گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جب ہم چھوٹے تھے تو اس وقت ابھی پلاسٹک کے کھلونے بہت کم بنتے تھے پھر ہماری قوت خرید بھی اتنی نہیں تھی کہ بازار سے کھلونے خرید سکیں۔ صرف لکڑی سے بنیں لٹوڑیاں یا قنچے کوڈیاں ہم خریدتے جو بہت سستے تھے۔ کھلونے بنانے کا شوق ہم چیکنڑی مٹی river silt سے خود بنا کے پورا کرتے ۔
اصل میں دریاۓ سندھ پر رہنے والے کیہل مٹی اور کانے کے بڑے خوبصورت کھلونے بنا کے سستے بیچتے اور ہم بھی ان کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے گھر اور کمرے بھی مٹی سے بنائے جاتے۔
اس کے لیے کاریگر لیس دار مٹی کو خوب پیروں سے گوندتے جب مٹی تیار ہو جاتی تو دو فٹ چوڑا اور دو فٹ اونچا پہلا وار یعنی بنیاد بڑی صفائی سے ڈال دی جاتی اور یہ وار ایک ہفتہ سوکھتا رہتا پھر اتنا دوسرا وار ڈالا جاتا ۔
جب سات آٹھ وار مکمل ہوتے اور سوکھ جاتے تو شہتیر ۔کڑیاں کوندر کانے ڈال کر لپائی کر دیتے لیجیے کمرہ تیار ایک لکڑی کا دروازہ لگا دیا۔ بس اتنی کہانی ہے گھر بنانے کی۔ ادھر ہم بچہ لوگ مٹی سے گھوڑا ۔بیل ۔بیل گاڑی ۔بطخ بنا کر رنگ کر دیتے اور پھر مقابلے ہوتے۔
ہمارے گھر میں تنور بھی عورتیں خود چیکنڑی مٹی اور پٹ سن کے دھاگے ملا کے بناتیں۔اس کے بھی درجہ بدرجہ وار سوکھتے اور تنور تیار ہوتا۔ بچیاں پرانے کپڑے اور کپاس سے گڑیا خود بناتیں۔ اور مٹی سے جہیز بنتا اور گڑیا کی شادی ہوتی۔ ان مٹی کے کھلونوں سے جو ہمیں خوشیاں حاصل ہوتیں وہ اب ناپید ہیں۔اب کرونا ہے دہشت گردی ہے ۔فرقہ واریت ہے ۔جنگیں ہیں۔ہوس زر ۔کرپشن ۔رشوت ۔ملاوٹ اور سیاست ہے۔
میں نے جب ان دنوں فلم مٹی دیاں مورتاں دیکھی تو اس میں ناہید نیازی کا گیت بہت مشھور ہوا جس کے بول تھے۔
دلاں دیاں میلیاں نے چن جیاں صورتاں۔ انہاں کول چنگیاں نے مٹی دیاں مورتاں۔
اس گیت کی سمجھ اس وقت تو نہیں آتی تھی لیکن اب احساس ہوا کہ انسان کی چن جیاں صورتاں کیسے بھیانک کام سر انجام دیتی ہیں اور ان پر کوئ اثر نہیں ہوتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر