علی عبداللہ ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھوٹ اور پیپلز پارٹی کا چولی دامن کا ساتھ ھے۔
ذوالفقار علی بھُٹو پہلی مرتبہ 1956/57 میں بطور وزیر اسکندر مرزا کی کیبنٹ میں شامل ہوئے لیکن اس ملک کے بڑے سے بڑے تاریخ دان سے پوچھ لیں تو وہ سینہ ٹھونک کر کہے گا کہ بھٹو صاحب کو ایوب خان سیاست میں لایا, یہی نہیں میدانِ جنگ میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پہ ہارنے پر بھٹو صاحب نے ایوبی آمریت سے کنارہ کیا لیکن اُنکی زندگی میں بھی بدمعاشیہ بڑھ چڑھ کر یہ بکواس پھیلاتی رہی کہ ایوب خان نے بھٹو صاحب کو خود نکالا بھُٹو اپنے دور کے سُپر ہیرو تھے، گوھر ایوب خان بھٹو صاحب کا ذاتی دوست جبکہ اسکی بہن، ایوب خان کی اکلوتی صاحبزادی نسیم ایوب خان بھُٹو صاحب پر فریفتہ تھی جس کا حلقہ اقتدار میں سب کو پتہ تھا یہاں تک کہ ایوب خان خود کئی محافل میں بھٹو صاحب سے استفسار کرتے رھے کہ “(میرے بچوں کی طرح) تُم بھی مُجھے ڈیڈی بولا کرو” لیکن اس ملک کے بچے بچے کو یہ پڑھایا گیا ھے کہ بھٹو صاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے
سقوطِ ڈھاکہ کے دو مرکزی کردار ہماری فوج اور اسکی اتحادی جماعت اسلامی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں ظلم و جور کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج تک بنگلہ دیش کے طالبِ علم پڑھ لیں تو روتے ہوئے جوان ہوتے ہیں اور بیسوں جماعتیوں کو انکے کالے کارناموں کیوجہ سے پھانسی کی سزائیں ابھی چند سال پہلے تسلسل کیساتھ ہوتی رہی ہیں۔ بنگالی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے احسان مند ہیں جس نے انکے قائدِ اعظم مجیب الرحمٰن کو یحیٰ خان کے چُنگل سے زندہ سلامت واپس بھجوایا حالانکہ یحیٰ بنگلہ دیشیوں کو مجیب کی لاش بھیجنے پر مُصر تھا.
لیکن ہم نے بچپن سے سُن رکھا ھے کہ بھُٹو نے “اُدھر تُم اِدھر ہم” کہہ کر پاکستان توڑا، یہ اور بات کہ اُدھر تُم اِدھر ہم کی اخباری سُرخی کے خالق سید عباس اطہر ساری زندگی یہ کہتے کہتے مر گئے کہ بھٹو صاحب نے ایسا بالکل نہیں کہا تھا لیکن کیونکہ ممبر و مسجد سے لیکر ہر قسم کی مسلم لیگ و بدماشیہ پروردہ سماجی و جہادی قوتوں کے پاس بلا روک ٹوک پراپیگنڈہ کا خاکی لائسنس رہا ھے لہذا آج بھی ہر جگہ یہ جھوٹ ڈھٹائی سے بولا اور سُنا جاتا ہے اپریل 4, 1979 سے لیکر آجدن تک کبھی کسی وکیل نے “سرکار بنام ذوالفقار علی بھٹو” کے فیصلے کی نظیر بطور دلیل پیش نہیں کی اور انکی شہادت کو خود عدالتیں ایک افسوسناک عدالتی قتل شمار کرتی ہیں لیکن آج بھی بھٹو صاحب نواب محمد احمد خان قصوری کے قاتل پکارے جاتے ہیں بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بینظیر بھٹو کو ناقابلِ شادی مشہور کیا گیا اور انکے دشمن انہیں ‘بانجھ’ کہہ کر ان پر پھبتی کستے رھے۔ بھٹو کے لہو کا اتناخوف تھا کہ اس جھوٹ کو سچ کرنے کیلئے نظر بندی کے دوران ایک دفعہ محترمہ کو زبردستی ہسپتال لیجا کر انہیں بچہ دانی کا کینسر تشخیص کر لیا گیا اور بدمعاشیہ کے اہلکار زبردستی انکی بچہ دانی نکالنے کے درپے ہو گئے۔ وہ تو بی بی صاحبہ ڈٹ گئیں اور انکی بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا، خدا نخواستہ اگر وہ انکی باتوں میں آ جاتیں تو وہ اپنے بد ارادوں میں کامیاب ہو جانے تھے لیکن بی بی کی شادی بالخصوص بلاول کی پیدائش تک بانجھ پن کا یہ جھوٹ اپنے پورے وجود کیساتھ قائم دائم رہا آصف علی زرداری، جس نے اپنے دور کی سب سے خطرناک عورت سے شادی کی، مردِ اول بنتے ہی مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے سرفراز ہوئے، ملک کے گلی کوچوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہہ کر مطعون کیا جانے لگا، حالانکہ چیئرمین احتساب کمیشن سیف الرحمان اور اُسکے ہینڈلر نواز شریف زرداری صاحب سے معافی تلافی بھی کر چکے لیکن مسٹر ٹین پرسنٹ کا جھوٹ آجتک وہیں کھڑا ھے کیونکہ وہ جھوٹ نواز شریف کا گھڑا ہوا تو تھا نہیں وہ تو راولپنڈی کا کھڑا کیا ہوا تھا بینظیر وزیراعظم تھیں کہ انکا سگا بھائی اپنے گھر کے دروازے پر قتل کر دیا گیا۔ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اس قتل کے کُھرے فوجی چھاونی کیطرف جاتے ہیں۔ بی بی اسکے قاتلوں خلاف کاروائی کرتیں، اس سے پہلے ہی بدماشیہ کے ایک گماشتے نے انکا تختہ اُلٹ دیا اور آجدن تک میر مرتضٰی کا قاتل آصف زرداری ھے۔ اس سفید جھوٹ کو پھیلانے میں ممتاز بھٹو اور غنوی بھٹو جیسے حاسدین نے بھی بدمعاشیہ کا ساتھ دیا لیکن کچھ ثابت نہ کر سکے مگر آجدن تک پورے وصوق سے آصف علی زرداری کو مرتضی کا قاتل کہا جاتا ہے جھوٹوں کی تفصیل یہیں تک محدود ناں رہی، سر ناں جھکانے کے جرم میں بی بی صاحبہ کو قتل کرتے ہی جائے واردات پرویز مشرف کی بیوی کے کزن نے دھلوائی اور سارے ثبوت مٹا دیئے لیکن بجائے اسکے کہ قاتل ڈھونڈتے فوجی حکمرانوں نے قتل کا بینیفشری ڈھونڈنا شروع کر دیا اور انکے غلیظ پیروکاروں نے یہ الزام بھی محترمہ کے خاوند پر دھر دیا
اصل مدعا کوئی نہیں سُننا چاھتا کیونکہ اصل مدعا سُن کر اگر ضمیر نے انگڑائی لی تو نو نمبر سے فون آ جائے گا، گرفتاری ہو جائے گی، جھوٹا پولیس مقابلہ کر دیا جائے گا، بوڑھے ماں باپ پر بندوقیں تانی جائیں گی، شیعہ کافر، قادیانی کافر، توھینِ صحابہ، توھینِ رسول اگر کچھ نہیں تو قرآنی آیات کی توھین کے جرم میں نامعلوم ہجوم زندہ جلادے گا لہذا وغیرہ وغیرہ جیسے وسوسے پالنے سے بہتر ھے احتیاط کرو، سچ ناں بولو، بولنا بھی ھے تو سیدھا سیدھا ناں بولو ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جاؤ
پیپلز پارٹی کے قیام سے ہی اسکا ورکر ان پنڈی میڈ جھوٹوں کے جواب دینے میں الجھا دیا گیا۔ بجائے اسکے کہ وہ سوشل ازم کی بات کرتا، آئین کی بالادستی کی محافظت پر معمور ہوتا، عدم برداشت کا دشمن اور مساوات کا داعی بنتا، بھُٹو ازم کا پرچارک بنتا، اسکی توانائیاں یہ ثابت کرنے میں ضائع کروا دی گئیں کہ “بھُٹو صاحب شیواز ریگل پیتے تھے یا بلیک ڈاگ؟ وہ واحد جماعت جو بدماشیہ کو آڑھے ہاتھوں لیکر ایک قوم کی تعمیر کرنے کے قابل تھی، لچر لوگوں نے اُسے سقوطِ ڈھاکہ کے الزام کی تردید میں لگا کر اسکی زندگی ضائع کی تو کی، اس مُلک کا تابناک مُستقبل بھی گہنا دیا. وہ قوم جس نے ایک غیرتمند لیڈر سے روکھی سوکھی کھا کر ایٹم بم بنانے کا عہد کیا تھا اسے روس کیخلاف جنگ میں جھونک کر “دُورودی کی بجائے بارودی مسلمانیت کی داغ بیل ڈال دی گئی. پیپلز پارٹی تو سارے جھوٹوں کو جھیل کر بھی زندہ رہی لیکن بہتان تراش کبھی جونیجو کبھی نواز شریف، کبھی چوہدریوں تو کبھی عمران خان جیسی کٹھپُتلیوں کی آڑ میں آجتک فریب کا جال بُننے میں مصروف ھے. اللہ ہماری قوم پر رحم فرمائے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر