ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامریڈ ڈاکٹر لال خان نے ایک بار کہا تھا کہ اس نظام میں اقتدار کے حصول کے لیئے ہر قسم کی سودا بازی کی جاتی ہے ۔اور اسے قائم رکھنے کے لیئے ضمیر ، اصول اور نظریات بازار میں نیلام کیئے جاتے ہیں ۔اس بحران زدہ نظام زر کی سیاست کا یہی اصول ، طریق کار اور یہی لائحہ عمل ہے اور جب تک یہ نظام قائم ہے حکمران طبقات کے جعلی تضادات اور معاہدوں کی منافقت عوام کو برباد کرتی رہے ۔ڈاکٹر لال خان نے جو کہا وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہا ہے ۔اس نظام زر میں ہر طرح کی سودے بازی جاری ہے۔
بلا شک وشبہ عہد حاضر کے حالیہ بازار مصر میں ضمیر ، اصول اور نظریات ارزاں نرخوں پر برائے فروخت ہیں۔اب تو بازار میں مندے کا یہ عالم ہے کہ ان بے سروپا اور بے معنی چیزو کے خریدار بھی دستیاب نہی ہیں۔کیسی بے بسی اور بے وقعتی ہے کہ اپنے نظریات کو نیلام کرنے والے شہر اقتدار میں مارے مارے پھر رہے ہیں آوازیں لگا رہے ہیں ، بیچ بازار اونچی آواز میں نرخ بتا رہے ہیں مگر گاہک نہیں مل رہا۔شو مئی قسمت گاہک اگر دستیاب بھی ہے تو بازار میں مندی اس قدر ہے کہ من پسند نرخ نہیں مل رہے۔
بے روزگاری ، مہنگائی اور غربت وافلاس کا شکار عوام حکمران طبقات کے مفادات کی جنگ میں لقمہ اجل بنتی جارہی ہے۔حکمران طبقے میں طاقت ، اقتدار اور اختیار کی اس خون ریز لڑائی میں اخلاقی قدروں کا ، اصولوں کا اور نظریات کا قتل عام ہورہا ہے ۔بقا کی اس جنگ میں اپنے ضمیر کی بھی نہیں سنی جارہی ۔کیا زندگی اتنی ضروری ہے کہ اس کے لیے نظریات اورا پنے آدرش قربان کردئیے جائیں ۔ہر عہد کو توڑ دیا جائے ہر وعدے کو وعدہ خلافی کی قربان گاہ پر بے دردی سے زبح کردیا جائے ۔
آخر ایسا کیا ہے اس حکمرانی میں کہ ہر کوئی اس کی خاطر اپنی انسانی قدریں بھی ہارنے کو تیار ہے۔سب کچھ ہار کے بھی اقتدار پایا تو کیا پایا۔اور ایسا ہی کچھ عہد حاضر میں ہوا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ امور مملکت چلانے کے اہل ہیں بھی یا نہیں محض اقتدار کے حصول کے لیے اپنی ہی کہی گئی ہربات سے اور کیئے گئے ہر وعدےسے منہ موڑ لیا گیا۔مسند نشیں اور اس کے حواریوں سے کیا گلہ کریں کم وبیش یہی صورتحال محل سے باہر شور مچاتی حزب اختلاف کی بھی ہے۔گویا محل کے اندر اور باہر ایک جیسا شور ایک جیسی ابتری ہے
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں ، ہمارے چاہنے والے بھی اسی عذاب میں ہیں۔اگر پہلے حکومت کا جائزہ لیں تو کل تک اپنے اڑن کھٹولے پر سوار حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والا آج اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ہی سوال کرتا ہوا ملا کہ مجھے دیوار سے کیوں لگایا جارہا ہے ۔میری وفاداری پر شک کیوں کیا جارہا ہے۔دہائی دی کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔
کوئی اس قابل “ترین” سے پوچھے کہ اس سے پہلے انصاف کس کے ساتھ ہوا ہے کہ اب انصاف ہوگا۔تاریخ گواہ ہے کہ بے اصولی اور نا انصافی کی اونچی فصیلوں کی تعمیر میں دن رات ایک کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں کو اجرت طلب کرنے پر ان ہی اونچی فصیلوں سے نیچے پھینک دیا گیا۔زندانوں میں قید کردیا گیا اور تو اور ہاتھ تک کاٹ دئیے گئے۔ان حالات میں انصاف ملتا نہیں خریدنا پڑتا ہے مگر ستم یہ کہ خریدنے کی سکت بھی نہیں رہی کہ اکاونٹ ہی بند کردئیے گئے۔
لہذا بچت اسی میں ہے کہ طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے سرتسلیم خم کردیا جائے ۔جو کہا جائے اس پر من وعن عمل کیا جائے جہاں روکا جائے وہیں پر ڈیرے ڈال دئیے جائیں اور جب کوچ کا حکم ہوتو سفر شروع کردیا جائے۔ویسے بھی جب غدر جیسی صورتحال کا سامنا ہوتو اولین فریضہ جان بچانا ہی ہوتا ہے ۔اور موجودہ سیاسی غدر میں جان بچی سو لاکھوں پائے جیسا محاورہ ازبر ہوتو اچھی بات ہے۔
کم وبیش ایسی ہی صورتحال حزب اختلاف کو بھی درپیش ہے ۔محتلف الخیال سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں کہ حکومت کو گرانا ہے ۔الزام یہ تھا کہ حکومت کو عوام نے نہیں کسی اور نے منتخب کیا ہے ۔اسی بنا پر حکومت کوتسلیم نہیں کرتے ۔لہذا بڑے زور وشور سے پاکستان جمہوری تحریک شروع ہوئی ۔اس میں شامل سیاسی قائدین نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے ۔ہاتھ اس لیے نہیں پکڑے کہ کسی کو سہارا دینا مقصود تھا شائد ہاتھ اس لیئے پکڑے تھے کہ کوئی آگے نا نکل جائے ۔کہتے ہیں کہ شک کے جنگل میں اعتماد کے گلاب نہیں بے وفائی کے ببول اگا کرتے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوااور حزب اختلاف کا اتحاد عملی طورپر اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہے
عصر حاضر کی سیاست میں قحط الرجال کا دور چل رہاہے۔برسراقتدار عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور حزب اختلاف عوام کو ریلیف دلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔مدعا یہ کہ ایوان میں موجود دونوں دھڑے ہی ناکام ہوئے ۔اور باوجود اس ناکامی کے عوام کی غربت کے نام پر بستور تماشہ جاری ہے۔وہی غربت جس کو دور کرنے کے دعوے کرتے کرتے سیاست دانوں کی اپنی غربت دور ہوگئی۔اگر نہیں بدلے تو غریب کے دن نہیں بدلے۔
رہی بات مسند نشین کے قریب “ترین”ساتھی کی تو پریشانی کی کوئی بات نہیں فی الوقت وہ مکافات عمل کا شکار ہے۔پیشہ کے اعتبار سے ایک اچھا ماڈرن کاشتکار ہے اس لیئے کل جو بویا تھا آج وہ کاٹ رہا ہے۔تیار فصل اٹھا لے تو پھر سے ان ہی کھیتوں میں پرانی اجرت پر کام کرئے گا۔ویسے بھی دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ گاوں کا چوہدری کام کرنے والے کاشتکارکوکبھی ضائع نہیں کرتا۔
برائے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر