حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، اے این پی کے دونوں پارٹیوں کو کسی ایسے سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنناچاہیے جس میں دائیں بازو کی جماعتیں ہوں۔
پیپلزپارٹی اور اے این پی اپنے اساسی نظریات کی بنیاد پر بائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ وفاقی اور سنٹرل لبرل سیاست بہت ہوگئی دونوں کو اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔
اس ملک میں سیاسی حریف ہی دو ہیں دائیں اور بائیں بازو کے ہم خیال۔
سیاسی اتحاد یقیناً وقتی ضرورتوں پر بنتے ہیں یہ فطری اور غیرفطری کی بحث محض کج بحثی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نظریاتی طور پر ہم خیال جماعتوں کا سیاسی اتحاد مختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد کے مقابلہ میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی ہمارے آج کی ضرورت ہے۔
علاقائی طور پر تیزی سے آتی تبدیلیاں ہوں یا خود داخلی مسائل دونوں ترقی پسند سیاست کے احیا کی متقاضی ہیں۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد میں مختلف فرقوں کی انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے والی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) ظاہر ہے کہ دائیں بازو کی جماعت ہے مذہبی جماعتوں کے مقابلہ میں نسبتاً قابل قبول ہے پھر بھی اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اس جماعت نے دائیں بازو کی سیاست کرنی ہے یا اعتدال پسند جماعت کی۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دائیں بازو اور سنٹرل لبرل کے نظریات نے اس ملک کو مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ ایک روشن خیال جمہوری مملکت اور معاشرے کی تشکیل نواز بس ضروری ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سے دائیں بازو کی فہم کے حاملین سیاسی منظرنامے پر قابض ہیں اس دورانیہ میں تین قوتوں نے قدرے ترقی پسند سوچ کا مظاہرہ کیا۔
پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم نے۔ اب اگر ہم اسی دورانیہ کے معروضی حالات اور سازشوں پر غور کریں تو یہ تینوں طالبان گردی کا شکار ہوئیں۔
مثال کے طور پر 2013ء کے انتخابات کو لے لیجئے ان انتخابات کی انتخابی مہم میں طالبان نے اعلانیہ طور پر ان تین جماعتوں کو جلسے کرنے سے منع کردیا تھا۔
ساعت بھر کے رک کر ایک بات سمجھ لیجئے ایم کیوایم کی تشکیل کا پس منظر اور نتائج دونوں سے اختلافات کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مضبوط موقف اپنائے رکھا۔ ثانیاً یہ کہ اب وقت آگیا ہے بہت سارے معاملات کا تجزیہ مستقبل کی رہنمائی کے لئے کیا جائے نہ کہ تعصب کے بڑھاوے کے لئے۔
صحافت اور سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی مختلف الخیال نظریات والی جماعتوں کا اتحاد بنا اس کے دو نقصان ہوئے اولاً اس سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی اور یہ کہ محفوظ راستہ حاصل کرنے میں کامیاب ثانیاً یہ کہ چونکہ نظریاتی ہم آہنگی نہیں تھی اس سے ہم خیالی کو فرغ ملنے کی بجائے اختلافات اور نفرتوں میں اضافہ ہوا۔
آپ ماضی کی مثالوں پر غور نہ بھی کریں تو موجودہ صورتحال کو دیکھ لیں۔ مثلاً پی ڈی ایم کے قیام سے قبل نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان جو اعتماد سازی ضروری تھی وہ نہیں ہوپائی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جے یو آئی (ف) نے صرف ایک شخص کی نفرت میں سیاسی حکمت عملی کو غیرضروری سمجھتے ہوئے وہ لائن لی جو سیاسی اتحادوں کی سیاست میں سب سے آخر میں لی جاتی ہے تیسری اہم بات یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) تحریک انصاف کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلنے کو سیاست کی ضرورت سمجھتی ہے۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ نون لیگ اس صورتحال میں جے یو آئی پر واضح کرتی کہ سیاسی عمل میں مذہبی جذبات بھڑکانے کی حکمت عملی غیرضروری ہے۔
یہاں پھر ایک بار ہمیں 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد پی این اے کی تشکیل اور بنیادی مطالبات پر غور کرنے کے ساتھ یہ بھی سمجھناہوگا کہ جس سیاسی اتحاد کے 32 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ میں اسلامی نظام کے حوالے سے ایک نکتہ تک نہیں تھا اس اتحاد کی تحریک خالص مذہبی جذبات پر منظم ہوئی اس کا نتیجہ تیسرے مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔
درحقیقت یہی سمجھنے والی بات ہے۔ ایسے میں ضروری بات یہ ہوگی کہ خود پی ڈی ایم (اگر اسے موجودہ صورت میں ہی برقرار رکھنا ہے) یہ اعلان کرے اس میں شامل جماعتیں مذہتی کارڈ نہیں کھیلیں گی۔
دوسری صورت وہی ہے جو ابتدائی سطورمیں عرض کی۔ یہی کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو آگے بڑھ کر ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کا ایک اتحاد بنانے پر غور و فکر کرناچاہیے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستانی فیڈریشن اصولی طور پر پانچ قومیتی فیڈریشن ہے۔ مذہبی جماعتیں ترقی پسند فہم اور مقامی قومی شعور کے خلاف منظم ہوتی ہیں ان کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہونے کا مطلب انہیں وسیع پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جس سے ماضی میں بھی مسائل پیدا ہوئے اور مستقبل میں بھی ہوں گے۔
ایک ترقی پسند اتحاد یقیناً طویل اور پرعزم جدوجہد کے ذریعے ہی رائے عامہ کو ہم خیال بناپائے گا لیکن یہ حقیقت یہی ہے کہ ملک جن داخلی اور خارجی مسائل سے دوچار ہے ان سے نجات کا حقیقت پسندانہ ایجنڈا ترقی پسند سوچ کی حامل جماعتیں اور اتحاد ہی پیش کرسکتا تھا۔
مختلف الخیال جماعتوں کا اتحاد ماسوائے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور اسٹیبلشمنٹ کو وقتی طور پر محفوظ راستہ دینے کے کوئی خدمت نہیں کرسکتا جبکہ ہمارے آج اور اگلی نسلوں کی ضرورت یہ ہے کہ رجعت پسندی اور سنٹرل لبرل کے مقابلہ میں ترقی پسندی کو رواج دیا جائے تاکہ استحصال زدہ طبقات کے ساتھ انتہا پسندی سے زخم خوردہ طبقات کو بھی پلیٹ فارم مل سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر