نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز شریف کی خاطر مہذبی جماعتوں کوتوڑنے والے||عامر حسینی

طاہر القادری نے تو میاں نواز شریف کے خلاف اٹھنے کی ہمت کرڈالی اور اس کا انھیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ، ان کی اخبارات کے زریعے اور بریلوی مفتیوں کے زریعے بدترین کردار کشی کی گئی

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نواز شریف کی خاطر اپنی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کو توڑنے والوں میں ایک نام عبدالستار خان نیازی کا بھی تھا اور اس جماعت کے اندر سے ایک اور جماعت نکالنے کا کارنامہ بھی نواز شریف کا تھا جب انھوں نے صاحبزادہ فضل کریم کی پشت پہ ہاتھ رکھا۔ نواز شریف پنجاب میں بریلوی پیر، مولویوں کو استعمال کرتا رہا تاوقتیکہ کہ مولانا نورانی کی جماعت جی ٹی روڈ سے ایک بھی نشست نکالنے سے قاصر ہوگئی اور اس کے کام آنے والے مولانا غلام علی اوکاڑوی، مولانا سرور قادری(لاہور) ، مفتی سرفراز نعیمی (لاہور) مولانا خادم رضوی (لاہور) صاحبزادہ فضل کریم (فیصل آباد)، مولانا حمید سیالوی (سیال شریف سرگودھا)، پیر جلیل شرقپوری وغیرہ تھے
اور ایک زمانہ تو وہ تھا جب نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں شریف برادران نے "راسخ العقیدہ بریلوی” ہونے کا ناٹک کررکھا تھا تو اس زمانے میں جمعیت اہل حدیث کے سربراہ علامہ احسان اللہی ظہیر نے عربی میں ایک کتاب بریلویوں کے مشرک بدعتی ہونے پہ لکھی اس کا عنوان رکھا ” البریلویہ” اور دوسری کتاب شیعہ کے کافر ہونے پہ لکھی اس کا عنوان رکھا "الشیعہ” میاں شہباز شریف نے اعلان کیا کہ جو عربی میں اس کا جواب لکھے گا اسے نقد انعام دیا جائے گا – جن علماء و مشائخ کا میں نے اوپر نام درج کیا انہوں نے میاں برادران کے اس اقدام کو ان کے "راسخ العقیدہ بریلوی” ہونے کی دلیل کے طور پہ پیش کیا –
اسی دور میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے ماڈل ٹاؤن میں اپنی تعمیر کردہ مسجد اتفاق مسجد کے لیے ایک ایسے پڑھے لکھے مولوی کی تلاش شروع کی جو جدید علوم کی روشنی میں بریلوی مسلک کو ایسے بیان کرے جیسے ڈاکٹر اسرار، جاوید غامدی پیش کررہے تھے تو میاں شریف نے شادمان میں مسجد رحمانیہ میں خطبہ جعمہ پڑھاتے ڈاکٹر طاہر القادری کو دریافت کیا ۔۔۔۔۔۔۔
طاہر القادری نے تو میاں نواز شریف کے خلاف اٹھنے کی ہمت کرڈالی اور اس کا انھیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ، ان کی اخبارات کے زریعے اور بریلوی مفتیوں کے زریعے بدترین کردار کشی کی گئی اور پھر نواز شریف کے جب سعودی عرب سے تعلقات استوار ہو‏ئے اور 97ء میں وہ طقت کے نشے میں چور ہوئے تو آہستہ آہستہ بریلوی علماء و مشائخ کی جگہ دیوبندی اور اہلحدیث مولویوں نے لے لی اور صاحبزادہ فضل کریم کے شہر میں ہی ان کے مقابلے میںرانا ثناء اللہ اور سپاہ صحابہ پاکستان کے سپریم کونسل کے چئيرمین ضیاء اللہ اور ان کا بیٹا زاہد راشدی کے ہاتھوں صاحبزادہ فضل کریم کو ذلیل کروایا
، ضاحبزادہ فضل کریم شہباز شریف اور نواز شریف کے سپاہ صحابہ اور طالبان سے اتحاد پہ سخت خفا تھے اور انھوں نے مشرف کے زمانے سے شریف برادران سے دوری اختیار کرنا شروع کی جو 2008ء میں آکر مکمل دوری میں بدل گئی اور پھر صاحبزادہ فضل کریم اپنے انٹرویوز میں نواز شریف کی محسن کشی کی بہت سی کہانیاں سنائیں۔
ضاحبزادہ فضل کریم کا بیٹا ضاحبزادہ حامد رضا اپنے والد کو نواز برادران کی جانب سے قتل کرائے جانے کا الزام لگاتا ہے وہ کہتا ہے ان کے والد کو ہسپتال میں زہر دے کر مارا گیا۔ وہ رانا ثناء اللہ پہ پنجاب مں مزارات پہ خودکش حملوں کے سہولت کار ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔ طاہر القادری کا خیال ہے کہ وہ اور اس کے بیوی بچوں کو نواز-شہباز-رانا ثنااللہ –
سابق آئی جی رانا مقبول قتل کرانے کی سازش میں شریک رہے ہیں ۔ ویسے میآں عباس شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ جس رائے کا اظہار کررہے تھے اور وہ نواز شریف و شہباز شریف س نالاں تھے توایک دن اچانک وضو کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جو ان کی موت ہوئی اس پہ بھی انگلیاں اٹھی تھیں۔ مولانا خادم رضوی جیسے مولویوں کو نواز -شہباز نے ایک عرصہ تک پی پی پی کے خلاف استعمال کیا اور خود بریلویوں کی مذہبی -سیاسی جماعت جے یو پی کے خلاف استعمال کیا اور پھر ان کی گردنوں پہ جہادی دہشت گرد مسلط کردیے ، کل تک وہ شہروں میں اور دیہاتوں میں غالب تھے اور پھر ان کی مساجد اور مدرسوں پہ قبضے ہونے لگے اور وہ جدید اسلحے سے لیس جہادیوں کے مقابلے میں کچھ نہ کرسکتے تھے پھر نواز شریف جب ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کو اپنی ذاتی وفادار بنانے کیے مشن پہ نکلا تو نواز شریف کے متاثرہ یہ گروہ اسٹبلشمنٹ کے نواز شریف کے وفادار نہ بننے والے غالب اسٹبلشمنٹ گروہ کے ساتھ ہوگئے۔
نواز شریف نے جامعہ نظامیہ لاہور کے مولوی خادم رضوی، فیصل آباد میں محدث اعظم پاکستان سردار احمد رضوی کے پوتے حامد رضا سمیت اپنی وفاداری سے انکار کرنے والوں کے خلاف انتظامیہ کو استعمال نہ کرپانے پہ مجبور ہوکر ان کے خلاف ڈان میڈیا گروپ ، جنگ میڈیا گروپ سمیت بڑے بڑے لبرل کلغی والے پریس سیکشن کو استعمال کیا یہ وہ پریس سیکشن ہے جو نوے کی دہائی سے جہادیوں اور فرقہ پرستوں دہشت گردوں کے نواز شریف کے ساتھ سٹرٹیجک اتحاد کے خلاف تو کافی سرگرم نہ ہوا تھا لیکن اس نے تحریک لبیک ، سّی اتحاد کونسل اور طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک کے خلاف محاذ کھول دیا ۔ نوازشریف کا لبرل اینٹی اسٹبلشمنٹ امیج کی تعمیر پہ مامور یہ ٹولا مذہبی انتہا پسندی کی نئی تعریف سامنے لیکر آیا اور وہ یہ تھی کہ جو نواز شریف کا وفادار ہو وہ جمہوریت کا رکھوالا چاہے وہ فضل الرحمان ہو یا احمد لدھیانوی ہو یا ساجد میر ہو ۔۔۔۔۔۔ جو نہیں وہ تکفیری بھی ہے اور مذہبی دہشت گردبھی۔ پی پی پی کا جو صوفی یا اعتدال پسند مولوی ساتھ دے جیسے حامد سعید کاظمی وہ حاجیوں کے پیسے کھاجانے والا کرپٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف اب اینٹی اسٹبلشمنٹ کی بھی نئی تعریف وضع کرچکے ہیں جو سیاسی جماعت اس کو اپنا مائی باپ مانے اور اس ے ذاتی اقتدار کے لیے تن من دھن ایک کردے وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ اور جو اس کی برابر کی اتحادی ہونے اور جمہوری بالادستی کے سوال پہ اپنی عقل اور تجربے سے کام لے وہ اسٹبلشمنٹ نواز ٹھہرجاتی ہے۔ احسان فراموشی اور کینے و انتقام سے بھرا نواز شریف بار بار اپنے محسنوں کو ڈس لیتا ہے اور اپنے ڈسنے کی فطرت کو "اصول پسند سیاست” کہلوانے پہ مصر ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

About The Author