مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خیال کہاں سے آتا ہے 2||محمد عامر خاکوانی

اُس نے فوری طور پر پینٹ برش کی جگہ قلم تھاما اور ناول تحریر کرنا شروع کر دیا۔ اس ناول نے ادب کے علاوہ فلموں میں پیش کیے جانے بحری قزاقوں کے تصور کو خاصا متاثر کیا۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف ادیب، محقق اور خاکہ نگار عرفان جاوید کی نئی کتاب’’ عجائب خانہ ‘‘ کے حوالے سے بات جاری ہے۔ پچھلی قسط میں عرفان کی کتاب کے ایک اہم باب سے چند اقتباسات نقل کئے کہ لکھاریوں، سائنس دانوں اور انجینئرز کی حیران کن ایجادات کے لئے خیال کہاں سے وارد آتا ہے۔ ایک ہلکا سا اشارہ کس طرح بڑے خیال اور پھر دنیا بدل دینے والی ایجاد یا کسی عظیم شاہکار میں بدل جاتا ہے۔
عرفان جاوید لکھتے ہیں: ’’بات کا رُخ اگر ادب کی جانب موڑا جائے تو نابغۂ روزگار جاپانی ادیب ہاروکی موراکامی کے تذکرے کے بغیر بات نا مکمل رہتی ہے۔ جب وہ کسی نئے خیال کو ناول میں ڈھال رہا ہوتا ہے تو چھے ماہ تک ایک مخصوص معمول پر عمل کرتاہے۔ وہ ہر صبح چار بجے اُٹھتا ہے، پانچ چھے گھنٹے سوچنے اور لکھنے کا کام کرتا ہے، دس کلومیٹر طویل دوڑ لگاتا ہے یا پندرہ سو میٹر تیراکی کرتا ہے، بقیہ دن مطالعے میں بسر کرتا ہے اور رات ٹھیک نو بجے سونے کے لیے بستر پر چلا جتا ہے۔
وہ چھ ماہ تک مسلسل اس معمول پر عمل کر کے اپنے آ پ کو حالتِ تنویم (Mesmerism) میں لے کر آتا ہے تا کہ بہ قول اُس کے وہ ’’ذہن کے عمیق گوشوں تک رسائی‘‘ حاصل کر سکے۔ ’’دو یا زیادہ افراد کے بیچ مکالمہ بھی نئے خیال کی کھیتی قرار پاتا ہے۔ کارمک میکارتھی امریکا کے مقبول ترین مصنفین میں سے ایک ہے۔ اُسے اپنے ناول ’’سڑک‘‘ (The Road) پر بین الاقوامی اعزاز پلٹزر پرائز سے بھی نوازا گیا۔
اِس ناول میں کئی مکالمات ہُو بہو اسی طرح لکھے گئے ہیں جس طرح وہ حقیقی زندگی میں وقوع پذیر ہوئے۔ مثال کے طور پر اُس کے ناول میں درج بہت سے حقیقی مکالموں میں سے اپنے بیٹے سے ایک مکالمہ یوں درج ہے۔ ’’بیٹا: بابا اگر میں مر گیا تو آپ کیا کریں گے؟ باپ: میں بھی مر جانا چاہو ںگا۔‘‘ کارمک سمجھتا ہے کہ نئے خیالا ت کے لیے اپنے اِردگرد کے افراد سے حقیقی مکالمات پر غور کرتے رہنا چاہیے۔ یہ اُس کی واحد نصیحت نہیں بلکہ بہت سے راہ نما اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ ’’دی ہنگر گیمز (The Hunger games) نامی فکشن کا سلسلہ بین الاقوامی کامیابی کی ناقابلِ یقین داستان ہے۔
اب تک اس کے دو کروڑ سے زائد نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔یہ سائنس فکشن پر مشتمل ایک خیالی دنیا کی کہانی ہے جسے ایک سولہ سالہ کردار کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مصنفہ سوزن کولنز کو اس تخیلاتی داستان کا بنیادی خیال دو مختلف خیالوں کے ملاپ سے سُوجھا۔ یعنی دو یا زیادہ خیالوں کا ملاپ بھی ایک نئے خیال کو جنم دے سکتا ہے۔ایک شام وہ تھکی ہاری، اپنی آرام گاہ میں نیم دراز، بے دلی سے ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی۔
ٹی وی کے چینل بدلتے ہوئے وہ ایک رئیلٹی شو پروگرام پر کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئی جس میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک انعام کے حصول کے لیے مقابلہ کر رہے تھے۔ چند لمحے یہ پروگرام دلچسپی سے دیکھنے کے بعد وہ ایک اور چینل کی جانب بڑھ گئی۔ اس چینل میں عراق کی جنگ کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ رئیلٹی شو اور عراق کی جنگ کے مناظر اس کے ذہن سے چپک کر اُسے بے چین کرنے لگے، یہاں تک کہ وہ آپس میں مدغم ہو گئے اور ان میں سے ایک خیال اُبھرا جس نے آہستہ آہستہ اس ناول (اور فلم) کی صورت اختیار کی جو بین الاقوامی سطح کا ایک سنسنی خیز اشاعتی واقعہ بن گیا۔ ’’اسٹیفن کنگ یکے بعد دیگر پاپولر نوعیت کے بیسٹ سیلر ناول تخلیق کرنے کے لیے معروف ہے۔
اسٹیفن کنگ کو اپنے معروف ناول ’’بے چارگی‘‘ (Misery) کا خیال بھی ایک خواب میں آیا۔قصّہ یوں ہے کہ وہ طیارے کے ایک سفر کے دوران سو گیا۔ اُسے خواب میں ایک سنگ دل اور خوں خوار عورت نظر آئی جس نے ایک مصنف کو قید کر کے اُسے قتل کر ڈالا۔ بعدازاں اس کی جلد، بدن سے علیحدہ کی، بدن کے اعضا ایک سور کو کھلا دیے اور مصنف کی کھال سے ایک کتاب کی جلد بندی کر دی۔
ایک مصنف کی جلد ایک کتاب کی جلد بن گئی۔ نتیجتاً اسٹیفن کنگ نے ناول کے ابتدائی چالیس پچاس صفحات ہوٹل تک پہنچتے ہوئے اپنے دماغ میں لکھ ڈالے۔ اُسے بعدازاں ناول تحریر کرتے ہوئے اس میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ ’’رابرٹ لوئی اسٹیونس اسکاٹ لینڈ کا معروف ادیب تھا۔ اس نے دیگر بے شمار ادیبوں کو متاثر کیا۔ انیسویں صدی میں ابھی جب برصغیر میں فکشن کا نثری ادب گھٹنوں کے بَل چل رہا تھا، وہ اپنی پروازِ تخیل کے باعث ڈاکٹر جیکل اور ہائڈ جیسے کردار، ٹریژر آئی لینڈ، کڈنیپڈ اور دیگر عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے معیاری ناول سامنے لے کر آیا۔اردو کے معروف ادیب محمد خالد اختر اس کی پُر تخیل، تازہ اور دمکتی تحریروں سے خاصے متاثر تھے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اُس کا تذکرہ کیا ہے۔
’’ایک مرتبہ اسٹونسن نے اسکاٹ لینڈ میں چھٹیوں کے دوران وقت گزاری کے لیے ایک نقشہ پینٹ کرنا شروع کیا۔ تصویر مکمل کر کے وہ چند قدم پیچھے ہٹاتا کہ پینٹنگ کا ناقدانہ جائزہ لے سکے۔ اُس نے چشمِ تصور سے اس نقشے میں بحری قزاقوں کو چلتے پھرتے دیکھا۔بعدازاں اس نے بیان کیا ’’قزاق نقشے پر حرکت کر رہے تھے۔ وہ ایک خزانے کے حصول کے لیے آپس میں لڑائیاں لڑ رہے تھے۔ یہ سب اس چند انچ کے نقشے کے میدان پر ہو رہا تھا۔‘‘
اُس نے فوری طور پر پینٹ برش کی جگہ قلم تھاما اور ناول تحریر کرنا شروع کر دیا۔ اس ناول نے ادب کے علاوہ فلموں میں پیش کیے جانے بحری قزاقوں کے تصور کو خاصا متاثر کیا۔ ایک ٹانگ والے، کاندھوں پر طوطے بٹھائے ملاح ہوں یا خزانے کے نقشے ہوں، اُس ناول سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔ ’’ جارج آرویل کے ناول ’اینیمل فارم‘کو ریاستی جبر اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کے اظہار کے لیے حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے۔
اس میں غیر ذمّے دار اور عادی شرابی مسٹر جونز کے فارم کے جانوروں کی بغاوت دکھائی گئی ہے جب وہ اپنی طاقت سے مسٹر جونز اور دیگر انسانوں کا نظام تلپٹ کرنے کا منصوبہ بنا کر انقلاب لے آتے ہیں اور فارم پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ بعد میں و ہ مختلف احکامات تحریر کر کے وہاں آویزاں کر دیتے ہیں ، مصلحت کے پیش نظر ان میں ترامیم بھی ہوئیں، یہ فقرے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں مثلاً ’’تمام جانور برابر ہوتے ہیں مگر چند جانور دوسروں کی نسبت زیادہ برابر ہوتے ہیں‘‘ وغیرہ۔ ’’قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ جارج آرویل نے ایک لڑکے کو دیکھا جو ایک قومی الجثّہ گھوڑے کو تنگ رستے پر بہ مشکل لیے چلا جا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر یک دم ایک سوال جارج کے دماغ میں اُبھر آیا کہ اگر جانوروں کو اپنی قوت کا صحیح طور احساس ہو جائے تو کیا ہو؟ پس اس سے ناول کا خیال پیدا ہوا، باتیں کرتے اور منصوبے بناتے جانوروں کی شبیہیں اُبھریں اور ’’اینیمل فارم‘‘ وجود میں آ گیا۔ ’’نوبل انعام یافتہ ادیب جوزے ساراما گو کی تحریروں نے بھی ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا ہے۔ اُس کا نمایاں ترین ناول ’’بلائنڈنیس‘‘ ہے، جس کا احمد مشتاق نے اردو میں عمدہ ترجمہ کیا۔ 88 برس کی عمر میں وفات پانے والے پُرتگالی مصنف نے دنیا کو کئی عمدہ تحریریں پیش کیں۔ وہ اپنے طویل جملوں، حیران کن خیالات، تخلیقی اختراعات اور عوام و خواص کو بہ یک وقت متاثر کرتے عمدہ اندازِ تحریر کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ ’’جوزے ساراماگو دلچسپ سوالات، منفرد اقوال اور توجہ طلب حقیقی مکالمات کو اپنی ڈائری میں تحریر کرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سستاتے ہوئے اُس کے ذہن میں سوال آیا کہ اگر موت چھٹی پر چلی جائے تو کیا ہو گا؟ اس سوال پر سوچ بچار کرتے ہوئے اسے اپنے ناول ’’وقفوں میں موت‘‘ کا خیال سُوجھا ۔کتاب کا آغاز ایک بے نام ملک سے، اَن جانے دور میں، موت کی رخصت سے ہوتا ہے۔
جب گھڑیال نئے سال کی آمد کا اعلان کرتے ہیں تو اس کے بعد ملک میں کسی شخص کو موت نہیں آ سکتی۔ فلسفی، ماہرین، مذہبی راہ نما موت کے چلے جانے پر حیراں و پریشاں ہو جاتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی ہے۔ جوزے ساراما گو نے یہ ناول تب لکھا جب وہ تراسی (83) برس کا تھا۔ اس نے اپنا معروف ترین ناول ’’بلائنڈنیس‘‘ تہتر(73) برس کی عمر میں لکھ کر ثابت کر دیا کہ غیر معمولی طور پر تخلیقی لوگوں کے لیے جسمانی عمر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جدید نسل کے بین الاقوامی سطح اور اُردو زبان کے بہت سے ادیبوں کو اپنی تخلیقات کا خیال اس طرح آیا جس طرح باغ میں بیٹھے ہوئے ایک پتا لہراتا ہوا گود میں آن گرتا ہے۔
وہ پتا تو نہ تھا، نہ جانے کیا تھا، الہام، کشف یا خیال جو ایک اداس عورت کی مرمریں کہنی کی صورت لیوٹالسٹائی کی چشمِ تصور پر ایک جھماکے سے اپنی جھلک دکھلا گیا تھا۔ کہنے کو تو وہ ایک عظیم ادیب کا چند لمحوں پر مشتمل گیان اور خیال تھا مگر اس کے پیچھے خیال کاری کا ایک پیچیدہ اور وسیع سلسلہ تھا جو شعور، تحت الشعور، جین، ذہنی تربیت، ودیعت کردہ خوبی، ماحول اور پروازِ خیال سمیت بے شمار عناصر کو متحرک کر گیا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

%d bloggers like this: