حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ’’محبوب‘‘ وزیراعظم فرماتے ہیں، صبر کیجئے، مہنگائی کو کنٹرول کرلیں گے۔ ان سے پوچھنا یہ تھا کہ اگر دوران صبر بندہ دنیا سے ہی نکل جائے تو اس کے لواحقین کے لئے کیا حکم ہے؟
کیونکہ انہیں تو پرسہ دینے والے بندے کے ’’نکل لینے‘‘ کو امرِ ربی کہہ کر دلاسہ دے رہے ہوں گے۔ حالانکہ یہ امرِ ربی سے زیادہ حالات کی ستم گیری ہوگی۔
اچھا ویسے اتوار کے روز ’’عوام‘‘ سے ٹیلیفون کالز پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے انقلاب فرانس اور ایرانی انقلاب میں اتاری گئی گردنوں کا ذکر بھی کیا۔
ڈرتے ڈرتے یہ پوچھنا بھی بنتا ہے بندہ پرور! جناب کا پروگرام کیا ہے بھوک سے مارنے کا یا گردنیں اتارنے کا؟
یہ بھی ارشاد ہوا مہنگائی زیادہ نہیں ہے وینزویلا اور دیگر ممالک کو دیکھیں۔
جی بالکل حضور ہم وینزویلا اور دوسرے ممالک دیکھنا چاہیں گے پاسپورٹ احساس پروگرام سے بنوادیجئے، ویزے اور کرائے کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ پھر آپ ہمیں جاتا اور کبھی واپس نہ آتا ضرور دیکھیں۔
پتہ نہیں کسنے آپ کو امید دلائی تھی حالات ٹھیک کرنے کی، غالباً ان اڑھائی تین سو ماہرین کے تھنک ٹینک نے جو آپ کو اقتدار ملنے کے فوراً بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے؟
فقیر راحموں کہتے ہیں کوئی جائے اور بنی گالہ شریف میں قیام پذیر وزیراعظم کوبتائے کہ حضور گھبراہٹ موت کے جھٹکوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ان جھٹکوں کو بھی برداشت کرنا ہے یا ’’چُپ چپیتے‘‘ نکل لیناہے؟
ایک وقت تھا جب موجودہ وزیراعظم عمران خان کہا کرتے تھے مجھے اقتدار ملا تو 90دن میں سب ٹھیک کرکے گاڑی درست سمت پر ڈال دوں گا۔ 90دن اڑھائی برسوں سے آگے نکل رہے ہیں گاڑی اور سمت کا کچھ پتہ نہیں۔
جان لیوا مہنگائی سب کچھ برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ویسے کسی دن وزیراعظم چند لمحات نکال کر یہ ضرور سوچیں کہ تنخواہ اور مراعات میں اگر ان کا گزارا نہیں ہوتا تو ایک دیہاڑی دار کیسے گزربسر کرے موجودہ حالات میں۔
ایک بات اور، یہ جس صبروشکر کا درس عوام کہلاتی رعایا کو دیا جاتا ہے اس صبروشکر پر کبھی مشورہ دینے والے بھی عمل کرتے ہیں یا یہ صرف عوام پر فرض ہے؟
’’بیوروکریسی کے پرانے حکمرانوں سے رابطے ہیں‘‘ مان لیا، آپ اڑھائی برسوں سے کیا کررہے ہیں؟
رہا کشمیر کا مقدمہ ہر فورم پر لڑنے والی بات کا تو مہنگائی سے نڈھال بلکہ بے حال لوگوں کو اس ٹرک کے پیچھے نہ دوڑائیں۔
نوازشریف بیماری کا دھوکہ دے کر ملک سے باہر گیا۔ کیا آپ نے پنجاب کی وزیر صحت۔ شوکت خانم لیبارٹری کے عملہ اور ڈاکٹر فیصل سلطان سب کو برخاست کردیا؟ یہی تو بیماری کی تصدیق کررہے تھے اور آپ خود بتارہے تھے کہ کابینہ نے نوازشریف کی رپورٹوں پر غور کیا میں نے ذاتی طور پر بیماری کے بارے میں چھان بین کروائی پھر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کے لئے بیرون ملک جانے دیا۔
اس طور تو آپ بھی ذمہ دار ہیں نوازشریف کے باہر جانے کے۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ آپ اس شخصیت کا نام بتادیئے قوم کو جس نے ٹیلیفون کرکے آپ سے کہا ’’نوازشریف کو جانے دو‘‘۔
پرانوں کی کرپشن پر چلیں جب عدلیہ ساتھ دے لڑلیجئے گا ابھی تو یہ بتادیجئے کہ آپ کے پیاروں نے جو کرپشن کی اس پر آپ نے کیا کارروائی کی؟
زبانی جمع خرچ اور دعوے کارروائی نہیں ہوتے صاحب۔ اتوار کے روز عوام سے لائیو ٹیلیفون کالز پر باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر اور اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بھی جوابات دیئے۔
کیا ان کے علم میں ہے کہ وہ اور ان کے منہ لگتے وزیر شیخ رشید گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی باتیں جس تواتر سے کررہے ہیں اس سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ’’حل‘‘ ہوچکا اب بس لوگوں کو بہلایا جارہا ہے ایسا نہیں تو پھر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی باتیں کیوں، یہ تو تنازع کشمیر کا حصہ ہے۔ کیا اسے صوبہ بناکر پاکستان بھارت کے 6اگست 2019ء کے اقدام کے برابر نہیں آن کھڑا ہوگا؟
جناب وزیراعظم !
اگر برا نہ منائیں تو چند دن بیانات دینے اور پچھلوں کی چوریاں گنوانے کی بجائے ذرا اپنے حصہ کا کام بھی کرلیجئے۔
یہ تو آپ کو پتہ ہی ہوگاکہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اڑھائی برسوں کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں کمی لانے کی کوشش کیجئے۔
یہ جو آپ کہتے ہیں نا ’’بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ اب یہ سن کر بھی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔
ویسے تو ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اس ابدی سچائی سے ہمیں آگاہ کیا کہ سکون صرف قبر میں ہے مگر اس کا کیا کریں کہ 25 سو 3ہزار والا کفن اب 6-5 ہزار میں آتا ہے۔ قبر کھدائی کا ریٹ بڑھ چکا۔ مہنگائی کی وجہ سے سوئم، دسویں اور چہلم کے اخراجات میں بھی منہ توڑ اضافہ ہوا ہے۔
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ سوئم، دسواں اور چہلم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سوئم، دسویں اور چہلم پر ہی گوشت کھاتے ہیں۔
جناب وزیراعظم!
آخری بات یہ ہے کہ اگر ہوسکے تو ہمیں تقریروں اور پچھلوں پر لگائے جانے والے الزامات سے بہلانے کی بجائے اب اصلاح احوال کے لئے کچھ کیجئے تاکہ کچھ تو سکھ کا سانس لیں ہم، البتہ مہربانی کیجئے گا صبروشکر کا درس بالکل نہ دیجئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر