نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافت میں معروضیت اور موضوعیت||عامر حسینی

کیا اُس نے کسی تحریر میں یا تقریر میں یہ بتایا ہے کہ اُس نے 88ء اور پھر 90ء اور اُس کے بعد 97ء میں جو کیا اس کو ہدایات کہاں سے ملا کرتی تھیں؟

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامی جمہوری اتحاد کی الیکشن کمپئن کا انچارج اسٹبلشمنٹ نے حسین حقانی کو بنایا تھا اور اُس نے ہی پی پی پی اور اس کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا کا خاکہ اور بنیادی اسکرپٹ تیار کیا تھا………. اور اُسے اُس زمانے میں صدر اسحاق خان، چیف آف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گُل کی مکمل سرپرستی، حمایت اور مدد حاصل تھی – حسین حقانی آئی جے آئی کے الیکشن پبلسٹی سیل میں قریب قریب ہر بڑے اخباری گروپ سے صحافیوں کو لیکر آیا جو آگے چل کر ہماری پرنٹ صحافت کے نام نہاد چمکتے ستارے بنے اور ان میں سے کئی ایک آج الیکٹرانک میڈیا کے نام نہاد سپر اسٹار ہیں – حسین حقانی ہو یا نجم سیٹھی ان جیسے صحافیوں کا سفر "رجعت پرستی سے روشن خیالی” کی طرف نہیں ہوا بلکہ انہوں نے مقامی اسٹبلشمنٹ کی ایجنٹی سے عالمی اسٹبلشمنٹ کی ایجنٹی تک کا سفر طے کیا ہے – یہ سویلین سپرمیسی کے نہیں بلکہ سویلین سپرمیسی کے نام پہ کسی طاقتور اشراف کی سپرمیسی کی جنگ لڑرہے ہیں –
کیا آپ نے حسین حقانی کو کبھی اپنے ماضی کے کردار معافی مانگتے دیکھا ہے؟
آج تک حسین حقانی نے اپنی زبانی 90ء کی دہائی میں اپنے کردار پہ کبھی لَب کُشائی کی ہے؟
کیا اُس نے کسی تحریر میں یا تقریر میں یہ بتایا ہے کہ اُس نے 88ء اور پھر 90ء اور اُس کے بعد 97ء میں جو کیا اس کو ہدایات کہاں سے ملا کرتی تھیں؟
نواز شریف کا کردار کیا تھا؟ جسے وہ آج ملاں، مسجد اور آرمی کا گٹھ جوڑ کہتا ہے وہ جب خود اس کا حصہ تھا تو اس نے کیا کیا، کیا اپنے کردار پہ قوم سے معافی مانگی؟
نجم سیٹھی سے لیکر حسین حقانی تک اور اس سے آگے طلعت حسین سے لیکر حامد میر تک اور اُس سے آگے کئی ایک یہ سب کے سب بھٹو کی ایوب شاہی کے زمانے سے لیکر بعد تک کئی ایک جھوٹے قصوں کی گردان کرتے پائے جاتے ہیں لیکن انھیں ماضی قریب میں اور حال میں اپنے محبوب و ممدوح نواز لیگ اور اُس کے قائد کے یو ٹرن اور چیف آف آرمی اسٹاف و ڈی جی آئی ایس آئی، چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مل کر اپنی کرسی پکی کرنے جیسے اعمال پہ کچھ نہیں بولتے –
حسین حقانی کا نیٹ ورک ہو یا نجم سیٹھی کا نیٹ ورک ہو، ڈان میڈیا گروپ ہو یا جیو-جنگ گروپ ہو ان سب کو نواز لیگ کے ساتھ مل جانے والے ملاں، عسکریت پسند، کالعدم تنظیموں کے سربراہ، عدالتوں کے جج صاحبان، وردی بے وردی افسر جمہوریت اور لبرل اور سیکولر سوچ کے دشمن نہیں لگتے نہ یہ ان کے نشانے پہ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جرنیل جج اور ملاں اگر نواز شریف کو 2013ء میں اقتدار میں لیکر آئیں تو یہ سویلین سپرمیسی کے اصول کو پامال ہوتا نہ تو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اسے ڈیل کہتے ہیں – لیکن اگر جرنیل، جج، ملاں مل کر عمران خان کو لیکر آئیں اور جو میڈیا گروپ اس عمل میں اُن کا ساتھ دیں اور مراعات لیں وہ اسٹبلشمنٹ کے حامی، جمہوریت دشمن کہلائیں
صابر شاکر، عامر متین، عارف حمید بھٹی، ارشاد بھٹی، وسیم بادامی جیسے اینکر عمران خان کی سلیکشن کا دفاع کریں تو جمہوریت دشمن ٹھہرجاتے ہیں لیکن نواز شریف اور شہباز شریف کی سلیکشن کا ایشو ان کے ہاں کبھی موضوع نہیں بنتا-
صحافت میں معروضیت اور موضوعیت دونوں کا کمرشل لبرل نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ہمیں اتنا نقصان پہنچا ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی زاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author