مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویکسین: رسد کم طلب زیادہ مگر گھبرانا نہیں || نصرت جاوید

مسلم لیگ (نون) کے اعظم نذیر تارڑ اس ضمن میں رضا مند نظر نہیں آئے۔ یوسف رضا گیلانی کو انہوں نے حکومت سے ’’تحفے‘‘ میں ملے سینیٹروں کی بدولت قائد حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے کا طعنہ دیا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرونا سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین کے حوالے سے میری کہانی ابھی انجام کو نہیں پہنچی۔ گزرے جمعہ کی شام اسے لگانے کے سرکاری بندوبست والے خود کار نظام کی بدولت مجھے اپنے فون نمبر پر ایک کوڈ نمبر وصول ہوگیا۔ ہدایت یہ بھی تھی کہ قومی شناختی کاڈ سمیت کوڈ والے پیغام کو اپنے گھر کے نزدیک کسی ویکسین سنٹر پر دکھائو اور ٹیکہ لگوالو۔ مذکورہ پیغام مجھے ایک ماہ کے ا نتظار کے بعد ملا تھا۔ طویل انتظار نے میرے کئی مہربان دوستوں کو پریشان بھی کیا۔ بہرحال پیغا م مل گیا تو ارادہ باندھا کہ پیرکے دن ویکسین لگوالی جائے گی۔

پیر کی صبح نسبتاََ تاخیر سے اُٹھا۔ ناشتے کے بعد کالم لکھنا شروع ہوگیا۔ اسے دفتر بھجوادیا تو خیال آیا کہ سینٹ کا اجلاس بھی ہو رہا ہے۔ اس کی کارروائی کا مشاہدہ ضروری ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی ایوان بالا میں بطور قائد حزب اختلاف تعیناتی اس ضمن میں میری دلچسپی کا حقیقی سبب تھی۔ حکومتی بنچوں نے جس انداز میں ان کی تقرری اور ایوان میں ہوئی پہلی تقریر کو سراہا وہ میرے لئے خوش گوار حیرت کا باعث بھی ہوا۔

مسلم لیگ (نون)کے اعظم نذیر تارڑ نے مگر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ 12مارچ کے دن چیئرمین سینٹ کے ا نتخاب کے لئے مقابلہ گیلانی صاحب اور صادق سنجرانی کے مابین ہوا تھا۔ پولنگ سے چند لمحے قبل سینیٹر مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ماہر جاسوسوں کی طرح ہال میں نصب چند کیمرے دریافت کرلئے۔ انہیں فضا میں لہراتے ہوئے اصرار کرتے رہے کہ ان کی تنصیب کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ ہر معاملہ پر نگاہ رکھنے والے صاحبان کو بآسانی علم ہوسکے کہ کونسے سینیٹر نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔

12مارچ 2021کے دن پاکستان کے ایوان بالا میں خفیہ کیمروں کی دریافت نے لیکن ایسا قضیہ کھڑا نہیں کیا۔ تھوڑے شور شرابے کے بعد سینٹ چیئرمین کے انتخاب کے لئے پولنگ شروع ہوگئی۔ اس دوران گیلانی صاحب کی حمایت میں ڈالے 7ووٹ غلط انداز میں مہر لگانے کی بناء پر مسترد قرار پائے اور یوں صادق سنجرانی منتخب ہوگئے۔ اپوزیشن نے دھاندلی کی دہائی مچائی۔ اپنی فریاد لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی۔ معزز عدالت نے تاہم ’’پارلیمانی کارروائی‘‘ میں مداخلت سے انکار کردیا۔

1985سے وجود میں آنے والی ہر پارلیمان کی کارروائی کو رپورٹ کرتے ہوئے مجھے کامل یقین تھا کہ ’’نئے‘‘ سینٹ کے پہلے اجلاس کے دوران یوسف رضا گیلانی صاحب بطور قائد حزب اختلاف 12مارچ 2021 کے دن پاکستان میں نمودار ہوئے’’واٹر گیٹ‘‘ کی بابت دہائی مچائیں گے۔ وہ مگر انتہائی فراخ دلی سے مذکورہ واقعہ کو فراموش کرچکے تھے۔ بیشتر وقت انہوں نے بلکہ یہ یاد دلانے میں صرف کیا کہ وہ 1985 سے قومی اسمبلی کے کئی بار رکن منتخب ہوئے تھے۔ 1993سے 1996تک قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے ہیں۔ 2008 کے انتخاب کے بعد ہمارے وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے۔ ہر عہدے کو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لئے استعمال کیا۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف ہوئے بھی وہ ایسا ہی رویہ برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ’’سب کو ساتھ‘‘ لے کر چلنا چاہیں گے۔ حکومت اور ا پوزیشن کے مابین ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں جو پارلیمان کو ’’وقار‘‘ فراہم کرے۔ لوگوں کو یہ پیغام دے کہ یہاں خلق خدا کے بنیادی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اپنی کشادہ دلی کو پرخلوص ثابت کرنے کیلئے انہوں نے احمد فراز کی لکھی ایک بہت پرانی غزل بھی پڑھی اور یوں ان دنوں ضرورت سے زیادہ تلخ رویہ اختیار کرنے والے فرزند احمد فراز کا جی لبھانے کی کوشش کی۔

ڈاکٹر وسیم شہزاد صاحب ایوانِ بالا میں حکومت کے نامزد کردہ قائد ایوان ہیں۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کا روپ دھارے اپوزیشن رہ نمائوں کا نہایت حقارت سے نام لیتے ہیں۔ ان کے حامی سینیٹروں کو ’’ذہنی غلام ‘‘ پکارتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کی تقریر نے مگر انہیں بھی خوش گفتار بنادیا۔ یہ بات یاد دلانا مگر نہیں بھولے کہ اپوزیشن جماعتوں کو پی ڈی ایم نامی اتحاد میں محض چھ ماہ گزارنے کے بعد دریافت ہوگیا ہے کہ عمران خان صاحب کو ’’گیدڑ بھبکیوں‘‘ سے گھر بھیجا نہیں جاسکتا۔ اپوزیشن کے لئے اب بہتر یہی ہے کہ سرجھکا کر پارلیمان میں عمران حکومت کو انتخابی اور عدالتی اصلاحات کے لئے قانون سازی میں معاونت فراہم کرے اور 2023 کے انتخاب کا انتظار کرے۔

مسلم لیگ (نون) کے اعظم نذیر تارڑ اس ضمن میں رضا مند نظر نہیں آئے۔ یوسف رضا گیلانی کو انہوں نے حکومت سے ’’تحفے‘‘ میں ملے سینیٹروں کی بدولت قائد حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے کا طعنہ دیا۔ 12مارچ 2021 کے روز ہوئے ’’واٹر گیٹ‘‘ کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) اب ایک دوسرے پر طنزکے نشر برسایا کریں گے۔ اس ’’خبر‘‘ کے عیاں ہونے کے بعد تین بجے کے قریب میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچ گیا۔

وہاں کے مرکزی دروازے پر تعینات اہل کاروں نے لیکن مجھے بتایا کہ کرونا سے بچائو کی ویکسین لگوانے سے قبل ٹیلی فون کے ذریعے وصول ہوا کوڈ نمبر دکھانے کے بعد ایک ٹوکن حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ٹوکن حاصل کرنے کے لئے صبح ساڑھے سات بجے سے ڈیڑھ بجے کے درمیان ہسپتال پہنچنا لازمی ہے۔ جن لوگوں نے بروقت ٹوکن حاصل کرلیا تھا انہیں تین بجے بھی ویکسین لگائی جارہی تھی۔

خود کو ویکسین لگوانے کے فیصلے کو لہٰذا میں نے ایک دن کے لئے مؤخر کردیا۔ گھرلوٹتے ہوئے مگر صحافیانہ تجسس نے مجبور کیا کہ F-10 میں واقع اس سینٹر کا جائزہ بھی لیا جائے جو ایک نجی ہسپتال میں قائم ہوا ہے۔ اس سینٹر میں بھی ٹوکن کا حصول صبح نو بجے سے ایک بجے کے درمیان ممکن تھا۔ منگل کے دن یہ کالم لکھتے ہی ٹوکن کے حصول کے لئے گھر سے نکل جائوں گا۔

حکومت کی جانب سے ویکسین والی مفت سہولت سے فائدہ اٹھانے سے قبل میں نے ارادہ یہ بھی باندھا تھا کہ روس سے درآمد شدہ ایک اور ویکسین کو اپنے پلے سے بارہ ہزار روپے خرچ کرکے لگوالیا جائے۔ ہمارے کئی Celebrity دوستوں نے یہ ویکسین لگوالی ہے۔ اسے لگوانے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کے قابل افراد کو یہ ویکسین ازخود لگوالینا چاہیے۔ یوں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مفت ویکسین زیادہ سے زیادہ ’’مستحق‘‘ افراد کے کام آئے گی۔

Celebrityدوستوں نے جو پیغام دئیے وہ حیران کن حد تک مؤثر ثابت ہوئے۔ مسئلہ مگر اب یہ ہوگیا ہے کہ طلب رسد کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔اس حوالے سے قائم ہوئے ایک سینٹر کے باہر جمع ہوئے ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لئے منتظمین کو پولیس بھی بلوانا پڑی۔ نجی شعبے میں قائم ایک بہت بڑے شفاخانے کو روسی ویکسین کی فقط 600 ڈوز ملی تھیں۔ ان کے ہاں مگر بارہ ہزار سے زائد افراد خود کو یہ ویکسین لگوانے کے لئے رجسٹرڈ کرواچکے ہیں۔ اپنے پلے سے رقم خرچ کرنے کو تیار بے تحاشہ افراد کوبھی لہٰذا آئندہ کئی ہفتوں تک نئی رسد کا انتظار کرنا ہوگا۔ اپنے ذاتی تجربے سے میں نے خوب جان لیا ہے کہ عمران حکومت نے ویکسین کے وافر اور بروقت حصول کا مؤثر نظام تیار نہیں کیا۔ کرونا کی تیسری لہر سے عوام کی اکثریت گھبرا گئی تو مذکورہ نظام کا کھوکھلا پن بے نقاب ہورہا ہے۔ہمیں مگر یہ حکم ہے کہ ’’گھبرانا نہیں‘‘۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: