طیب بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے لیکن حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور یہ پاکستان کی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں انصاف گاہ میں انصاف کو قتل ہوتے دیکھا۔ انصاف دینے والے منصفوں کو انصاف کا قاتل پایا۔ سنہری پٹی والے کالے جبے پہنے منصف آپ کو قرآن و احادیث کی تاویلیں دیتے ملتے ہیں لیکن ان میں اس پر عمل پیرا ہونے والے شاذونادر ہی ملتے ہیں ۔ ہنستے مسکراتے اور دنیا کی عیش عشرت میں لت پت منصفوں کے دل بھی جبے کی طرح کالے اور سنہری پٹی کی طرح ذر کے طلبگار پائے گئے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں متعدد ایسے فیصلے بھی ملتے ہیں جن میں خود منصفوں نے انصاف کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹا۔ پاکستان ایویں نہیں، انصاف کی عدم فراہمی میں صف اول کے ممالک میں شامل ہوا۔ اس میں ہمارے ججز نے خود انصاف کے مقتل میں انصاف کی بلی چڑھا کر یہ مقام حاصل کیا۔ کچھ مجبور ہوتے ہیں، کچھ کو مجبور کیا جاتا ہے اور کچھ دنیاوی لالچ کے اسیر ہوکر انصاف کو ہی اسیر بنالیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ہی ایک دبنگ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران بھری عدالت میں کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ سننے والے ججز کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر ان کے عدالتی قتل کا فیصلہ لیاگیا جبکہ بھٹو شہید کے عدالتی قتل میں ملوث جسٹس نسیم حسن شاہ کی بدبودار عدالتی بقایات کالا سنہری پٹی والا جبہ اور قلم وغیرہ کو سپریم کورٹ کے میوزیم میں بڑی شان سے سجا کے رکھا گیا ہے انہوں نے خود ایک ٹی وی مناظرے پر تسلیم کیا کہ بھٹو کا عدالتی قتل ججز نے اپنی نوکریاں بچانے کے لیے کیا۔ جو سپریم کورٹ انصاف کے قاتل منصفوں کو رول ماڈل سمجھے وہاں انصاف کی قتل کی ریت ہمشیہ زندہ ہی رہتی ہے۔
شاید تبھی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے لیے انصاف کی طلبگاری کے دوران منصفوں کے مردہ ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کہا تھا کہ جج کے لیے غلط فیصلہ دینے کی بجائے موت بہتر ہے۔ قاضی نے تو سچ کہہ دیا لیکن دانہ چگنے والے اپنی فطرت سے باز نہیں آسکتے۔ خیر پاکستان کا نظام ہی ایسا ہی ہے ہر کسی نے اپنی بغل میں اپنا مرغا چھپارکھا ہے یعنی ہر کوئی اپنے شخصی مفاد کو قومی یاداراجاتی مفاد سے عزیزتر رکھتا ہے تبھی تو اس ملک کی یہ حالت ہے کہ ریاست خود اپنے شہریوں کے حقوق پر ڈکیٹ بنی بیٹھی ہے۔ یہاں چوکیدار مالکوں کے گھر پہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور مالک ہیں کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ریاستی اداروں کی جونکوں کو اپنا خون پلارہے ہیں۔
خیر واپس آتے ہیں جسٹس قاضی کے مقدمے پر۔ جسٹس قاضی کے خلاف اتنا پراپیگنڈہ ہوا کہ ان کی نڈر، حق گو شخصیت اس میں کہیں گم ہوکر رہ گئی۔ سپریم کورٹ میں تو یوں سولہ ججز ہیں ویسے سترا ہوتے ہیں لیکن ججز کی اپنی لڑائی اور مفادات کے ٹکراو کی وجہ سے ایک خالی نشست پرا بھی تعیناتی نہیں ہوئی۔ جج تو سارے ہیں لیکن ان میں قاضی صرف ایک ہی ہے وہ ہے جسٹس قاضی فائز عیسی۔ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ اسم بامسمی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کے بانی پاکستان قائد اعظم کے قریبی ساتھی یا یوں کہیں کہ قائد اعظم کی اس وقت کی اے ٹی ایم مشین فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ تھے۔ ریاست قلات کا جب قائد اعظم انگریزسرکار کے خلاف مقدمہ لڑرہے تھے تو یہ کی معاونت کرتے تھے۔ قائداعظم کو بمبئی سے کراچی منتقل کرنے میں ان کا بہت کردار تھا اورکراچی میں نواب آف بہاولپور کے محل کے قریب خان آف قلات کے محل میں قائد کو ٹھہرایا گیا اور پھر قائد کو اپنے گھر کے لیے جگہ بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد نے کراچی میں خان آف قلات کی ملکیتی زمین دی۔
آج کی نسل اس حقیقت سے بھی نابلد ہے کہ بلوچستان میں قائداعظم کو سونے میں جب تولاگیا تو اس میں قاضی فائز کے والد کا کلیدی کردار تھا۔ وہی سونا کوئٹہ سے کراچی ریل کے زریعے انہی کی مدعیت میں پہنچا اور پھر وہاں سے برطانیہ گیا جہاں سے پھر پاکستان کی کرنسی جاری ہوئی۔ اس سے بھی بڑھ کے پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے الحاق میں بھی وہ نمایاں تھے بطور ریاست قلات کے قاضی القضاہ کی حثیت سے انہوں نے قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا تاریخی فیصلہ بھی دیا تبھی تو قائد اعظم نے انہیں محسن پاکستان قرار دیا۔ اب ایسی مہان شخصیت کا بیٹا وطن عزیز میں ہونے والی ناانصافیوں پر کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ یہی ان کا سب سے بڑا جرم بنا بلکہ ویسے جیسے بانی پاکستان کی بہن مجرم ٹھہری ۔ اسی طرح قاضی فائزعیسی کی اہلیہ سریناعسی بھی بلوچستان کے کھوسو سردار کی بیٹی ہے جو اکسفورڈ سے اپنی ہسپانوی شاہی بیوی کے ساتھ بلوچستان میں اپنے پسماندہ لوگوں کی فلاح لیکر آیاتھا۔
قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی اذیت اور کرب قریب سے محسوس کیا۔ سپریم کورٹ ہو یا ایف بی آر کے چکر ایسی محب وطن شخصیات کو خوار ہوتے دیکھا۔ پاکستان کا درد رکھنے والی شخصیات کے ساتھ پاکستان میں ہمشیہ سے ایسا ہی ہوتا آیا۔ تبھی توشاید وہ اس ملک کے دردودرماں کے لیے دوران دلائل فرط جزبات میں بہ جاتے تھے۔ ہمارے ناسمجھ لوگ جو ان کا درد سمجھنے کا ادراک ہی نہیں رکھتے وہ ان کو ایک جذباتی جج کہنا شروع ہوگئے۔ انصاف کو انصاف گاہ میں منصفوں کے ہاتھوں قتل سے بچانا واقعی جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
اس ملک کی بدبختی کہ ایک دندان ساز صدر بن بیٹھااور کرکٹ کا ایک جورای انصاف کے قاتلوں سے صادق و امین کا جھوٹاسرٹفکیٹ لیکراس ملک کا وزیراعظم لگ بیٹھا۔ جب ملک ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوگا تو وہاں قاضی فائزعیسی جیسے اعلی پائے کی منصف ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ تبھی تو عارف علوی اور شہزاد اکبر جیسے معاشرتی گند نے ساری زندگی بھارتی ایجنٹوں کے مقدمات لڑنے والے وکیل فاروغ نسیم کے ساتھ مل کر قاضی فائز کے خلاف بدنیتی پرمبنی ریفرنس بنایا۔ وجہ جسٹس قاضی کا فیض آباد دھرناکیس بنا جس میں انہوں نے ایک مثالی فیصلہ دیتے ہوئے چوکیداروں کی جانب سے اپنے حلف کی خلاف ورزی پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف اور ایم کیوایم کی دھرنا اور جلاو گھیراو والی سیاست کی قلعی کھولی تھی۔
خیر ان سے کیا گلہ، شکوہ توکالے جبے پہننے والے منصفوں سے ہے جو اپنے ساتھی جج کے خلاف مجبورا یا پھر ذاتی مفاد کی وجہ سے متعصب ہوگئے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عسی کا وہ واحد کیس ہے جس میں خود سپریم کورٹ اپنے جج کے خلاف شکایت کنندہ بن گئی اور ایف بی آر جو عمران خان کی بہن علیمہ باجی کو سلائی مشننیوں سے اربوں بنانے پر کھلی چھوٹ دی اسے متحرک کرکے ایک معزز خاتون سرینا عیسیٰ کو اسکے بار بار چکر لگوائے۔ سپریم کورٹ کے دس ججز نے صدر عارف علوی کے ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا لیکن حیرت ہے کہ ان میں سے سات ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھی بھیج دیا۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کرکے سپریم کورٹ میں اس غیرقانونی اور آئین سے ماورا فیصلے کو تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی۔
ایک دفعہ پھر قاضی کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع ہوا تاہم ہمت ہے قاضی کو انہوں نے برداشت کیا اور سپریم کورٹ میں جج کی بجائے خود وکیل بن کر اپنے مقدمے کی پیروی شروع کی۔ ججز کا مائنڈ سیٹ واضح ہونا شروع ہوا اور تعصب ججز کے دلوں سے نکل کر الفاظ کی صورت میں سب کے سامنے عیاں ہونا شروع ہوگیا۔ قاضی نے بھی ڈٹ کر مقابلے کا تہیہ کیا ہواتھا۔ جسٹس عمر عطابندیال اس دس رکنی بنچ کی بھی سربراہی کررہے تھے تاہم بنچ میں شامل ایک اور سنیر جج جسٹس مقبول باقر نے جب بھانب لیا کہ اس انصاف گاہ میں قاضی اور انصاف کی بلی دی جائے گی تو وہ آگے بڑھے ان کے سامنے مقدمہ اب قاضی کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے اپنے وقار اور انصاف کی بالادستی کا تھا۔
ایک جونیر جج کی جانب سے جب جسٹس مقبول باقر کی تضحیک کی کوشش ہوئی تو وہ بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال سے نالاں ہوکر یہ کہتے ہوئے بنچ سے اٹھے کہ بہت ہوگیااگر ایسے ہی عدالت چلانی ہے تو پھر ہماری معذرت۔ خیر جسٹس عمر عطانے سماعت میں فوری وقفہ کرتے ہوئے صورتحال کو سنبھال لیا اورسماعت کچھ دیر بعد پھر شروع ہوئی لیکن اس دن کے بعد جسٹس مقبول باقر انصاف کا ادراک رکھنے والے ججز کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور واضح ہوگیا کہ اب قاضی کے خلاف اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی۔ اب ہوا بھی ویسے سپریم کورٹ کے دس میں سے چھے ججزنے جسٹس مقبول باقر کا ساتھ دیا، یوں جسٹس قاضی کو انصاف ملا اور سپریم کورٹ کا مان بلند ہوا۔
لیکن محسن پاکستان کے بیٹے کا مقدمہ بہت سارے سوالات چھوڑگیا۔ قاضی محمد عیسی کی بہو اور رئیس بلوچ سردار کی بیٹی جس کو وراثت میں ہزاروں ایکڑ اراضی ملی اور ہسپانوی شاہی ماں کے ترکے سے سپین میں جائیداداسکے نام ہوئی وہ جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس منیب اختر کے لیے سوال چھوڑ گئی جس کی بازگشت سپریم کورٹ کی پرپیچ راہداریوں میں گونجتی رہے گی کہ قاضی خاندان کی جائیدادیں سب کے سامنے ہیں کیا جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس منیب اختر میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ اپنے خاندان کے اثاثے ظاہر کریں؟
سپریم کورٹ میں بلوچستان سے واحد جج جسٹس قاضی فائز عیسی ہیں اگر ان کوہٹایا جاتا تو شاید ہی بیس ہزار تیس تک یا پھر اس کے بعد بھی کوئی بلوچستان سے جج سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن سکے۔سپریم کورٹ میں ویسے ہی پسماندہ بلوچستان کی نمائیندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور قاضی بھی چلے جاتے تو پھر بلوچستان پاکستان کی سپریم کورٹ میں نمائیدگی سے مکمل محروم ہوجاتا۔ قاضی فائزعیسی کی جیت جمہوریت پسندی، عدلیہ آزادی اور آزادی صحافت کی بھی جیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر