حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے کچھ دوستوں (اہل صحافت و دانش) کا المیہ یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے خلاف اپنی نسلی نفرت کو آزادیء اظہار میں ڈھانک کر دانش کے موتی رولتے ہیں اور کچھ کا خمیر جماعت اسلامی سے اٹھا ہے وہ آج بھی 1970ء کی دہائی میں جی رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اس کی قیادت، کارکنان اور ہمدرد اسی سرزمین کے باشندے ہیں۔ ہماری اور آپ کی طرح انسان ہی ہیں فرشتے ہرگز نہیں، خوبیوں خامیوں میں گندھے ہوئے انسان۔
ان سے اختلاف جرم ہے نہ ان پر تنقید کفر۔ مجھ سے طالب علم کے نزدیک اختلاف و تنقید اگر شائستگی کے ساتھ ہو تو ماحول پراگندہ نہیں ہوتا۔
اسی طرح نون لیگ کی قیادت کارکنان اور ہمدرد بھی اسی سرزمین سے ہیں فرشتے وہ بھی نہیں نہ فرشتوں نے تحریک انصاف میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں بلکہ اس میں آجکل نمایاں ترین (آپ جہانگیر ترین نہ سمجھ لیجئے گا) وہ لوگ ہیں جو پہلے نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں ہوتے تھے۔
اب تحریک انصاف میں ہیں کل کا کس کو پتہ کہاں ہوں گے۔
اگر کسی کو پتہ ہے تو صرف وہ شخص ہے جو ٹیلیفون پر جماعت بدلنے اور حب الوطنی بچانے کا مشورہ دیتا ہے۔
تمہید طویل ہوگئی عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ میں کسی سیاستدان کو ملک دشمن، غدار یا کچھ اور کہنے کے حق میں کبھی نہیں رہا۔
ہم اور آپ نے کون ساحب الوطنی چیک کرنے والا تھرمامیٹر بنارکھا ہے۔
سیاستدانوں کو بھی سوفیصد حق ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کریں بس غداری کے تمغے اچھالنے اور بازاری زبان استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ہمارے جن چند اہل صحافت و دانش کو آجکل سول سپرمیسی کا ’’ہڑ‘‘ آیا ہوا ہے وہ ایک وقت میں جنرل ضیاء الحق کی جہادی محبت کے اسیر تھے پھر جنرل پرویز مشرف کی روشن خیالی کے۔
فقیر راحموں کے بقول ان خواتین و حضرات کو صرف پیپلزپارٹی سے خداواسطے کا بیر ہے، کیوں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کچھ کا نسلی معاملہ ہے اور کچھ کا خمیر پی پی پی سے نفرت سے گندھا ہوا ہے۔
پاکستانی صحافت کی تاریخ سے آگاہ لوگ ان صاحبان کمال سے بخوبی واقف ہیں جنہوں نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالنے والے جنرل ضیاء الحق کو محمود غزنوی ثانوی قرار دیتے ہوئے پاکستان کے لئے آخری امید کہا تھا۔
بات اصل موضوع سے کچھ دور نکل گئی۔ اصل قصہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف اس کے قیام والے دن سے آج تک جتنا منفی پروپیگنڈہ ہوا اتنا شاید ہی کسی جماعت کے خلاف ہوا ہو۔
یاد کیجئے 1970ء کے انتخاب سے قبل 27 علماء کا وہ فتویٰ جس میں کہا گیا تھا
’’پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے والوں کا نکاح فسخ ہوجائے گا‘‘۔ ایک صاحب ہوتے تھے مولانا عبدالقادر آزاد، انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے شرطیہ کفر کا فتویٰ دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کو بھی کفر قرار دیا تھا۔
پیپلزپارٹی جیسے حالات کا کچھ عرصہ نون لیگ نے بھی گزارا۔ ذرا 2018ء کے انتخابات سے قبل کے دنوں کو یاد کیجئے۔ کیسے لوگوں کے مذہبی جذبات نون لیگ کے خلاف بھڑکائے گئے اسے ووٹ دینا حرام قرار دیا گیا۔ اس کے قائدین پر حملے ہوئے۔
آپ یاد کیجئے اے این پی کہلانے والی جماعت کے ماضی کو تب سے یاد کرنا شروع کیجئے جب یہ نیپ تھی یا اس سے قبل جب خدائی خدمت گار کا تعارف تھا۔ کیسے کیسے نابغوں نے اس کے نظریات اورقیادت بارے درفطنیاں چھوڑیں۔
برا نہ منائیں تو دو باتیں عرض کردوں پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدان اور ان کے حامی انسان ہیں اسی لئے غلطیاں بھی کرتے ہیں البتہ انہوں نے غداری کبھی نہیں کی بلکہ جان پر کھیل کر ملک کے لئے جدید میزائل ٹیکنالوجی ضرور فراہم کی۔
فرشتے غلطیاں نہیں کرتے۔
اچھا یہ آسمانی فرشتوں کی بات ہے کہیں زمینی پنڈی وال فرشتوں کی نہ سمجھ لیجئے گا۔
دوسری بات یہ ہےے کہ سیاستدانوں کو باہمی اختلافات میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے ہمدردوں کو بھی سمجھانا چاہیے۔ کیوں کہ ان کے عدم تحمل کے مظاہروں کا فائدہ وہ اٹھاتے ہیں جو کرائے کے گوریلوں اور کھمبیوں کی طرح اؑگ آئے تجزیہ کاروں کے ذریعے پچھلے کئی عشروں سے یہ پروپیگنڈہ کروارہے ہیں کہ سیاستدان سب سے بڑی برائی ہیں
اور ’’یہ‘‘ اچھائی کا صاف ستھرا نمونہ۔
معاف کیجئے گا آپ غالباً خود کو بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا محسوس کرنے لگے ہیں۔یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ابتدائی سطور میں بات کہاں سے شروع کی اور کہاں پہنچادی۔
میں عرض کرتا ہوں یہ جو نسلی بنیادوں پر یا ضیاء الحقی فکر پر پیپلزپارٹی کے مخالف ان دنوں سول سپرمیسی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں انہیں سول سپرمیسی یا شریف خاندان سے کوئی محبت نہیں یہ نون لیگ کی آڑ میں اپنا اپنا ساڑ نکال رہے ہیں۔ یہی بات سمجھنے والی ہے۔ آزاد اظہار کے ان تازہ علمبرداروں نے مصیبت کے کتنے دن بسر کئے؟
حرفِ آخر یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سب کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے تو پھر ہمارے اہل صحافت اور اہل دانش کو بھی اپنا اپنا کام ہی کرنا چاہیے، تجزیہ و تنقید ان کا حق ہے بس فتوے اچھالنے اور نسلی بغض نکالنے سے گریز کریں یہ ان کی صحت اور آزادی اظہار دونوں کے حق میں بہتر ہے۔
اہل صحافت اور اہل دانش کو سیاسی جماعتوں میں فساد برپا کروانے کی بجائے اس امر کے لئے کوشش کرنی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں جو بھی اور جیسی بھی ہیں جمہوریت کے اصلی دشمنوں کے مقابلہ میں متحد رہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر