ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہِ مقدس رمضان کا آغاز ہو گیا ہے ، یہ مہینہ برکت اور رحمت والا مہینہ ہے ، اس ماہ کی ہر گھڑی رحمت ہی رحمت ہے اور اس مہینے میں نیکیوں کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے ۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا ہو جاتا ہے ۔ محبوب خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فرمان ہے کہ رمضان شریف میں جو شخص ایک مرتبہ درود شریف پڑھے اُسے ایک لاکھ کا ثواب ملے گا اور آپ ؐ کا یہ بھی فرمان ہے رمضان شریف میں ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اُسے دوزخ کی آگ سے اتنا دور کردے گا جتنا زمین سے آسمان ہے۔
اسی طرح اس ماہ میں غریب اور بے نوا انسانوں سے ہمدردی و غممگساری کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ روزہ صرف بھوکا پیا رہنے کا نام نہیں بلکہ ہمدردی و غمگساری کا نام ہے ۔
ہمدردی و غمگساری ہر لمحہ اور ہر پل کے لیے ہونی چاہیے ، خصوصاً رمضان المبارک میں اس کے تقاضے بڑھ جاتے ہیں کہ رمضان شریف کی بعد عید کی آمد ہوتی ہے اور عید کی خوشیوں میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کو شامل کرنا ضروری ہے ورنہ وہ عید عید نہیںرہے گی۔کہا جاتا ہے کہ پیسے کے بغیر کچھ نہیں مگر اس سے اگلی بات زیادہ درست ہے کہ سب کچھ پیسہ نہیں ، اگر دولت عزت کا معیار ہوتی تو لوگ قارون اور فرعون کا نام چومتے ۔ سوچنا چاہیے کہ اُن کا نام گالی کیوں ہے؟
ہم ذکر کر رہے تھے ماہ صیام کا ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ سخاوت ہونی چاہیے ۔ماہ مقدس میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کریں اور جو تاجر گراں فروشی کریں اور پورے سال کا منافع ایک ماہ میں نکالنے کا چکر چلائیں اُن کے لیے سخت وعید ہے۔یہ ایک الگ موضوع ہے مگر اس موقع پر میں یہ بھی کہوں گا کہ حکومت کی طرف سے رمضان پیکیج کے نام سے جو سہولت دی جا رہی ہے اس سے ملک کی مجموعی آبادی کا ایک فیصد بھی استفادہ نہیں کر سکتا البتہ اربوں روپیہ جو کہ غریبوں کے ٹیکسوں اور اُن کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہوا ، افسران اور امراء کے جیب میں چلا جاتا ہے۔
ریاست مدینہ کے دعویداروں کو غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ملک کو لنگر خانے نہیں کارخانے چاہئیں ، اور ملک کے محروم و پسماندہ علاقوں کی ترقی ضروری ہے ۔ یہ سب کچھ تب ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کے دل میں غریبوں کا احساس ہواور اُن کے دل مائل بہ سخاوت ہوں ۔اگر زیادہ نہیں حکمران ملک میں عدل اور انصاف قائم کریں ، ا ور ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیں تو یہ بھی بہت بڑا کام ہے اور ان اقدامات سے بھی غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
بزرگوں کا قول ہے کہ اپنے لیے جینا کوئی جینا نہیں ’’ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘‘اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر یا اپنی ضروریات سے پس اندازی کرکے ضرورت مندوں کو مال و اسباب دے دینے کا نام سخاوت ہے ۔سخاوت بہت بڑا موضوع ہے اور اس کی ان گنت جہتیں ہیں مال و دولت کی سخاوت کے علاوہ ، علم کی سخاوت ، اخلاق کی سخاوت ،ہمدردی و غمگساری کی سخاوت اور خندہ پیشانی کے ساتھ ساتھ تبسم اور مسکراہٹ بھی سخاوت کے زمرے میں آتی ہے ۔ ان تمام سخاوتوں کا بہت بڑا مقام ہے ۔حاتم طائی سخاوت کا آج بھی استعارہ ہے ۔
وہ مسلمان بھی نہیں ہوا تھا مگر آپ ؐ نے اس کے کردار کی اس طرح پذیرائی فرمائی کہ آپ ؐ کو بتایا گیا کہ آنے والے جنگی قیدیوں میں حاتم طائی کی بیٹی بھی شامل ہے ۔ سرکار دو عالم ﷺ فوراً وہاں پہنچے اور حاتم طائی کی بیٹی کو فرمایا کہ آپ سخی کی بیٹی ہیں ہم آپ کو آزاد کرتے ہیں۔ حاتم طائی کی بیٹی نے کہاکہ میں اپنے ساتھیوں سمیت رہا ہونا چاہوں گی ، آپ ؐ نے سب کی رہائی کا حکم فرمایا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ سخاوت وہ عظیم کردار ہے کہ غیر مسلم بھی احترام کے لائق ٹھہرا۔ قرآن مجید میں سخاوت کا حکم آیا ہے اور یہ بھی کہ صدقہ ،زکواۃ کا حکم بھی اس بناء پر ہوا کہ مستحقین کی ضروریات پوری ہوں اور غریب طبقے کو اس کا فائدہ پہنچے ۔ قرآن مجید میں حکم ہوتا ہے ’’تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے ‘‘۔(سورۃ ال عمران آیت نمبر92)
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ’’کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف ہو ، ہاں اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ۔ اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہگیر اور سائلوں کو چھڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکواۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے اور جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنے بات سچی کی اور یہی پرہیز گار ہیں۔(سورۃ البقرہ آیت نمبر177)
ایک حدیث شریف میں ہے کہ آیت مذکورہ بالا کا نزول اس واقعہ کے بعد ہوا کہ بارگاہ نبوت میں ایک بھوکا شخص حاضر ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے ازواج مطہرات کے حجروں میں معلوم کرایا کہ کیا کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ معلوم ہوا کہ کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں تب حضور ا کرم ﷺ نے ا صحابہ کرام سے فرمایا کہ جو اس شخص کو مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کھڑے ہو گئے اور حضور سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے گھر جا کر بیوی سے دریافت کیا کہ گھر میں کچھ کھانا ہے ؟
انہوں نے کہاکہ صرف بچوں کے لئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے فرمایاکہ بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دو اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے کی لئے اٹھو اور چراغ بھجا دو تاکہ مہمان اچھی طرح کھالے۔ یہ تجویز اس لئے کہ مہمان یہ جان نہ سکے کہ اہل خانہ اس کے ساتھ نہیں کھا رہے۔ کیونکہ اس کو یہ معلوم ہو جائے گا تو وہ اصرار کرے گا اور کھانا تھوڑا ہے اس لئے مہمان بھوکا رہ جائے گا ۔ اس طرح حضرت ابو طلحہؓ نے مہمان کو کھانا کھلا دیا اور خود اور اہل خانہ بھوکے سو رہے ۔ جب صبح ہوئی اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو طلحہؓ کو دیکھ کرفرمایا کہ رات فلاں فلاں کے گھر میں عجیب معاملہ پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بہت راضی ہے اور سورۃ حشر کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ (خزائن العرفان ص ۶۵۰)
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ