نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا، حکومت اور عوام||سارہ شمشاد

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عوام سے کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں کورونا کیسز میں اضافہ تشویشناک ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عوام سے کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں کورونا کیسز میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ماسک کے حوالے سے ملک گیر مہم چلائی جانی چاہیے۔ وطن عزیز میں کورونا کے بڑھتے ہوئے وار نے سب کو پریشان کررکھا ہے اور ہر کوئی اپنے تئیں اس نگوڑے وائرس سے پیش آنے والی مشکلات کی بات کرتا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اپنی اس قومی ذمہ داری کو بھی محسوس کرے ۔ماہرین صحت چیخ چیخ کر ملک بھرمیں لاک ڈائون کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان جیسا غرب ملک کسی طور بھی لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کورونا کے بڑھتے ہوئے وار روکنا حکومت کے ساتھ عوام کا بھی فرض ہے لیکن سڑکوں، بازاروں میں عوام کے رش دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ پاکستان بدترین کورونا کا شکار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ برطانیہ نے بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈال دیا ہے جس پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے وزارت خارجہ سے اس ضمن میں نظرثانی کرنے کا بجا مطالبہ کیا ہے کیونکہ برطانیہ اس وقت خود بدترین کورونا کی لہر کا شکار ہے ایسے میں اسے پاکستان سے برطانیہ جانے والوں پر پابندی لگانے بارے ضرور غور کرنا چاہیے تاہم جہاں تک یہ سوال ہے کہ کورونا کی لہر میں شدت کیونکر آرہی ہے تو اس کی بڑی وجہ خود ہی ہیں جو اس نازک موقع پر کسی قسم کی احتیاط نہیں کررہے بلکہ بعض لوگ تو ایسے ہیں جو کورونا کو یہودوہنود کی سازش بڑھتی ہوئی اموات کو دیکھ کر بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس قسم کی ذہنی سوچ رکھنے والوں کے لئے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔یہ حکومت کی بھی کمزوری ہے کہ وہ کورونا کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے اپنی رٹ قائم کرنے میں خود بھی بڑی حد تک ناکام رہی ہے۔ حقیقت خود ہمارے وزراء اور سیاستدان سماجی تقریبات میں کورونا ایس او پیز کی دھڑلے سے دھجیاں اڑاتے ہر وقت نظر آتے ہیں اسی لئے تو عوام بھی کورونا کی تیسری اور جان لیوا لہر کو سنجیدہ لینے کے لئے ہی تیار نہیں۔ لاہور اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر مقدمات کے اندراج کا احمقانہ فیصلہ کیا بلکہ بعض علاقوںمیں تو لوگوں کو پکڑ کو تھانوں میں بند کردیا گیا جہاں 20سے 25 افراد کو ایک ساتھ لاک اپ میں بند کرکے خود ہی کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑائیں اب کوئی انتظامیہ سے پوچھے کہ اگر پکڑے جانے والے کسی شخص کو کورونا ہو تو وہ لاک اپ میں بند تمام لوگوں میں کورونا وائرس منتقل کرنے کا باعث ہوگا یا نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے جراثیم تھانے کے عملے میں بھی منتقل ہونے کے امکان کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ جب وہ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی یا ناکوں پر جائیں گے تو وہ خود بھی وائرس کے پھیلائو کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستانیوں کی ذہانت کی پوری دنیا معترف ہے مگر ہماری انتظامیہ کے دماغوں کو شاید زنگ لگ گیا ہے اسی لئے تو اس قسم کے بچکانہ فیصلے کرکے خود بھی کورونا کے پھیلائو کا باعث بن رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے موقع پر ہر روز عوام کو تازہ ترین صورتحال سے اپنی ٹیم کے ہمراہ آگاہ کرتے تھے مگر افسوس کہ اس مرتبہ وہ خود کورونا کا شکار ہوگئے تو ان کی ٹیم نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنے میں عافیت جانی اور اب جب کورونا کے کاری وار عوام پر سخت تر ہوتے جارہے ہیں تو لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت دیگر کئی اضلاع میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح میں خوفناک اضافہ ہونے کے باوجود اگر عوام اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں تو حکومت پر لازم ہے کہ وہ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائے اس کے لئے ضروری ہے کہ فی الفور ایک صدارتی آرڈیننس مفاد عامہ کے لئے جاری کیا جائے جس میں ماسک نہ پہننے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے اور وہ جرمانہ ان سے اسی وقت وصول کیا جائے۔ آخر برطانیہ اور دیگر ممالک نے بھی شہریوں سے قوانین پر عملدرآمد کروایا ہے تو ایسے میں حکومت اور انتظامیہ دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے کیونکہ خالی خولی بیانات سے اب مزید کام نہیں چلایا جاسکتا۔ حکومت اس ضمن میں کونسلرز سے بھی مدد طلب کرسکتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں کسی قسم کے سیاسی یا سماجی گٹھ جوڑ کو روکیں اور عوام سے ایک ذمہ ادر شہری کی طرح اپنے قومی فرائض ادا کرنے کی اپیل کریں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کسی صورت لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا خاص طور پر اس وقت جب تنگدستیٔ حالات کے باعث لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بھوک سے بلکتے ہوئے اپنے بچوں کے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لئے لوگ ہاٹ پاٹ چوری کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سب کے باوجود اگر عوام اپنی حالت پر رحم کرنے کے لئے تیار نہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کورونا وبا کے باعث کاروباری طبقہ پہلے ہی پریشان حال ہے خاص طور پر چھوٹا تاجر جس کے گھر کا خرچ ہی دیہاڑی پر چلتا ہے تو اب ہفتہ میں دو روز کاروباری مراکز بند ہونے سے ان کے گھروں کی کیا صورتحال ہوتی ہوگی، اس کا تصور ہی محال ہے۔ بلاشبہ عوام کو بھی کاروباری مراکز کی بندش سے پریشانی کا سامنا ہے تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال کوئی قابل عمل پالیسی کاروباری معاملات کے حوالے سے کیونکر نہیں بنائی گئی اور اس میں کوئی خاص راکٹ سائنس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کو اپنی نااہلی کا کھلے دل سے اعتراف درج ذیل حقائق کو پڑھنے کے بعد ضرور کرنا چاہیے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک ایک ہزار میں سے کتنے لوگوں کو کورونا ویکسین لگی تو کچھ یہ اعدادوشمار سامنے آتے ہیں کہ ہندوستان میں 30، بنگلہ دیش میں 33، نیپال میں 55، سری لنکا میں 40، افغانستان میں 2 اور پاکستان میں صرف ایک فیصد ہے۔ یہ تلخ حقائق پاکستان میں صحت کے انصاف کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کورونا ویکسین کی خریداری میں گڑبڑ گھٹالے کی خبریں شائع ہونے کے باوجود بااثر اور طاقتور طبقے کو کورونا ویکسین لگائی جارہی ہے جس کا اعتراف وفاقی وزیر اسد عمر خود یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ پاکستان میں ایک نہیں دو قوانین ہیں اور یہ نگوڑے قانون صرف غریب ہی کے لئے لاگو ہوتے ہیں کیونکہ یہ اچھوت اور کمی کمین ہیں۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کورونا سے نمٹنا صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ عوام کو بھی اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے بصورت دیگر ان پر جرمانے عائد کرنے چاہئیں کیونکہ مقدمات کے اندراج کا مطلب ہے کہ معاملات کو کھوہ کھاتے ڈال دیا جائے۔ کاروباری مراکز بند ہونے سے وطن عزیز کو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت نے کبھی عوام کو اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی ریلیف ان کی خستہ حالی کا علم ہونے کے باوجود فراہم نہیں کیا بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط بلاچوں چراں مان کر ان کے دکھوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پر لازم ہے کہ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کی طرح تیسری لہر سے نمٹنے کے لئے خود آگے آئیں کہ قومی اتحاد سے بھی اس وبا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایران، بھارت سمیت دیگر کئی یورپی ممالک میں کورونا کی چوتھی لہر آچکی ہے اور یہ پچھلی کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ہے۔ کورونا کی چوتھی لہر اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آزمائش ابھی لمبی ہے۔ ادھر ایک برس سے جنگی کیفیت سے نبردآزما ہمارے فرنٹ لائن ورکرز بھی کورونا کی تیسری لرہ کی تباہ کاریوں سے نڈھال ہوچکے ہیں اور خود کو تھکا ہوا محسوس کررہے ہیں اور ہسپتال مریضوں سے بھرے ہونے کے باعث عوام سے احتیاط کی ہاتھ جوڑ کر اپیل کررہے ہیں۔ دوسری طرف کورونا کے کاری وار ملکی معیشت کو دیوار سے لگاچکے ہیں۔ ایسے میں 22کروڑ عوام پر لازم ہے کہ وہ اب خود کو کورونا کے ساتھ رہنے کا عادی بنائیں تاکہ معیشت اور کاروبارِ زندگی ساتھ ساتھ چل سکیں اور ایسا صرف اسی صورت ہوگا جب حکومت، عوام سب ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اوریہی وقت کا تقاضا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author