وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے نصف صدی سے بھی اوپر جس ماحول میں ہوش سنبھالا اس میں ہر بچہ ابا کو آپ اور اماں کو کبھی آپ، کبھی تم اور زیادہ لاڈ چڑھنے پر ’تو‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ ابا کے سامنے زبان کھولنے سے پہلے ہر بچے کو موزوں الفاظ اور پروٹوکولی جملوں کے بارے میں دس بار سوچنا پڑتا تھا۔
جبکہ اماں سے بن داس کہا جا سکتا تھا کب کھانا دو گی، اتنا کیوں ڈانٹتی ہو، بہت دنوں سے تو نے گڑ کے چاول نہیں بنائے، ایک روپیہ دے ورنہ سکول نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔ کبھی تھپڑ پڑ جاتا تو کبھی گال پر چٹاخ سے ماں کا بوسہ۔ آج ساٹھ کا ہونے لگا ہوں مگر اماں سے یہی لفظیاتی عقیدتی رشتہ ہے۔
بالکل یہی پروٹوکول مقدس ترین ہستیوں پر بھی لاگو تھا۔ نبی کا اکہرا نام لینا بے ادبی شمار تھا۔ انھیں اللہ کے پیغمبر، رسولِ اکرم، کالی کملی والا، رحمت العالمین کہہ کر پکارا جاتا تھا اور آخر میں کبھی دل میں، کبھی سرگوشی میں اور کبھی بلند آواز میں صلی اللہ علیہ وسلم ضرور کہا جاتا تھا۔
اہلِ بیت اور صحابہ و صحابیات کا نام لیتے ہوئے بھی آداب و احتیاط ملحوظ رہتے تھے۔ قرآن شریف جزدان میں باندھ کر اوپر رکھا جاتا تھا۔اسے باوضو یا کم ازکم ہاتھ دھو کر رحل پر رکھ کے پڑھا جاتا اور پھر چوم کر واپس جزدان میں کس کے اوپر دھر دیا جاتا۔
مگر جس نے یہ کائنات تشکیل دی، پیغمبر اور الہامی کتابیں اتاریں اس ہستی کا تصور کرتے ہوئے، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے، شکوہ کرتے ہوئے وہی پروٹوکول مستعمل تھا جو ماں کے لیے ہے۔
اللہ، اللہ میاں، او اللہ، اوپر والے، آپ، تم، تو۔ میرا یہ کام کب تک کرو گے، کیا مجھے بھول گیا، تو جواب کیوں نہیں دیتا۔ ٹھیک ہے آئندہ میں بھی کچھ نہیں مانگوں گا وغیرہ وغیرہ۔
محلے کی مسجد میں جمعے کی تقریر کرنے والا مولوی احمد دین منبر پر بیٹھ کے رسول اللہ کا نام آتے ہی انگلیاں چوم کر آنکھوں سے لگانا نہیں بھولتا تھا مگر اللہ کا ذکر ایسے کرتا جیسے اگلی گلی میں رہنے والے کسی بے تکلف دوست کی بات ہو۔
مولوی احمد دین کی زبانی میں نے پہلی بار یہ قصہ بھی سنا کہ حضرتِ موسی علیہہ سلام نے ایک بار دیکھا کہ ایک گڈریا زور زور سے خود کلامی کر رہا ہے۔ ’اے مالک میرا مہمان کب بنے گا۔ میں تجھے بکری کا تازہ دودھ پلاؤں گا، تیرے پاؤں دباؤں گا، تیرے سر سے جوئیں نکالوں گا، تیل لگاؤں گا، بال سنواروں گا، بیمار ہوا تو جڑی بوٹیوں کا شربت لاؤں گا، تجھے سیر پر لے جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔‘
حضرت موسی نے گڈریے سے پوچھا تو کس سے باتیں کر رہا ہے ؟ اس نے کہا اپنے خدا سے۔ حضرت موسیٰ نے کہا اے جاہل، خدا ان تمام چیزوں سے بلند ہے۔ خدا سے ادب سے بات کرتے ہیں وہ ہم سب کا بادشاہ ہے۔ گڈریا یہ سن کر چپ ہو گیا اور دور نکل گا۔
جب حضرت موسیٰ خدا سے ہمکلام ہونے کوہِ طور پر پہنچے تو خدا نے موسی سے کہا کہ آج تو نے میرے دیوانے کا دل توڑ دیا۔ تجھے کیا ضرورت تھی اسے مشورہ دینے کی۔ اس کا محبت جتانے کا اپنا انداز ہے، مجھے اس کے دل کی حالت پتا ہے یا تجھے؟ جا اس گڈریے کو ڈھونڈھ کر منا۔
حضرت موسی الٹے پاؤں چلے آئے۔ بہت مشکل سے گڈریے کو تلاش کیا، دل دکھانے پر معافی مانگتے ہوئے کہا یہ تیرا اور تیرے خدا کا معاملہ ہے۔ مجھے اس کا ادارک نہیں ہو سکتا۔
مولوی احمد دین ہر چار پانچ ماہ بعد یہ قصہ ضرور کسی نہ کسی بہانے جمعے کی تقریر میں شامل کر دیتے۔
پہلی بار ممتاز مفتی کا سفرنامہ لبیک پڑھا اور کعبے کے لیے کوٹھے کا استعارہ اور اللہ سے آنکھ مٹکے کی بات دیکھ کر چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا مگر پھر مولوی احمد دین کا سنایا ہوا موسی اور گڈریے کا قصہ یاد آ گیا۔
مجذوب وتایو فقیر کا وہ قصہ بھی پہلی بار سن کر میں ایسے ہی اچھل پڑا تھا جو عمر کوٹ کے مولوی ارباب نیک محمد نے بیان کیا تھا۔
ہوا یوں کہ وتایو اپنی گائے کے لیے جو چارہ اکٹھا کرتا اسے ہمسائے کا گدھا کھا جاتا۔ ایک دن وتایو نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر گدھے کے مرنے کی دعا مانگی۔ اگلی صبح وتایو نے دیکھا کہ اس کی گائے مری پڑی ہے اور ہمسائے کا گدھا آس پاس ٹہل رہا ہے۔
وتایو ایک نابینا کو پکڑ لایا اور اس کا ہاتھ گائے کی لاش پر رکھ کے پوچھا بتا یہ گدھا ہے کہ گائے۔ نابینا نے لاش کو تفصیل سے ٹٹول کر کہا سائیں یہ تو گائے ہے۔ وتایو نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا میں نے گدھے کے مرنے کی دعا مانگی تو نے میری گائے مار دی۔ اندھے کو بھی گائے اور گدھے کا فرق پتا ہے۔
آج اگر نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب کوئی فرد یا گروہ ہی ہم سب کا فیصلہ کرے گا کہ کس لقب، جملے یا قصے یا بات سے خالق کی دل آزاری ہوتی ہے اور اللہ کو ماں سے زیادہ مہربان اور دوستوں سے بھی زیادہ دوست کے منصب سے اٹھا کر ایک شہنشاہ کی سنہری کرسی پر ہیبت سے لرزتے درباریوں کے سامنے ہی بٹھانا ہے تو پھر کیوں نہ ان گستاخوں کا سب لکھا بھی جلا دیا جائے۔
کیسا کعبہ، کیسا قبلہ، کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یاں سے سلام کیا (میر)
کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لیے بنائی
تا چڑھ ملا بانگ دے کیا بہرہ ہوا خدائی (کبیر)
دل خوش ہوا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے (غالب)
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو (اقبال)
راتیں جاگیں کریں عبادت، راتیں جاگدے کتے، تیتھوں اتے
بلھے شاہ کوئی رخت وہاج لے، نہیں تے بازی لے گئے کتے تیتھوں اتے
جب سے میں نے سندھی ادب کی آبرو امر جلیل پر خدا کی توہین کا الزام سنا ہے تب سے سوچ رہا ہوں کہ ماں ہو کہ خدا، مخلوق اپنے خالق کی توہین کرنا بھی چاہے تو کیسے ممکن ہے؟ والدین اور خدا کو معزول کرنا کس مائی کے لعل یا لعلی کے بس میں ہے؟
انسان کا خدا سے من و تو کا رشتہ ختم کرنے کا مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے میں اپنی ماں کو آج شام سے محترمہ یا ہر ایکسلینسی کہہ کر پکاروں۔ سوچو میری دماغی حالت کا سوچ کر ماں کے دل پر کیا گزرے گی ؟
میں ہمیشہ خدا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تو نے انسان کو ہر شے سے نوازا، کیا کچے کان دینا بھی ضروری تھا؟
اے اللہ آج کے بعد نادان نصرت فتح علی خان کو بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنا جو یہ گاتے گاتے مر گیا:
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو (ناز خیالوی)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر