رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر شعیب عتیق خان، پروفیسر اور ڈاکٹر بننے سے پہلے کے دوست تھے ۔اب وہ اردو زبان و ادب کے استاد اور باریش مرشد ہیں۔پچھلے دنوں انھوں نے ملتان کے بارے میں ایک دلسوز تحریر لکھی۔نرم و نازک تحریر ، ہیرے کا جگر کاٹتی ہے۔ یہ کالم ان کی تحریر ہے!
"زیادہ دور کی بات نہیں، میرے ایک جدی پشتی لاہوری دوست فرما رہے تھے کہ "لاہور میں ویسے کوئی شخص سرائیکی بولے تو ہم اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن لاہور کی ماتمی مجالس میں جب سرائیکی زبان میں مرثیہ خوانی کی جاتی ہے تو ہماری ہچکیاں بندھ جاتی ہیں”۔ساتھ بیٹھے ایک اور دوست بولے "آ پ لاہور کی بات کرتے ہیں، لندن میں بھی سننے والا مرثیہ صرف سرائیکی ہوتا ہے۔” میں نے کہا سرائیکی شاعر مرثیہ رسمی طور پر نہیں بلکہ اپنی روح کی پیاس بجھانے کے لیے لکھتے ہیں اور یہی کیفیت مرثیہ خواں کی ہوتی ہے۔شہادت امام حسین رضہ کی تلمیح کے پردے میں وہ اپنے لوگوں کے مسلسل قتل پر روتے ہیں۔سانحہ کربلا میں وہ ان سانحات کو دیکھتے ہیں جو روزانہ ان کے اردگرد وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آس پاس کئی زندہ یزید دیکھتے ہیں۔ تاریخ نے انہیں رقیق القلب بنا دیا ہے۔ان کی روحوں کا کرب ہے جو انھیں رونے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ روتے ہیں اور رلاتے ہیں۔یہی رقت اور کرب سرائیکی مرثیہ سننے والے غیر سرائیکی لوگ بھی محسوس کرتے ہیں چاہے وہ لاہور میں ہوں یا لندن میں۔ رونے کے ساتھ ساتھ سرائیکیوں کے ساتھ ایک اور چیز بھی جڑی ہوئی ہے۔وہ چیز بزرگوں کے مزارات ہیں۔وہ مزاروں پر بھی منتیں مانتے ہیں اور روتے ہیں۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس ساری تمہید کا ملتان کا مرثیہ لکھنے سے کیا تعلق ہے؟ ملتان زندہ ہے۔ پانچ ہزار سال بلکہ اس سے بھی پہلے سے زندہ ہے۔اس وقت سے زندہ ہے جب ابھی تاریخ نے آنکھ نہیں کھولی تھی۔ ملتان زمین پر آباد ہونے والے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کے ہم عصر سینکڑوں شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، ملتان زندہ ہے۔ ملتان پر کس کس نے طاقت آزمائی نہیں کی؟ طاقت آزما مٹ گئے مگر ملتان زندہ ہے۔ ملتان میں بلا کی کشش ہے۔ صرف فاتحین نہیں، دنیوی جاہ وجلال سے بے نیاز اللہ والے بھی اس کی طرف کھچے چلے آئے اور اپنی نشانیاں، مراکز تجلیات چھوڑ گئے۔ جو اللہ والے ملتان کو اپنا مسکن نہ بنا سکے، ان کے لیے بھی اپنے مسکن(لاہور) کے تعارف کے لیے ملتان کا حوالہ ” یکے از مضافات ملتان ” کے طور پر نا گزیر تھا۔ "ست آبی” کا مان، ملتان ایک وسیع و عریض سلطنت تھا جس کی حدود ایک طرف جالندھر اور دوسری طرف سمندر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ملتان وادئ سندھ کا نام تھا۔ ملتان، قدیم پاکستان تھا۔آج بھی پاکستان کا مرکزی نقطہ ملتان ہے۔”
"یہ سب ماضی کی یادیں ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ جب تک بقا(survival) کی جنگ کچھ طے شدہ عمرانی اصولوں کے تحت لڑی جاتی رہی، ملتان زندہ رہا۔ جب اقتدار کی ہوس نے اقدار کو قصہ ماضی بنا دیا، جب عمرانی اصولوں کی جگہ بے اصولی نے لے لی تو ملتان ہارتا چلا گیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ملتان ہار چکا ہے۔اپنوں کی مفاد پرستی، خود غرضی،منافقت اور مکاری نے ملتان کو ایسے گہرے گھاؤ لگائے ہیں کہ اس کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ چھوٹے بھائی کی ایذا رسانی اسے مارتی ہے۔ ستر برس سے اس کا خون چوسا جا رہا ہے۔ اس کے ہر طرف نوآبادیاتی تعلیمی پالیسی ، کٹھور افسر شاہی اور صوبائی صدرمقام کی خون نچوڑنے والی بوتلیں لگی ہوئی ہیں۔ وہ محض کڑنگھا (ہڈیوں کا ڈھانچہ)رہ گیا ہے ۔ اپنی سانسیں گن رہا ہے۔ غیروں کے لگائے زخم برداشت ہو سکتے ہیں اپنوں کے گھاؤ نہیں ۔بات صرف چھوٹے بھائی سے علیحدگی کی بھی نہیں کہ ایسا ہوتا رہتا ہے۔یہ آئینی اور قانونی بات ہے۔ بھارتی پنجاب کے تین صوبے بن چکے ہیں۔ یہاں تو سرے سے بڑے بھائی کی شناخت مٹانے کی سازش کی جارہی ہے۔پہلے تیر والوں نے دھوکا دیا پھر شیر والوں نے دغا کیا اور بلے والوں نے تو انتہا کردی۔ملتان کے احسانات کا بدلہ ملتان کو زندہ درگور کرنے کی سازش کی صورت میں دے رہے ہیں۔جیسے ملتان سے کوئی انتقام لیا جا رہا ہے۔ اور وہ سوداگر، جن کی ساری دکان داری "ست آب” دھرتی کے راگ پر چل رہی ہے،کہاں ہیں ؟اس دھرتی کو شاید اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے۔اس نے صرف مفاد پرست،ابن الوقت،مکار، دھوکے باز پیدا سیاست کار پیدا کیے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں کون ہے جو صرف اور صرف "ست آب” دھرتی کے لیے سیاست کرنے کی جرات و اہلیت رکھتا ہے؟ کون ہے جو اس کے ساتھ کھڑا ہوا ہے؟ کون اس کو دلاسہ دینے کو تیار ہے؟ اس ناقابل برداشت توہین، تذلیل،بدتمیزی پر کوئی قابل ذکر جلسہ؟ کوئی بڑی ریلی ؟ کوئی کامیاب ہڑتال ؟ کوئی پہیہ جام ؟ اور کچھ نہیں بھوک ہڑتال ہی سہی؟ اب آپ ہی بتائیں، ملتان پر کیا گزری ہے؟ اب بھی اس کے اندر زندہ رہنے کی خواہش کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ملتان کے گیلانی، قریشی، ہاشمی،رانے،مخدوم ، بوسن، ڈیہڑ سب مر گئے۔ خانیوال کے ڈہے ، سید، مظفرگڑھ کے کھر، دستی، ہنجرا، قریشی،سید، گوپانگ، جتوئی، سب مر گئے۔لیہ کے جکھڑ، میرانی،اولکھ مرگئے۔ ڈی جی خان کے لغاری،کھوسے، راجن پور کے مزاری، دریشک ، سب مر گئے۔ عوام ؟ وہ تو ان رہزنوں کے مزارعے ہیں۔ انھیں صرف مرثیے لکھنے اور مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے کے لیے کبھی کبھی زندہ ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تاج محمد لنگاہ یہ منظر دیکھنے سے پہلے مرگیا۔ شوکت مغل بھی اس منظر نامے کو برداشت نہ کرسکا۔دو سب سیکرٹریٹ بننے سے پہلے سب مر گئے تھے۔ مارنا چاہتے ہو تو پورا مارو، زندہ لاش کے ساتھ مذاق تو نہ کرو۔ توہین وتذلیل کی اس کیفیت میں "ست آب” دھرتی کے مان، ملتان کے لیے زندہ رہنا بہتر ہے یا مرنا؟ ڈوب مرنے سے ہمیں ملتان کی لاش مل جائیگی اور جنازہ؟ مجھے یہ کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ "آئیں، ملتان کا جنازہ پڑھیں”۔ مسئلہ یہ ہے کہ اول تو سرکار کبھی بھی جنازے کے اجتماع کی اجازت نہیں دے گی۔ دوسرے جنازہ ہمارا مسئلہ بھی نہیں۔ ہمیں تو مزار چاہئیں ۔خلق خدا کو منتوں مرادوں کے لیے ایک اور دربار ، رونے کے لیے نیا ولولہ اور شعراء کو ایک اور موضوع ۔ سب سے بڑھ کر ہمارے رہنماؤں کو ایک اور گدی میسر آجائے گی۔اس طرح اسلام آباد اور لاہور میں واقع ان کے بنگلوں میں ان کی زندگی مزید خوش گوار ہو جائے گی۔اس کے بر عکس کسی نے اگر طفل تسلیاں دے کر ملتان کو زندہ رہنے پر آمادہ کرلیا اور وہ بھی اس دوست نما دشمن کی باتوں میں آگیا تو پھر یاد رکھیں ملتان کو "مسنگ پرسنز” میں شامل کر دیا جائے گا۔ہم نہ صرف اس کی لاش اور مزار سے بلکہ مرثیے کے نئے موضوعات، منتوں ، مرادوں، رونے کے نئے ولولے سے بھی محروم کئے جا سکتے ہیں”
پروفیسر صاحب ، تاریخ کی منطق مگر عجیب ہے۔آج کربلا میں ایک شہر آباد ہے مگر دشت_ کربلا کی تلمیح کے گرد اشک آلود آنکھوں کی فصیل پر چراغاں رہتا ہے۔ حکمرانوں نے ملتان کو زندگی کی المیاتی کیفیات کا استعارہ بنا دیا ہے اور استعارے کو موت نہیں ہے۔لوکائی کے دل میں بسا ملتان گیلانی قریشی ہاشمی کی جدلیات سے ماورا مظلومیت کا استعارہ ہے۔یزیدیت کی نفی اور حسینیت کے اثبات سے ملتان سدا آباد رہے گا!
یہ بھی پڑھیے:
امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر
ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر