عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میآں نواز شریف کسی کو کاندھوں پہ بٹھاکر غار حرا تک لیجائے ، اس کی جوتیاں سیدھی کرے تو وہ "مفکر اسلام” رہتا ہے اور جب وہ ان کو چھوڑ جائے، اپنی سیاسی جماعت بنائے اور پھر پی پی پی کی قیادت کی طرف خیر سگالی والا جذبہ رکھے تو اچانک لاہور کے کئی ایک رپورٹروں کو وہ "مفکر اسلام” جھوٹے خواب سنانے والا (یہاں تک کہ اس پہ توہین رسالت کا الزام بھی لگ جائے ) ، ڈھونگی اور "قادری” سے "پادری” ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ روزنامہ خبریں لاہور جو مسلم لیگ نواز کا ترجمان بن جاتا ہے پورا اخبار اس مفکر اسلام کے خلاف چھاپتا ہے۔(بعد ازاں یہی ضیاء شاہد ذلیل کرکے ماڈل ٹاؤن سے نکالا جاتا ہے، اس کی رکنیت منسوخ ہوتی ہے ، اشتہار بند ہوتے اور یہ معافی تلافی کے لیے مجید نظامی کے چرن چھوتا ہے اور جیسے ہی نواز شریف پہ مشرف حملہ اور ہوتا ہے تو یہ توپوں کے دہانے نواز شریف کے خلاف کھول دیتا ہے کیونکہ اب اس کے سر پہ سائیں ہوتے ہیں)
جب وہ مفکر اسلام اپنا آخری جمعہ اتفاق مسجد میں پڑھاتا ہے تو اس سے پہلے ایک لمبی تقریر کرتا ہے اور میاں صاحبان کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اگر انہوں نے اسے کچھ طے شدہ معاوضہ سے ہٹ کر دیا ہے تو اس کا حساب لے لیں بڑے میاں صاحب اور ان کے صاحبزادگان خاموش رہتے ہیں لیکن اخبارات میں اس مفکر اسلام کے خلاف میاں صاحبان کا نمک حرام ہونے ، کروڑوں روپے ہڑپ کرنے والا مولوی کے الزامات شایع ہونے شروع ہوجاتے ہیں
طاہر القادری کے خلاف اردو اور انگریزی پرنٹ میڈیا میں خبروں کا سیلاب آتا ہے اور اس کے خلاف سارے مسالک سے مفتیان کے ڈھونڈ کر فتوے شایع کروائے جاتے ہیں ۔ ان سب کے پیچھے میاں نواز شریف ہوتا ہے۔ کیونکہ طاہر القادری 1997ء میں پی پی پی کے ساتھ مل کر "پاکستان عوامی اتحاد” بناتا ہے اور وہ اس اتحاد کا صدر بھی بنتا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے شہروں میں اس کے منظم کارکن پی پی پی و دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر نواز شریف کو للکارتے ہیں یہ ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے اور جیسے ہی نواز شریف 2013ء میں برسر اقتدار آتا ہے تو وہ نہ صرف طاہر القادری کے خلاف اپنے زرخرید پریس سے اس کی کردار کشی کرواتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ اسے اس وقت اسٹبلشمنٹ کا مہرہ کہلواتا ہے جب نواز شریف افتخار چوہدری اور کیانی سے مل کر خود سازش کررہا ہوتا ہے پھر راحیل شریف کے زمانے میں وہ پریس کے زریعے سے طاہر القادری کو راحیل شریف کا بندہ قرار دلواتا ہے اور خود اس راحیل شریف کو آل سعود کو سونپتا ہے، اسے قیمتی اراضی الاٹ کرکے دیتا ہے۔
نواز شریف اور شہباز شریف ایک اور پیر کی جوتیاں سیدھی کیا کرتے تھے اس کا نام صاحبزادہ فضل کریم تھا اور جب اس نے نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے آل سعود کی غلامی اور القاعدہ و طالبان سے روابط پہ اعتراض کیا اور جب یہ نہ مانے تو ان سے الگ ہوگیا تو اس کے بعد شریف برادران نے نہ صرف اسے طالبان و سپاہ صحابہ سے دھمکیاں دلوائیں بلکہ اس کے خلاف غلیظ زبان بھی استعمال کروانا شروع کردی۔ اب نواز شریف کے کرائے پہ دستیاب سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صاحبزادہ فضل کریم کے بولنے کو "بھونکنا” کہتے ہیں
مجھے پھر 80ء اور 90ء کی دہائی کے کئی بریلوی، دیوبندی، وہابی پیر اور ملاں یاد آرہے ہیں جو مولانا نورانی کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ہونٹوں پہ لپ اسٹک اور گالوں پہ پورا میک اپ کرتا ہے ، اس کے گھر کی عورتیں فیشن ایبل، بے پردہ اور ماڈرن ہیں، جنونبی افریقہ سے ہیرے اسمگل کرتا ہے ۔۔۔ یہ سارے بے ہودہ الزامات مولانا نورانی پہ نواز شرف کے زر خرید لاہوری صحافی بھی لگایا کرتے تھے ، مولانا نورانی کا قصور فقط اتنا تھا کہ اس نے جنرل ضیآء الحق کو منفق اور یزید تک قرار دیا اور اس نے نواز شریف کے ہاتھ کبھی مضبوط نہيں کیے تو اس کی کردار کشی لازم ٹھہری
نواز لیگ اور اس کے زر خرید آج مولانا فضل الرحمان کو حقیقی اینٹی اسٹبلشمنٹ مولانا اور بہادر و جرآت مند قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن یہ موانا جب ایم آر ڈی میں تھا اور ضیآہ الحق کے دام میں نہ آیا تو اس مولانا کی پارٹی کو توڑنے کے لیے مولوی حقنواز جھنگوی کو آگے لایا گیا، سپاہ صحابہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی ، جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا عبدالرحمان اشرفی کو رجھایا گیا اور پھر جب مولانا نے نورانی میاں اور اصغر خان کے ساتھ مل کر آئی جے آئی مين شامل ہونے سے انکار کیا اور پاکستان جمہوری محاذ بناکر 88ء کے انتخابات لڑے تو یہ تینوں نواز شریف کیمپ کی طرف سے زبردست کردارکشی کا نشانہ بننے لگے ۔۔۔۔۔ مولانا فضل الرحمان پی پی پی کا اتجادی بنا تو اسے نہ صرف مولانا ڈیزل کہا گیا بلکہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جوڑ کر انتہائی شرمناک الزامات لگائے گئے
آج اگر کوئی مولانا اور مریم کے درمیان شرمناک تعلق بناکر پیش کرے تو لیگیوں کے چیخ چنگھاڑے دیکھنے والے ہوں گے
نواز شریف اور اس کا خاندان اپنے مخالف سیاست دانوں کی کردار کشی کا ماسٹر رہا ہے ، یہ نہ جنس دیکھتا ہے نہ عمر دیکھتا ہے نہ ان کی قربانیوں کو دیکھتا ہے۔ اور تو اور اس خاندان کی نام نہاد انقلابی عورت بھی زبان کھینچ لینے اور جن کا پورا خاندان جمہوریت پہ قربان ہوا ہو اس کو سلیکٹڈ کی گالی دینے سے باز نہیں آتی
یہ اس قدر بے شرم ہیں جب ان کے کسی لیڈر کو کوئی یاد دلائے کہ مریم نے بلاول بارے کیا بکواس کی تھی؟ تو خاقان عباسی جیسا لیڈر کہتا ہے کہ مریم کے بیانات کی کوئی حثیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جو مولانا بیماری کے سبب سیاسی سرگرمیوں کو کچھ دن کے لیے معطل کرکے بیٹھا ہو یہ اس کا نام لیکر شو کاز نوٹس جاری کردیتے ہیں جبکہ اس دوران تو قائم مقام صدر پی ڈی ایم راجا پرویز اشرف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ اپنے بارے مين تو بولتے ہی ہیں دوسروں کے بارے ميں ان کے سامنے بے شرمی سے جھوٹ بولتے ہیں ، راجا پرویز اشرف کے سامنے کہتے ہیں کہ فیصلہ ہوگیا تھا اپوزیشن لیڈر کا اور وہا کہتا ہے کہ ميں نے اجلاس میں میں بھی نہیں مانا تھا اور اگلے روز خاقان عباسی کو فون پہ بتایا پھر مریم نواز کو بلاول نے بتایا اور زرداری نے اسحاق ڈار کو بتایا ، اس دوران نواز شریف جان بوجھ کر زرداری سے رابطے میں نہیں آیا کیونکہ جھوٹ پہ مبنی ایک پورا اسکرپٹ تیار کرکے زرخرید صحافیوں اور سوشلٹ میڈیا ایکٹوسٹ تک پہنچایا جاچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈیل اور سودا خود کیا اور الزام پی پی پی پہ دھر دیا اور تو اور اے این پی نے جب ساتھ نہ دیا تو وہ بھی ان کے کینے کا نشانہ بنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کس کس لیڈراور قائد کا یہاں نام درج کروں ۔۔۔۔۔۔۔ نواز شریف نے چودھری برادران ، میاںاظہر، فخر امام ، عادہ حسین وغیرہ کے ساتھ کیا کیا چودھری شجاعت حسین اور بیگم عابدہ حسین کی کتابیں چھپ چکیں پڑھ لیں۔ اب ہمیں کہتے ہیں کہ ہم نواز شریف سے بغض رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے باوجود اختلاف کے ، تحفظات کے پی ڈی ایم کی تشکیل کو روا رکھا لیکن یہ "وسیع تر مفاد” میں قربانی کے جذبے تک سے ناآشنا لوگوں کا ٹولہ ہے۔ اب جب یہ حدود پھلانگ گئے تو ہمیں کہنا پڑا
اتنی بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر