اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان میں قلم کا جنازہ||عزیز سنگھور

عبدالواحد شہید کا واقعہ ایک طویل تسلسل ہے۔ ماضی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ نہ صرف قتل کے واقعات رونما ہوتے رہےہیں بلکہ بعض اخبارات کو اپنی اشاعت بند کرنا پڑی

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کا قتل کا سلسلہ رک نہ سکا۔ انہیں بھرے بازار میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ سرِعام قتل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کے قتل کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اور مزید ہورہے ہیں۔
بلوچستان صحافیوں کے لیے پاکستان کے خطرناک ترین صوبوں میں سے ایک سمجھا جاتاہے۔ صوبے میں صحافیوں کو ‘قتل، تشدد، دھمکیوں، اغوا اور حملوں کے واقعات کا سامنا ہے۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف حکومت کے دور سے جاری ہے۔گزشتہ روز کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے روزنامہ ”آزادی“ کے رپورٹر و سب ایڈیٹر عبدالواحد رئیسانی شہید ہوئے۔ پولیس کے مطابق فائرنگ کے بعد مسلح افراد موقع سے فرار ہوگئے۔ شہیدعبدالواحد رئیسانی انتہائی قابل اور باصلاحیت نوجوان تھے۔ بہت کم عرصے میں خبرکی اہمیت وافادیت پرعبور حاصل کرچکے تھے، آزادی ویب نیوز میں بروقت قارئین تک خبریں جبکہ ناظرین تک ویڈیوز پہنچانا اس کی مہارت تھی، 24 سالہ عبدالواحد مستقبل میں ایک بہترین صحافی بن کر سامنے آتے نہ جانے یہ کون سے نامعلوم درندے تھے کہ جنہوں نے چار گولیاں فائرکیں،جن میں سے ایک گولی پیارے دوست کی زندگی نگل گیا۔ شہید عبدالواحد کے قتل پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کوئٹہ پریس کلب اور کراچی پریس کلب نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قتل میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو سمیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے اس قتل کو صحافت پر حملہ قراردیا۔
عبدالواحد شہید کا واقعہ ایک طویل تسلسل ہے۔ ماضی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ نہ صرف قتل کے واقعات رونما ہوتے رہےہیں بلکہ بعض اخبارات کو اپنی اشاعت بند کرنا پڑی۔ اوربعض پریس کلبزکو تالے لگ گئے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں کوئٹہ سے شائع ہونے والے روزنامہ آزادی اور ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے دفاتر کو جانے والے راستے پر بند کردیئے گئے۔ جو ہر آنے جانے والے کی شناخت معلوم کرنے کے علاوہ ان کی جامہ تلاشی لیتے تھے۔ اس گھیراؤ کے خلاف روزنامہ آزادی اور ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے بانی صدیق بلوچ نے وفاقی اور صوبائی حکام سے بات کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ تاہم یہ سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا۔
سریاب روڈ پر ہی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کے دفتر سے چند فرلانگ پر ایک اور اردو اخبار روزنامہ ”آساپ “ کا دفتر واقع تھا۔ ان کا بھی گھیراؤکیاگیا تھا۔جس کی وجہ سے اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ روزنامہ آساپ کےبانی میرجان محمد دشتی کو گولیاں ماری گئیں۔ جس میں وہ اور ان کے ڈرائیور شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد روزنامہ آساپ نے اپنی اشاعت بند کردی اور آج تک بند ہے۔
یہ سلسلہ یہاں پرختم نہیں ہوا۔ روزنامہ ”توار“ اخبار کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی گئی ’توار‘ جو ایک بلوچی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی آواز کے ہیں۔ یہ اخبار اردو زبان میں شائع ہوتا تھا۔ اخبار اس وقت بند ہوگیا جب ان کے نیوز ایڈیٹر عبدالرزاق سربازی کی مسخ شدہ لاش مل گئی۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان سے شائع ہونے والے روزنامہ ”انتخاب“ سمیت روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے سرکاری اشتہارات بھی بند کردیئے گئے۔ مشرف حکومت نے بلوچستان سے نکلنے والے اخبارات کے خلاف ناقابلِ بیان اقدامات اٹھائے۔ جس کی وجہ سے دو اخبارات بند ہوگئے۔
روزنامہ انتخاب کے بانی انور ساجدی اور روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے بانی صدیق بلوچ کو مختلف بہانوں سے تنگ کیا گیا۔ انہیں عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ اخبارات پر سخت پاپندیاں لگادی گئیں۔
بلوچستان میں دانشور، ادیب، اساتذہ اورشاعروں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ جون 2011 کو بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور ممتاز بلوچ دانشورصبا دشتیاری کواس وقت نامعلوم مسلح افراد نے سریاب روڈ پر سنجرانی اسٹریٹ کے قریب گولی مارکرشہید کیا جب وہ حسب روایت وہاں سے پیدل گزر رہے تھے۔ صباد دشتیاری زمانہ طالب علمی سے بلوچی ادب کو فروغ دینے میں مصروف عمل رہے۔ وہ ملازمت شروع کرنے کے بعد نہ صرف وہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو بلوچی ادب کی تعلیم دیتے تھے بلکہ اپنی تنخواہ سے کراچی میں ظہورشاہ ہاشمی کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی۔ صبا کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل کے دوران وہ حاجی عبد اللہ ہارون اسکول میں بطور استاد بھی کام کرتے رہیے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صبا بلوچستان یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام سرانجام دیتے رہے۔ صبا 20 کے قریب کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ بلوچی کے ساتھ اردو، فارسی اور عربی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ وہ شاعری بھی کیا کرتے اور مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے ۔
ایک بلوچ استاد زاہد آسکانی کو اس وقت شہید کیاگیا، جب وہ بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں اپنی گاڑی میں گھر سے اسکول کی جانب سفر کررہے تھے۔ اسکول کے قریب پہنچتے ہی اس پر فائر کھول دیا گیا۔انکے جسم میں سات گولیاں پیوست ہوگئیں اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔ زاہد آسکانی کا بنیادی تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور سے تھا۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس بلوچستان آئے اور بلوچ نوجوانوں میں معیاری تعلیم کو عام کرنے کے غرض سے انہوں نے اویسس پرائمری اسکول سسٹم ‘‘ کی بنیاد رکھی ، وہ نہ صرف اس اسکول کے بانی تھے بلکہ وہ ساتھ ساتھ ایک استاد اور ہیڈ ماسٹر کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے ۔ انکا مشن بلوچ نسل کو معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا ، وہ جلد ہی اپنے اس مشن میں کامیاب ہوئے اور معیاری تعلیم مہیا کرنے والے اسکول سسٹم ’’ اویسس‘‘ کو عام کرنے اور معروفیت دلوانے میں کامیاب ہوئے ۔ زاہد آسکانی بلوچ کی شہادت نہ صرف ’’ اویسس‘‘ کیلئے ایک جھٹکا ثابت ہوا بلکہ پورے مکران کے عوام کیلئے ایک نا قابلِ تلافی نقصان ثابت ہوا ۔
بلوچستان کے علاقے خضدار میں بھی ایک بلوچ استاد رزاق بلوچ کو اس لئے شہید کیا گیا تھا کہ وہ جھالاوان اکیڈمی کے نام سے خضدار میں جدید، روشن خیال اور مخلوط تعلیم نظام کو عام کررہے تھے ۔ اسی طرح ماسٹرعلی جان ، ماسٹر سفیر، ماسٹرنذیر اور ماسٹرحامد سمیت کئی بلوچ اساتذہ کو شہید اور درجنوں اسی بنیاد پر لاپتہ کردیئے گئے۔ ان اساتذہ نے بلوچستان میں تعلیمی سہولیات کی محرومی کے خلاف آواز اور مثبت اقدامات اٹھائے۔ کیونکہ بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں جن میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔
صحافتی تنظیموں نے بلوچستان میں آزادی صحافت کی صورتحال کو انتہائی مخدوش اور غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے اسے جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔ بلوچستان میں میڈیا کے خلاف عدم برداشت پر مبنی رویہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ اخبارات شدید دباؤ اور مشکلات کا شکار ہیں۔ اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ صحافتی تنظمیوں کا روز اول سے یہ مطالبہ ہے کہ ملک کے آئین میں دیئے گئے آزادی صحافت، آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی جیسے بنیادی حقوق کی ضمانتوں کا احترام کیا جائے۔ ایسے مناسب و موافق اقدامات کئے جائیں جو آزادی صحافت کو حقیقی معنوں میں مضبوط اور مستحکم بنا کر عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی تکمیل کی جانب گامزن کر سکے۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: