حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں بطور خاص یہ بات سمجھناہوگی کہ جوبات تحمل اور دلیل سے کی جائے وہی جگہ بناتی ہے۔ 73ء سالوں میں بہت کم ایسا ہوا کہ تحمل ودلیل سے اپنا موقف پیش کیا جائے۔
مکالمے سے تو ہم ایسے بھاگتے ہیں جیسے مکالمہ نہ ہوا خطرۂ ایمان ہو گیا حالانکہ مکالمے کے بغیر آگے بڑھنا خود اپنے ہونے کی نفی کرنا ہے۔
گزشتہ شب ہمارے دوست تبسم نواز وڑائچ کا سوال تھا۔
”کیا عقیدہ علم کا محتاج ہے یا علم کو عقیدے پر برتری حاصل ہے”؟۔
عرض کیا
”علم نہ ہو تو عقیدہ عقیدت ہے اور عقیدت اندھی ہوتی ہے، اندھاپن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے”؟۔
اس طالب علم کے نزدیک یہی سچائی ہے۔ علم جان لینے کی خواہش ہے، ”تحقیق” جان لینا ہرگز نہیں، جان لینے کے دعوے سے خبطِ عظمت جنم لیتا ہے۔ آدمی جستجو میں رہے تو زیادہ مناسب ہے۔
سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے! اگر ہم طالب علم ہی رہیں تو بہت ساری قباحتوں سے بچ کر تحقیق کے سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
البتہ یہ ذہن نشین رہے کہ مکتبی تعلیم (مدارس ودرسگاہ) علم نہیں بلکہ یہ مکتبی تعلیم طالب علم کو درِعلم پر لاکھڑی کرتی ہے۔ علم کی شاخیں ہیں، مکتبی تعلیم یہ شعور عطا کرتی ہے کہ کس شعبہ میں تحصیل علم کرنا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے روایتی مکتبی تعلیم کو علم سمجھ لیا، زندگی بھر اسی غلط فہمی سے خسارے بوتے کاٹتے اور جھولیاں بھرتے رہے۔
وڑائچ صاحب کے سوال پر خوب مکالمہ ہوا، علم ونعمت سے محبت کرنے والوں نے اپنی آراء کا اظہار کیا، ہم جیسے طلباء نے فیض کے موتیوں سے جھولیاں بھریں۔
زندگی کا اسلوب یہی ہونا چاہئے، جو آپ جانتے ہیں اس پر مطالعہ کیجئے۔ یہ نہیں کہ جو ہم جانتے ہیں وہی حرف آخر ہے۔
سفرحیات میں حرف آخر سانسوں کی ڈور کا کٹ جانا ہے۔
علم میں حرف آخر کا دعویٰ آدمی کو تکبر کے پھانسی گھاٹ پر لے اُترتا ہے، جو ہم جانتے ہیں اس پر مکالمہ ہوگا تو نئے در وا ہوں گے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک انسانی سماج میں روشن خیالی مطالعہ، مکالمے اور علم سے ہی پروان چڑھتی ہے۔
روشن خیالی کا کہیں یہ مطلب نہیں کہ انکار کر دیا جائے۔ آپ یوں سمجھ لیجئے ہر نیا مذہب اور نظریہ اپنے عہد کی روشن خیال فہم ہی تو ہے وقت کو آگے بڑھنا ہے، انسانی سماج کو ارتقا کا سفر طے کرنا ہے، ہمیں دریا اور جوہڑ کا فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا،
مکالمہ مطالعہ کو دریا بنائے رکھتا ہے، جان لینے کی ضد اور فقط ہم درست ہیں جوہڑ میں تبدیل کر دیتی ہے۔
فیصلہ انسان کرتے ہیں کہ دریاؤں سے روانی یا جوہڑوں جیسا کھردرا پن۔
مجھے اعتراف ہے کہ ہم اس خوش قسمت نسل میں سے ہیں جنہیں تعلیمی اداروں اور پھر عملی زندگی میں ایسے اساتذہ کرام ملے جنہوں نے اولاد کی طرح تربیت کی، مطالعہ اور مکالمہ کی حوصلہ افزائی کی، ہمارے ایک مرحوم اُستاد مہینہ بھر میں ایک بار یہ ضرور پوچھتے تھے
”ارے صاحبزادے آپ کی جیب میں کتنے پیسے ہیں، جب ان کی خدمت میں عرض کرتے کہ اتنے ہیں تو وہ فرماتے اچھا نکالئے دو روپیہ، دو روپیہ لیکر پھر اس میں دو روپیہ اپنی طرف سے شامل کرتے، پھر حکم ہوتا، اچھا دیکھو فلاں بک سٹال پر یہ کتاب موجود ہے وہ خرید کر پڑھ لو، پھر بات کریں گے۔
آٹھ دس دن بعد دوپہر کے کھانے کی میز پر سوال ہوتا کیوں صاحبزادے کتاب خریدی، پڑھی؟
اثبات میں جواب پاکر متعلقہ کتاب پر گفتگو شروع کر دیتے، جیسے امتحان لے رہے ہوں کہ کتاب پڑھی ہے یا چکمہ دے رہا ہے شاگرد،
کبھی کبھی کسی تحریر سے خوش ہو کر کتاب کی قیمت یا کتاب بھی انعام میں عنایت کر دیتے تھے۔
زمانہ بدل گیا اور بہت تیزی کیساتھ تعلیم بھی تجارت بن گئی ہے تو علم کو کون پوچھتا ہے، چار اور دیکھ لیجئے کتنی درسگاہوں، صحافتی اداروں یا دوسرے مقامات پر مطالعے، مکالمے اور علم کیلئے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ہر جگہ ”ہو” کا عالم ہے، سبھی کو سب معلوم ہے، نہیں معلوم تو یہ کہ تعلیم علم کی سیڑھی ہے اور یہ کہ حق بندگی کیا ہے۔
چند دن ادھر ایک دوست کہہ رہے تھے، شاہ جی! حالات اور مسائل نے گھٹن پیدا کر دی ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ عرض کیا میں نے تو اپنے بھیاابو (بڑے بھائی) کی ایک بات تین عشرے قبل پلے سے باندھ لی تھی کہ اگر صرف10 صفحات بھی روز پڑھو تو ایک ماہ میں 300صفحات پڑھے اور 12ماہ میں 3600صفحات پڑھ لو گے ۔
کیا ہم مطالعے کیلئے اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتے۔
ان کے سوال پر پھر عرض کیا، میں اب بھی تین مقررہ اوقات میں کچھ دیر مطالعہ کرتا ہوں۔ صبح، سہ پہر کی چائے پر اور پھر رات کو سونے سے قبل۔ زیادہ کوشش اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ صبح کے اوقات میں چند صفحات زیادہ پڑھ لئے جائیں کیونکہ سہ پہر کی چائے پر مطالعہ تو صرف گھر پر ہوسکتا ہے، اگر آپ باہر ہیں یا دفتر میں تو کچھ مشکل پیش آسکتی ہے۔
ہم اخبار نویس اور خصوصاً وہ جن کی ذمہ داری دفتر کے اندر ہی ہوتی ہے اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ کام کے دوران زیادہ نہیں تو 30منٹ مل ہی جاتے ہیں اگر چاہیں کہ مطالعہ کیا جائے۔
وہ بولے کتابیں بہت مہنگی ہیں ۔ عرض کیا آپ کے موبائل فون سے بھی زیادہ ؟ پھر ان کی خدمت میں عرض کیا اسے جہاد کے لیے نہیں لائبریری کے طور پر استمال کیجے ۔
قارین کرام بہت ادب کے ساتھ معذرت ایک خشک کالم پڑھنا پڑا آپ کو لیکن یہی احوال زندگی اور حالِ دوستاں ہے جو عرض کیا
ہم آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں تو تکبر کے پھانسی گھاٹ پر اترنے کی بجائے تحصیل علم اور مکالمے کو رواج دیں یہ وہ واحد ذریعہ ہے گھٹن حبس اور سب جان لیا کی بیماری سے نجات کا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر