دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ اپنے مذہبی اسکالر دوستوں کے بارے میں۔۔۔||عامر حسینی

میرے کچھ ایسے مذھبی اسکالر دوست ہیں جن کا تعلق مختلف مسالک سے ہے - لیکن یہ ایسے اسکالرز ہیں جن کے شب و روز نہ صرف دینی علوم کی کتابوں کے مطالعے میں بسر ہوتے ہیں

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے کچھ ایسے مذھبی اسکالر دوست ہیں جن کا تعلق مختلف مسالک سے ہے – لیکن یہ ایسے اسکالرز ہیں جن کے شب و روز نہ صرف دینی علوم کی کتابوں کے مطالعے میں بسر ہوتے ہیں بلکہ دیگر سماجی و طبعی علوم کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں – میں نے ان کو وسیع المشرب، صلح کلیت پہ عمل پیرا پایا اور ان کے اندر انسانیت کا درد بھی بدرجہ اتم پایا ہے – ان میں سے ہر اسکالر کے پاس اپنے فکری ارتقاء کی کہانی ہے جسے سُن کر پتا چلتا ہے کہ ان کے دماغ کی وسعت روزِ اول سے موجود نہ تھی اور نہ ہی یہ ایک دن میں پیدا ہوئی بلکہ اس میں کافی وقت لگا-
میرے ان مذھبی اسکالر دوستوں میں سے 99 فیصد اسکالرز وہ ہیں جن کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا اور انتہائی پس افتادہ علاقوں سے یہ لوگ مدارس عربیہ میں پڑھنے آئے تھے اور پھر دھیرے دھیرے جب یہ اعلیٰ درجوں میں پہنچے اور ان میں سے اکثریت کو مدارس کی سند کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی تعلیم کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے مختلف آرٹس فیکلٹی میں ماسٹرز، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کیں اور وہاں یہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئے تو ان کی زندگیوں میں بڑا بدلاؤ،
 سب سے بڑی تبدیلی میرے دوست مذھبی اسکالرز میں جو آئی وہ یہ ہے کہ وہ فرقوں، مسالک اور مذاھب کے درمیان ایسی دیواریں کھڑی کرنے کے زرا حق میں نہیں ہیں جو دوسری طرف جھانکنے کا امکان بھی بند کردیں – اور فقہی و فروعات عقیدہ میں ان کے ہاں وسعت ہے – میرا ان اسکالرز میں سے ایک دوست جو تخصص فی الفقہ کا درجہ پاس کیے ہوئے ہے اور اہلسنت کے ایک بہت بڑے دینی مدرسے جو یونیورسٹی بن چُکا ہے میں اصول فقہ و فروعات فقہ پہ دروس دیتا ہے ادب عالیہ کا کیڑا تو ہے ہی ساتھ ہی وہ کبھی بھی مجھے زعم علم میں مبتلا نظر نہیں آیا-
 ایک رات ہم چائے کے ڈھابے پہ بیٹھے تھے تو وہ مجھے حافظ شیرازی کے اشعار پہ اشعار سُنائے جارہا تھا، اچانک اُس کے شعور کی رُو پَلَٹ گئی اور کہنے لگا مذاھب کے ماہرین جو لوگوں کو مذاھب کی تعلیم دینے پہ مامور ہوتے ہیں وہ منابر پہ بیٹھتے ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ نصوص اور اُن کی تعبیر میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ نصوص من جانب اللہ ہوتی ہیں اور تعبیر و تاویل و تعلیل بشری و انسانی ہوتی ہیں جن کے ساتھ "حتمیت، اذعانیت، مطلق پَن” لگانے کا مطلب رب کی جگہ خود کو دے دینے کے مترادف ہوتا ہے – اور ایسے ہی نصوص کی وہ شرح جو سُنت سے متعین ہوتی ہے وہ صاحب نبوت کا منصب ہے،
اُس طرح کا درجہ اپنے فہم مذھب کو دینے کا مطلب شرک فی نبوت ہوتا ہے تو ملاں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو کبھی وہ شرک فی النبوت کا مرتکب ہوجاتا اور یوں اُس کا دین فی سبیل اللہ فساد بن جاتا ہے – میں تو دیکھتا ہوں مسجد، مدرسے، مندر، کلیسا میں ملاں رب، پنڈت بھگوان، پادری گاڈ بنے بیٹھے ہیں اور یہ منصب تشریع پہ بھی خود کو فائز کیے ہوئے ہیں اگرچہ مانتے کبھی نہیں……… آدمی کو آدمی ہی رہنے دیتے تو معاشرہ فساد سے بچ سکتا ہے……… یہ دروں بینی سے کہیں خارج میں جھاتی ڈالتے رہتے ہیں اسی لیے تو اندر پلید رہتا ہے…..
میں خاموشی سے اپنے اس دوست مذھبی اسکالر کو بولتا دیکھ رہا تھا، جب پہلی بار اس دوست سے میں ملا تھا تو یہ ایک معروف دیوبندی مدرسے میں پڑھتا تھا اور یہ باقاعدگی سے مجھے "خلافت راشدہ” رسالہ دیا کرتا تھا اور میں اسے اول اول عمران سیریز ابن صفی کے ناول دیا کرتا اور پھر آہستہ آہستہ یہ خود قریشی لائبریری سے پریم چند، کرشن چندر، غلام عباس، علی عباس حسینی، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، دت بھارتی، گلشن نندہ اور بہت سارے دیگر رائٹرز کو پڑھنے لگا تھا- اس دوران ہمارے شہر کے چوک میں سالانہ معصوم الخاتمین کانفرنس میں یہ شریک ہوتا جہاں سے میرا گھر قریب تھا تو یہ مجھے گھسیٹ کر وہاں لیجاتا اور جب وہاں "کافر کافر……” کے نعرے لگتے تو یہ پوری طاقت سے جواب دیتا،
اس کے گلے کی رگیں بھول جایا کرتی تھیں، یہ مجھے کہا کرتا تھا تم "رضا خانی بدعتی گھرانے” سے ہو اس لیے تمہارے اندر تھوڑی "غیرت” کی کمی ہے، میں اُس کی بات کو ہنس کر ٹال دیتا تھا- اس کے زیر مطالعہ جو مواد تھا وہ اسقدر نفرت انگیز تھا کہ اُسے پڑھنے والا نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہ پاتا- خیر وہ پڑھتا رہا اور اسی دوران میرے توسط سے اُس ایک اور نوجوان کے ساتھ سے بیٹھنے کا اتفاق ہونے لگا جو تازہ تازہ عراق سے پڑھ کر آیا تھا اور وہ پنجاب یونیورسٹی میں فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کررہا تھا اس کے علاوہ وہ فارسی میں دنیا بھر کے فکشن کے ترجمے پڑھ چُکا تھا، وہ اُس سے کبھی پہلے پہل تو نہ تو سلام کرتا، نہ ہاتھ ملاتا، اور اُس کے گھر چائے یا کھانے کی دعوت کو تو کسی صورت قبول نہیں کرتا تھا اور الگ سے مجھے کہتا اس "مجوسی” سے تو جان چھڑالو……
 میں نے اس دوران یہ کیا کہ اُسے مشورہ دیا کہ ہم اسلام کی پہلی اور دوسری صدی ھجری کی تاریخ پہ دستیاب مستند اہلسنت کے متقدمین کا چیدہ چیدہ تاریخ اور حدیث کا لٹریچر پڑھتے ہیں……. میں اُسے ان تمام نازک اور پیچیدہ مقامات سے گزار کر لیجانے میں کامیاب ہوگیا کہ ایک دن وہ خود سے مجھے کہنے لگا کہ اُس کا چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل گیا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کنورٹ ہوگیا تھا نہیں…..
 میرے یہ دوست بڑے کنیویس کے ساتھ اپنے اپنے مذھبی تشخص پہ قائم ہیں لیکن ان کے درمیان جو ذہنی و مکانی فاصلے تھے وہ ختم ہوگئے ہیں اور یہ مذھبی تنوع اور تکثریت کے قائل ہوگئے ہیں – ان کے حلقہ احباب میں اب صرف توحیدی مذاھب کے ماننے والے ہی نہیں بلکہ دیگر مذاھب کے ماننے والے اور تو اور ایسے لوگ جو "لا ادری” کے مرحلے پہ ہیں، تشکیک و ارتیاب کی منزل پہ ہیں یا وہ منزل "انکار” پہ ہیں ان سے بھی یہ خشمین نگاہوں سے نہیں ملتے –
 بلکہ ان کی وسیع المشربی ااور انسان دوستی کئی ایسے ملحدوں، سیکولر سے کہیں زیادہ ہے جن کو لوگوں کی مخصوص وضع قطع ان پہ فقرے کسنے یا اُن کا مذاق اڑانے پہ مجبور کرتی رہتی ہے جیسے عشق سے محروم کٹھ ملاں لوگوں کی ظاہری ہئیت دیکھ کر اُن سے نفرت کرنے لگتے ہیں –

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی زاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author