دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب کوئی مذہبی انتہا پسند جماعت راستے بلاک کردے||عامر حسینی

یہاں جمہوریت کو طاقتور بنانے کا جو اتحاد ہے اُس کا صدر ایک ایسا ملاں ہے جو پشتون حقوق کی تحریک پی ٹی ایم کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور ٹی ایل پی کی حمایت کرتا ہے -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس مسئلے کے گرد تحریک لبیک نے اپنا احتجاج شروع کیا، وہ مسئلہ ایسا ہے کہ دائیں بازو کی مذھبی سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں تو ایک طرف سنٹر رائٹ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کا رائٹ ونگ سیکشن تاجر تنظیمیں، طلباء تنظیمیں، وکلاء تنظیمیں، پروفیشنل باڈیز کے رائٹ ونگ رجحانات رکھنے والے بھی اس سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتے، حکومت نے جوابی تشدد کرکے، لاشیں گراکر تحریک لبیک سے فاصلے پہ کھڑے اس تنظیم کے مسلک کی مساجد و مدارس اور مذھبی ہمدردی رکھنے والوں کو اپنا فاصلہ ختم کرنے پہ مجبور کردیا ہے – اس نے دوسرے مسالک کی مذھبی سیاسی و غیرسیاسی مذھبی جماعتوں اور اُن کی قیادت پہ بھی زبردست دباؤ بڑھادیا ہے-

آج اور کل تنظیمات المدراس پاکستان، وفاق المدراس پاکستان، جماعت اہلسُنت پاکستان، جے یو پی، جے یو آئی ایف، جماعت اسلامی پاکستان اور یہاں تک کہ کالعدم، تحریک اسلامی ( تحریک جعفریہ) اور کالعدم اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ وغیرہ نے اپنی تنظیموں کے اجلاس طلب کیے ہیں…… مجھے مستقبل میں دائیں بازو کے مختلف
مسالک کے زیادہ ریڈکل حصے ایک اتحاد کی شکل میں اکھٹے ہوتے نظر آتے ہیں اور یہ مُلک کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں
جب کوئی مذھبی انتہا پسند جماعت راستے بلاک کردے، شہریوں پہ تشدد کرنے لگ جائے، ایمبولینس گزرنے نہ دے وغیرہ وغیرہ اور وہ مذھبی فسطائیت کا روپ دھار لے تو ترقی پسند سیاست کرنے والوں کا رویہ اور موقف کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ ریاست اور اُس کے سیکورٹی اداروں سے یہ درخواست کریں کہ وہ مذھبی انتہاپسندوں پہ سیدھے فائر کھول دیں؟ اور مظاہرین پہ اندھا دھند ہلاکت انگیز تشدد کریں؟ کیا اعتدال پسند مذھب پرستوں کا یہ وتیرہ ٹھیک ہے کہ وہ پولیس کے کمانڈر کی ایک ویڈیو شیئر کرے جس میں وہ بے پناہ فائرنگ کے بعد سڑک سے گزرتا ہوا پولیس اہلکاروں کو "یاعلی مدد” کہہ کر اُن کو ہلہ شیری دیتے ہوئے گزر رہا ہو؟
جو لوگ خود کو مارکس وادی کہتے ہیں جن کا سرمایہ دارانہ ریاست بارے موقف ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ غالب حکمران طبقات کی جانب سے مظلوموں اور محنت کش طبقات پہ جبر کرنے والا ادارہ ہے اور اُس کو ورکرز سٹیٹ سے بدلنا ضروری ہے وہ جب ریاست کی رِٹ کی بحالی کے نام پہ ریاست کے طاقت کے استعمال کی اور لوگوں کو جان سے مار دینے کے عمل کی حمایت کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے؟
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے دعوے دار جن میں جود کو سنٹر لیفٹ کہنے والے بھی شامل ہیں اور پھر خود کو ترقی پسند ڈیموکریٹ کہنے والے جو ہیں انھوں نے پاکستان میں مذھبی انتہاپسند جنونیت کے ابھار اور دائیں بازو کی طرف سے اُس کی مسلسل حمایت کے خلاف آج تک کون سا عوامی فرنٹ بنایا ہے؟ وہ ہمیشہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں کمرشل لبرل ٹولے کی لائن فالو کرتے ہوئے حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ ریاست کی مشینری کے جوابی یا پیش اقدامی تشدد کی طرف دیکھتے ہیں اور زمین پہ مذھبی جنونیت کے خلاف کوئی عملی مزاحمت اور کسی فرنٹ کی تشکیل نہیں دے پاتے –
پاکستان کی ترقی پسند سنٹر لیفٹ یا لبرل سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی یورپ اور دیگر ممالک میں نسل پرست، فسطائی تنظیموں کے جلسے، جلوس، سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے میں ترقی پسند جمہوری لیفٹ سرگرمیوں اور اُن کے مقابلے میں احتجاج منظم کرنے جیسے اقدامات کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن جب کبھی مذھبی جنونی، فرقہ پرست سڑک پہ آتے ہیں تو ان کی طرف سے ایکتوازم سوشل میڈیا پہ ریاستی فاشزم کو آواز دینے میں لگا ہوتا ہے –
پڑوسی ملک بھارت میں مذھبی فاشزم کے خلاف ترقی پسند قوتیں میدان میں ہیں وہ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے خلاف بی جے پی، آر ایس ایس، وی ایچ پی کو ہی نہیں بلکہ اُن کے مقابلے میں اسلامی فاشسٹوں کے خلاف بھی ہر سطح پہ برسرپیکار ہیں، تعلیمی ادارے ہوں، بازار ہوں، میدان ہوں وہ اپنی قوت جمع کرتے ہیں اور فسطائی قوتوں کو عوامی سیاست اور فرنٹ سے جواب دیتے ہیں لیکن یہاں کے ترقی پسندوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے –
یہاں جمہوریت کو طاقتور بنانے کا جو اتحاد ہے اُس کا صدر ایک ایسا ملاں ہے جو پشتون حقوق کی تحریک پی ٹی ایم کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور ٹی ایل پی کی حمایت کرتا ہے – اس میں مسلم لیگ نواز ہے جو سابق گورنر سلمان تاثیر کے خلاف توھین کارڈ استعمال کرتی رہی ہے اور اب بھی اس میں مذھبی جنون پرستوں کی کمی نہیں ہے، سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اے پی ڈی ایم میں میر غوث بخش بزنجو کے شاگردوں سے بھری نیشنل پارٹی، مینگل کی پارٹی، عبدالصمد خان اچکزئی کی پارٹی کیا کررہی ہیں؟ وہ قومیتی، سیاسی و انسانی حقوق کی بازیابی کی عدم تشدد پہ مبنی تحریکوں کو دہشت گرد کہنے والے ملاں کے پیچھے کیسے بیٹھی ہیں؟ دوسری طرف یہ سوال خدمت خلق موومنٹ، اسٹوڈنٹس کلیکٹو، عوامی ورکرز پارٹی اور ان جیسی دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں سے بھی بنتا ہے کہ لاہور میں، کراچی سمیت جہاں کہیں بھی فسطائیت میدان میں نکلتی ہے، اُس میدان میں آپ کون سے کونوں کھدروں میں بیٹھے رہتے ہیں؟ اور سوشل میڈیا پہ بس ریاست کو جبر اور جوابی فاشزم کے مطالبے کرنے والے کمرشل لبرل مافیا کی پیروی کیوں کرنے لگ جاتے ہیں؟ خود احتسابی کی بجائے سارا الزام دوسروں کو دیے جانے سے کام نہیں چلتا – فسطائیت کے مقابل ترقی پسند عوامی فرنٹ کی تعمیر کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں –
پنجاب کے دل لاہور سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند اشراف کا حال تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک عرصے سے اپنا ذہن اور اپنی زبان اور اپنا قلم جعلی چے گیورا کے پاس گروی رکھ رکھا ہے یہ دامے درمے سخنے اُس چے گیورا کی سلطنت بحال کرانے میں لگے ہوئے ہیں اور ان میں افتخار احمد سمیت اتنے بے شرم بھی ہیں جو اس چے گیورا کے ساتھ اکٹھی پتنگیں اڑانے، کرکٹ کھیلنے تک کے دعوے کرکے کہتے ہیں دوستی نبھارہے ہیں- ان میں سے اکثر و بیشتر کمرشل لبرل روز پاکستان کی بلکانائزیشن کا خواب دیکھتے ہیں اور روز اپنے تجزیوں میں پاکستان میں خانہ جنگی کے امکانات کے جائزے لیکر سوتے ہیں اور ان کی طرف سے حل کیا ہے وہ ہے خاندانِ شریفیہ کی بحالی…… جو اس حل سے اتفاق نہ کرے وہ اسٹبلشمنٹ کا ایجنٹ یا اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کیے بیٹھا ہے – جو ان کے لبرل فاشزم کی ہاں میں ہاں نہ ملاکر مذھبی انتہاپسندوں کے ریاستی سطح پہ قتل عام کا مطالبہ تسلیم نہ کرے وہ مذھبی فسطائیت کا حامی ٹھہر جاتا ہے – ان کا حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر تو طالبان، القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کے اپالوجسٹ رہے ہیں وہاں ان کی ترقی پسندی نجانے کہاں چلی جاتی ہے- ایک نمائشی بوتیک لیفٹ ہے جو ان کمرشل لبرل کے ٹوئٹ، یو ٹیوب ویڈیو بیانات یا فیس بُک اسٹیٹس کی جُگالی کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی زاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author