ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم مئی شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے مگر شکاگو اور اُس سے ملتے جلتے واقعات ہمارے ہاں بھی آئے روز ہوتے رہتے ہیں ، کہنے کے تو دنیا نے بہت ترقی کرلی اور انسان چاند پر پہنچ گیا مگر غریب کی حالت نہیں بدلی ۔جیسا کہ یہ عہد کورونا کا عہد چل رہا ہے ، لاک ڈائون اور اُس سے ملتی جلتی صورتحال نے سب سے زیادہ متاثر غریب اور مزدور طبقے کو کیا ہے ۔ بھارت کی صورتحال سب کے سامنے ہے ۔
وہاں بھی غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے تاہم جو اچھی بات ہے وہ یہ کہ وزیراعظم عمران خان کے احساس پروگرام نے غریبوں کوتھوڑا ریلیف دیا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ یہ محض جزوی سہارا ہے جبکہ مزدور کو ریلیف اُس وقت ملے گا جب اُن کے معاشی حالات بہتر ہوں گے ۔ سرِ دست میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مزدوروں کا مسئلہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے، آج روٹی ، کپڑا ، مکان کے نعرے نے بھی اپنا مفہوم تبدیل کر لیا ہے ۔ اب فرد کی روٹی کی بجائے محروم طبقے کے تمام لوگوں کیلئے غربت و پسماندگی کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ وسیب میں غربت و بے روزگاری کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے ۔ اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے کیا تھے ، ہوا کیا ہے؟
مہنگائی اور بد امنی نے ستیاناس کر دیا ہے ، وسیب کا مزدور اور عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ اشیاء ضرورت کی قلت کا فائدہ ہمیشہ سرمایہ دار کو ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں اداروں سے ملازمین کی سب سے زیادہ بر طرفیاں ہوئیں ۔ مزدور اور دیہاڑی دار پہلے ہی تباہ تھے ،رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی ۔ علامہ اقبال نے خوب کہا : یوں توں قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات یہ ٹھیک ہے کہ علامہ اقبال نے قادر مطلق سے بندہ مزدور کے حالات کی تنگدستی کا شکوہ کر دیا اور بتا دیا کہ ’’ ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات ‘‘ لیکن اب بات آگے کی سوچنی ہے کہ بندہ مزدور کی اوقات اور اس کے حالات کیسے تبدیل کئے جا سکتے ہیں؟
کورونا نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، اب غریب مزدوروں کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ غربت اور امارات کے درمیان جو فاصلے بڑ ھ رہے ہیں ، وہ اتنے بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں کہ شاید اس کا ادراک حکمرانوں کو نہ ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غربت کے خاتمے کے حوالے سے باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں ، قبل اس کے غربت کے مارے لوگ خودکشیاں چھوڑ کر خود کش بن جائیں ۔
پاکستان کے کسی علاقے میں صورت حال قابل رشک نہیں مگر سرائیکی علاقے کی صورت حال ابتر ہو چکی ہے، معاشی ناہمواری، بے انصافی، عدم مساوات، تنگدستی، غربت اور بے روزگاری کے باعث لوگ اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خطے میں بیروزگاری ہے اور مزدوری کے لیے لوگ کراچی اور دیگر علاقوں کا رُخ کرتے ہیں ، کراچی میں آئے روز وسیب کے مزدور ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں سانحہ بلدیہ کراچی میں وسیب کے سینکڑوں مزدور زندہ جل گئے ، اسی طرح جھگیوں کو آگ لگانے کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں ۔وسیب کے مزدور جسم اور روح کا رشتہ برقراررکھنے کے لیے مزدوری کرنے کراچی جاتے ہیں اور پھرجلی ہوئی میتوں کی شکل میں میتیں آتی ہیں۔
کراچی سے صدر فاروق لغاری کے دور میں بوری بند لاشیں بھی آتی رہیں اور یہ ستم بھی دیکھئے کہ بوری بند لاشوں پر لکھا جاتا کہ’’ فاروق لغاری کو تحفہ ‘‘اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو سکتا ہے کہ جس شخص کی نفرت میں وہ لوگ مارے گئے اُس نے تعزیت تک کرنا گوارا نہ کی ۔ یہ صرف فاروق لغاری کی بات نہیں وسیب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے ، پچھلے دنوں کراچی پولیس نے تین نوجوانوں کو مار دیا وہ مسئلہ لینڈ مافیا کا تھا مگر مارے سرائیکی مزدور گئے کسی کو پرواہ نہ ہوئی ،ایم کیو ایم والے بھی میتوں پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر چلے گئے ۔ پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی تو غریبوں کی ہمدرد ہے اور صوبے کی حامی بھی ہے۔
اس کے ہاتھوں سرائیکیوں پر جو قیامت ٹوٹی اور غریبوں کے بلاول مارے گئے ،اس کیلئے خدا معلوم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح بے تاب ہو تو ہو ، البتہ زرداری اور بلاول بھٹو کو پرواہ نہیں اور یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود سمیت پی پی کا کوئی سرائیکی بات نہیں کرے گا ۔مسئلہ بہت حساس ہے وزیراعظم عمران خان ملتان آئے انہوں نے سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا جس پر وسیب کے لوگ خوش نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ وسیب کے جاگیردار ساستدانوں اور لاہور کے حکمرانوں سے مایوس ہیں ۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی سے قرادادوں کے باوجود صوبہ نہیں بنا ،وسیب کے لوگ تنگ آ کر اب فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔کیا وسیب کے کروڑوں افراد کو ان کا تاریخی ،ثقافتی اور جغرافیائی حق ملے گا یا پھر وہ اسی طرح کراچی و بلوچستان میں بے روزگاری کے ہاتھوں غیر طبعی موت مرتے رہیں گے ؟ غربت کے خاتمے کے لیے تحریک انصاف نے منشور دیا ، عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر عمائدین نے تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کئے ، برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے حالات میں تو تبدیلی آ گئی مگر غریب پہلے سے بڑھ کر مشکلات کا شکار ہوا ہے۔
تحریک انصاف کے دور میں بھی غریب کو انصاف نہیں مل رہا ،اُردو کاایک شعر اس طرح ہے کہ ’’ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں ، انصاف کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے ‘‘یہ بھی بہت اعلیٰ شعر ہے مگر شاکر شجاع آبادی نے عمران خان کے نام جو شعر کیا ہے اُس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’آپ کو مسیحائی کا شوق ہے تو آپ قتل کر کے بھی زندگی کسی کی بچا سکتے ہیں ،شعر دیکھئے : بچاویں زندگی کہیں دی قتل کر کے بچا سگدیں مسیحائی دا شوق اے تاں قتل کر ڈین غربت دی اس بارے میں شاکر شجاع آبادی کا ایک اور شعر بھی لاجواب ہے ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ غربت نے عزرائیل کا روپ دھار لیا ہے ، شعر دیکھئے: نہ اسرافیل دا ویلا نہ عزارائیل ڈسدا ہے غریبی موت بن گئی اے خدا مارے غریبی کوں
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر