اٹھارکھتے ہیں۔ جناب شہباز شریف کی ضمانت ہوچکی۔ زرداری اور فریال تالپور کی ضمانتیں اگر ڈیل کا نتیجہ تھیں تو یقیناً شہباز اور حمزہ کی ضمانتیں بھی ڈیل کا نتیجہ ہوں گی۔
ڈیل ہی کہیں گے نا اسے کہ پنجاب سے بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروائے گئے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ اگر حکومت کو پانچ سال پورے ہی کرنے دینے کی سوچ تھی (یا معاہدہ تھا) تو پھر اس ساری کھیچل کی ضرورت کیا تھی؟
ویسے ہمارے وہ دوست جو آف دی ریکارڈ ملاقاتوں کی کہانیاں کھوج کر لے آتے ہیں کسی دن لاہور میں ایک اہم شخصیت کے ’’ہاوس‘‘ پر ہوئی دو ملاقاتوں اور راولپنڈی میں ہوئی ایک آف دی ریکارڈ ملاقات کے احوال بیان کریں گے؟
بالکل نہیں کریں گے کیونکہ ان میں اتنا حوصلہ ہے ہی نہیں کہ یہ عوام کو بتاسکیں کہ مولانا اپنے آزادی مارچ کے بیچوں بیچ چودھری برادران کے ہمراہ آرمی چیف اور جنرل فیض سے ملاقات کرنے گئے تھے۔
کاش کسی دن مولانا اس آف دی ریکارڈ ملاقات کے وعدوں کی پوری کہانی بیان کردیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر