عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی مسلمان اشرافیہ کی مذہبی جذباتیت کے کیا کہنے یہ ایک طرف عثمانی خلافت کو "اصل خلافت” پہ قیاس کرکے بچانے کے لیے ہندوستان میں جذبات بھری تحریک چلارہے تھے اور برطانوی حکمرانوں کے خلاف کھڑے تھے اور دوسری طرف جب برطانیہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے عثمانی خلافت کے حصّے بخرے کردیے تو انہوں نے تحریک ہجرت و ترک موالات کی تحریکیں چلادیں-
ہمارے شاعر مشرق علامہ اقبال جو پہلے تو عثمانی ترک خلافت کے تحلیل ہونے پہ آنسو بہا رہے تھے اور پنجابی مسلمانوں کو خلافت کو بچانے کی تلقین کررہے تھے ،اپنی شاعری سے ان کا خون گرمارہے تھے لیکن جب برطانوی سامراج نے "حجاز” کو شریف مکّہ سے چھین کر "وہابیت” کے پیروکار ابن سعود کے سپرد کردیا اور اس نے جنت البقیع و جنت معلی میں صحابہ کرام ، امہات المومنین، اہل بیت اطہار ، تابعین و تبع تابعین کرام کے ہزاروں مزارات اور ان کی قبروں کو مسمار کردیا تو یہی ابن سعود اور اس کی حکومت خود خلافت کمیٹی کے کئی ایک ملاؤں کی طرح اقبال کے نزدیک عالم اسلام کا لیڈر قرار پاگیا۔
روزنامہ انقلاب لاہور کے مدیر عبدالمجید سالک نے اپنی سرگذشت اور اقبال پہ لکھی کتاب زکر اقبال میں علامہ اقبال کے خیالات کا زکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ابن سعود کے نجد کا حاکم ہوجانے کی حمایت کی، اسے روشن خیال حاکم قرار دیا۔
اس معاملے میں اس وقت لاہور کے اخبارات میں جن اخبارات کے ایڈیٹر وہابی تھے بشمول عبدالمجید سالک و مولانا ظفر علی خان اور مہر عبدالحق سب ابن سعود کے حامی ہوگئے۔ اور تو اور جمعیت علمائے ہند کے مولوی شبیر احمد عثمانی ، داؤد غزنوی صاحب ان سب مولوی حضرات نے ابن سعود کی بادشاہت کو جواز بخش دیا-
سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کل تک جس خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے والے اسی خلافت کے ٹکڑے کرنے میں برطانوی سامراج کا پٹھو ابن سعود ان مولویوں ے نزدیک اسلام کا خادم کیسے بن گیا تھا اور علامہ اقبال بھی اسی کے حامی کیسے ہوگئے تھے؟
ان ملاؤں نے کیسے اصول پہ کیسے فرقہ پرستانہ سوچ کو ترجیح دی اس کا احوال مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے بیٹے مولانا جمال میاں نے اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے لکھی ہے۔
اور تو اور عبدالمجید سالک نے مکّہ و مدینہ میں مقامات مقدسہ کے تحفظ کے مطالبات کو ہندوستان کے "بدعتی مولویوں ” کے مطالبات قرار دیے ڈالا اور اس کی وجہ ان کا قبروں کو سطح زمین سے اونچا اور قبروں پہ قبّے تعمیر کرنا قرار دیا اور یہی سالک علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کو عام قبرستان میں دفن کرنے کی بجائے بادشاہی مسجد کے ساتھ دفن کرنے اور بعد ازاں اس وقت کی پنجاب حکومت سے ان کے مزار کی تعمیر کے لیے فنڈز منظور کراتے ہیں اور یہی نہیں بعد ازاں ان کے پہلو میں یونینسٹ پارٹی کے صدر چودھری فضل حسین کی پختہ قبر بننے پہ اطمینان ظاہر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک خلافت میں شامل شامل وہابی اور دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے کئی ایک سرکردہ مولویوں کو مکّہ اور مدینہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، اہل بیت اطہار علیھم السلام بشمول والدہ ماجدہ سیدنا محمدرسول اللہ آمنہ سلام اللہ علیھا، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری، سیدۃ النساء فی الجنۃ فاطمہ بنت محمد سلام اللہ علیھا ، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، امام حسن علیہ السلام ، جعفر طیار و دیگر کی قبور اور مزارات کو مسمار کرنے کو عین توحید بتلایا اور اسے شرک و بدعت کے خاتمے سے تعبیر کیا۔ یہ کیسا تضاد تھا کہ جنھوں نے ایک عرصے تک ان مزارات کی تزئین و آرائش کی تھی ان کی حکومت کو یہ مسلمانوں کی نمائندہ خلافت کہہ کر اسے بحال رکھنے کی تحریک چلاتے رہے جبکہ ان کے نزدیک قبور کا زمین سے اونچا بنانا ، اسلام تاریخ کے آثار کی حفاظت کرنا اور مزارات بنانا ان کی حفاظت کرنا شرک و بدعت تھا تو کیا یہ شرک و بدعت میں مبتلا خلیفہ ترک عثمان کو بچانے کی تحریک چلارہے تھے؟
علامہ اقبال ایک طرف تو ملوکیت کے دشمن خود کو بتلاتے تھے لیکن دوسری جانب ابن سعود کے حجاز میں وہابی ملوکیت کے قیام کو انہوں نے تسلیم کرلیا اور اس کی حمایت بھی کی-
عجیب تضاد تھا ان خلافتی مولویوں کا کہ حجاز کا شریف مکّہ حسین ہاشمی تو فرنگیوں کا ایجنٹ قرار پایا اور اس کے بیٹوں کو جیسے میسوپوٹیمیا(عراق) اور اردن کی بادشاہت دی گئی تو اسے انھوں نے مسترد کردیا، اس کے بیٹوں کو غدار قرار دیا لیکن ابن سعود کا برطانوی سامراج کا ایجنٹ ہونا، غدار ہونا ان کو نظر نہ آیا نہ ان کی مدد سے حجاز کا بادشاہ بننا اور وہ عالم اسلام کا قائد ٹھہر گیا۔
ابن سعود نے دنیا بھر میں مولویوں کو رشوت دینے کے لیے ایک عالمی تنظیم بنائی جسے موتمر عالم اسلامی قرار دیا علامہ اقبال نے اس کی دوسری کانفرنس میں شرکت کی تھی جو فلسطین میں ہوئی تھی۔
اقبال مجموعہ تضادات تھے ایک طرف تو وہ تصوف کو فلسفہ عجم سے مستعار قرار دیتے دوسری طرف وہ میاں شیر محمد شرقپوری جیسے صوفیوں سے برکت لینے ان کی خانقاہوں میں پہنچ جایا کرتے تھے جیسا کہ ایک واقعہ سالک نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔
جس زمانے میں اقبال علامہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی اور ابن سعود کی فقہی بصیرت اور فہم اسلام کی تعریف اپنے خطبات مدارس میں سے ایک خطبے ميں چکے تھے اسی زمانے میں وہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جالندھر میں ایک بہت بڑے جلوس میں شریک ہوئے اور وہاں پہ خطاب بھی فرمایا-
مجھے خیال آتا ہے کہ اقبال اگر عید میلاد النبی کے جالندھر کے اس اجتماع میں ابن سعود کی طرف سے انہدام جنت البقیع و جنت معلی کو سنت رسول کی پابندی قرار دیتے اور علامہ ابن تیمیہ کے اس فتوے کا زکر فرماتے جس کے مطابق قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی نیت سے سفر مدینہ کرنا بدعت ہے اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زات بابرکات کے توسل سے دعا کرنا شرک اور منافی توحید کا زکر کرتے تو کیا ہوتا؟ یہ سوچ کر ہی جسم پہ جھرجھری طاری ہوجاتی ہے۔
علامہ اقبال کو لگتا تھا کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں مسلمان علاقوں کا اقوام مغرب کی نوآبادیات بن جانے میں ایک بڑا کردار حافظ شیرازی ، شیخ ابن عربی سمیت ان صوفی شاعروں اور حکیموں کی تعلیمات تھیں وہ ساری عمر ان کی شاعری اور خیالات کو رد کرتے آئے تھے ۔ شیخ احمد سرہندی جیسے صوفی باصفا سے انھوں نے ایسے خیالات منسوب کرڈالے جو شیخ احمد سرہندی کا کبھی مقصود نہیں رہے تھے ( ایک کتاب شیخ احمد سرہندی پہ میں نے مرتب کی ہے جو نوآبادیاتی دور میں شیخ احمد سرہندی کے بارے میں بنائے گئے خیالات کا تنقیدی جائزہ لیتی ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے علامہ اقبال پنجاب میں سرکاری نوکریوں کو میرٹ کی بجائے کمیونل کوٹہ پہ پر کرنے کے حامی رہے ، آج جب سرائیکی خطے کے باسی یہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں سرائیکی خطے کا آبادی اور پسماندگی کو مدنظر رکھ کر نوکریوں کا کوٹا مقرر کیا جائے تو بالائی پنجاب کی اشرافیہ اسے میرٹ، محنت کا خون قرار دیتی ہے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ جب ہندؤ اور سکھ کمیونٹی کا برطانوی نوآبادیاتی دور میں پنجاب میں ملازمتوں میں تناسب زیادہ تھا تو اقبال نے پنجابی مسلمانوں کا ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کرنے ک پالیسی کی حمایت کی جسے لاگو کیا گیا تو اب پاکستان میں جب شمالی پنجاب والوں کا ملازمتوں تناسب پنجاب مں زیادہ ہے تو سرائیکی اضلاع کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ ان کی آبادی اور پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی ملازمتوں میں ان کا کوٹہ مقرر کیا جائے بلکہ پنجاب وفاقی ملازمتوں میں جو کوٹہ ہے اس کوٹے کی تقسیم بھی اسی بنیاد پہ آگے ہونی چاہئیے تاکہ پنجاب کے سب ریجن نوکریوں کے معاملے میں ایک دوسرے کے برابر آجائیں ، یہی اصول تعلیمی اداروں میں داخلوں پہ بھی لاگو ہون چاہئيے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اقبال پرست یا چودھری فضل حسین پرست پنجابی اشرافیہ کو نہ تو اقبال یاد آتا ہے نہ چودھری فضل حسین یہ اس معاملے میں وہی پوزیشن اختیار کرتے ہیں جو پنجابی ہندؤ و سکھ تنخواہ دار طبقہ اور پنجابی ہندؤ تعلیم یافتہ اربن مڈل کلاس کی اکثریت کا موقف ہوا کرتا تھا۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر