حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں براہ راست تصادم، الزامات کے تبادلوں اور ’’دفعہ دور‘‘ کہنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ ہونا ہی تھا اس کی کئی وجوہات ہیں اور سب س اہم وجہ نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ’’کہیں‘‘ طے پائے معاملات ہیں۔
کیا یہ معاملات نوازشریف کی مرضی کے بغیر طے پائے؟
جی نہیں، جو ہورہا ہے اس میں میاں صاحب کی مرضی شامل ہے نہ ہوتی تو زبیر عمر مریم نواز اور میاں صاحب کے ترجمان نہ ہوتے۔
زبیر عمر، سابق گورنر سندھ، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے پچھلے سال آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کا پہلے انکار کیا گیا پھر کہا گیا کہ ملاقات 40سال کے خاندانی تعلقات کی وجہ سے ہوئی اور پھر مان لیا گیا کہ یہ ملاقات جاتی امراء کی مرضی سے ہوئی۔
تب ان سطور میں عرض کیا تھا زبیر عمر جو مراعات لینے گئے تھے وہ نہیں ملیں بلکہ کورا جواب ملا۔
پھر ایک ملاقات گلگت بلتستان الیکشن سے قبل ہوئی اس ملاقات میں زبیر عمر، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی شامل تھے۔ اگلے مرحلہ میں پوری اپوزیشن قیادت بلائی گئی حکومت کی طرف سے چند وزراء آئے کیونکہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
اسی انکار کو لے کر اس ملاقات میں تلخی بھی ہوئی۔ تینوں ملاقاتیں عوام سے چھپائی گئیں لیکن پھر بات کھل گئی۔
آئی ایس اپی آر، نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنی اپنی جگہ ملاقات کے حوالے سے وضاحت دی۔
اس مرحلہ پر شیخ رشید بولے وزیراعظم نے انکارکر کردیا تھا اپوزیشن رہنماوں کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہونے کے لئے۔
یہ آخری ملاقات، گلگت بلتستان کے انتخابات اور الیکشن کے حوالے سے تھی۔
معاف کیجئے گا یہ قصہ یونہی یاد آگیا ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر رونق لگ گئی ہے۔
نون لیگ بھوکے شیر کی طرح پیپلزپارٹی پر ٹوٹ پڑی اور پولینڈ کی قرارداد پھاڑنے سے محترمہ بینظیر بھٹو کی جعلی وصیت تک بات ہورہی ہے۔
ایک بات عرض کروں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی مقبولیت سے پریشان حال لوگوں نے بالآخر طے کرلیا کہ بیانیہ پیش کرنے والوں کو ہی ہیرو بناکر پیش کیا جائے۔
بعض اطلاعات کی بنیاد پر یہ رائے ہے حتمی تجزیہ نہیں البتہ یہ طے ہے کہ نون لیگ اب اپنی اصلی حریف پیپلزپارٹی کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گی وجہ یہی ہے کہ نون لیگ بنیادی طور پر بھٹو مخالفین کا مورچہ ہے اس کا ووٹ بینک بھی اسی نفرت سے گندھا اور ہمدردوں کے تو کیا کہنے۔
پچھلی شب ایک ٹی وی پروگرام میں احسن اقبال کے اندازِ تکلم پر قمر زمان کائرہ جیسے دھیمے مزاج شخص کا بھڑک اٹھنا آنے والے دنوں کی سیاست کا پتہ دیتا ہے۔
یہ طے ہوا کہ اب پی ڈی ایم اے این پی اور پیپلزپارٹی کے بغیر ہوگا۔
البتہ جو کل تک استعفے نہ دینے کو غداری قرار دیتے تھے وہ اب استعفے نہیں دے رہے۔ سینیٹ کی طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن دو دھڑوں میں تقسیم ہوگی اور کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگا۔
پیپلزپارٹی کو تقریباً اب اپنی غلطی کا اخساس ہوگا کہ اپنی نفرت کے خمیر سے گندھی نون لیگ کو مشکل وقت میں سیاسی سہارے دینے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
پچھلے دو دن سے ہم 1988ء کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی بہت مہربانی کی وہ شب بھر میں اس ملک کو 33سال پیچھے لے گئے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ نون لیگ کے اندر جنرل ضیاء الحق پوری قوت اور شان سے زندہ ہے زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کے خلاف رجعت پسند اخبارات و جرائد اور جماعت اسلامی جو الزامات لگاتی رہی اس کی جگالی ہورہی ہے۔
بھٹو نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑی، پاکستان توڑا، ابھی ابتداء ہے ان شاء اللہ سول سپر میسی کے جانباز باقی کارنامے بھی تاریخ سے نکال کر لائیں گے۔
پیپلزپارٹی کیا کرے گی؟
یہ سوال ہے۔ کیا کرسکتی ہے،
معروف اینکر اور عاشق اسامہ بن لادن نے اپنے پروگرام میں اپریل 1986ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے وقت محمد خان جونیجو کی کابینہ میں ہوئی گفتگو کو توڑموڑ کر پیش کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کابینہ میں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو ایئرپورٹ سے گرفتار کرکے لاڑکانہ بھجوادیا جائے جبکہ خاقان عباسی (شاہد خاقان عباسی کے والد) نے اس کی مخالفت کی
جبکہ اصل کہانی یہ ہے کہ خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کا پیغام لائے تھے بینظیر بھٹو کی گرفتاری کے لئے۔
یوسف رضا گیلانی، حاجی سیف اللہ اور ملک نعیم خان نے مخالفت کی اسی دن اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ نے محمد خان جونیجو کو فون کرکے کہا کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے مشورے پر عمل نہ کریں۔
جنرل ضیاء اپنے مقصد کے لئے آپ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہے۔
اس بات سے یہ سمجھ لیجئے کہ آنے والے دنوں میں کیسے کیسے سچ اچھالے جائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر