حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر لگ رہا تھا کہ پی ڈی ایم کے دو بڑی اتحادی جماعتوں پی پی پی اور نون لیگ کے کارکنان تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ دونوں کی قیادتوں نے صبروتحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے اجتناب کیا جائے۔
کارکن تو شاید کسی حد تک اپنی قیادتوں کی بات مان جائیں لیکن ساتویں آسمان کی بلندی پر کھڑے ہمدردوں کی بدزبانیاں کون بند کروائے گا۔ یہ سوال اہم ہے۔
جس شام یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس کی صبح جاتی امراء لاہور میں پی ڈی ایم ناشتہ پر جمع تھی۔ ناشتے کی دعوت ہلکے پھلکے اجلاس میں بدل گئی۔ سیاستدان جہاں اکٹھے ہوں اجلاس بن ہی جاتا ہے۔ اس ناشتہ نما اجلاس میں مریم نواز اور پی پی پی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کے درمیان نوک جھونک بھی چلتی رہی۔
جاتی امراء کے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کے وقت فریقین کے گھوڑے اسلام آباد میں دوڑ رہے تھے اسی سپہر سینیٹ چیئرمین کے دفتر سے سید یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔
گیلانی کی تائید میں سینیٹ کے 30ارکان نے دستخط کئے جبکہ نون لیگ کی طرف اس منصب کے لئے نامزد سینیٹر اعظم تارڑ 21 ارکان کی تائید حاصل کرپائے۔ مولانا فٗضل الرحمن کی جے یو آئی ف نے اپوزیشن لیڈر کے لئے کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔
یہ حیران کن بات ہے حالانکہ مولانا دو دن قبل یہ کہہ چکے تھے کہ
’’اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہوگا پی ڈی ایم کا مشترکہ فیصلہ ے‘‘
عجیب بات ہے کہ ان کی جماعت مشترکہ فیصلے کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ یہ دوسرا موقع ہے جب مولانا نے ایسی بات کہی جو پی ڈی ایم میں طے نہیں ہوئی تھی۔
پہلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل استعفے دینے کا فیصلہ ہوچکا تھا پھر کہا اکثریتی فیصلہ ہے۔ انہیں یاد کروایا گیا کہ پی ڈی ایم میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہونا طے پایا تھا اکثریت سے نہیں۔ اس بات کا وہ برا مناگئے۔
اب صورت یہ ہے کہ گیلانی پر پہلی پھبتی احسن اقبال نے کسی اور اس کے بعد نون لیگ کا سوشل میڈیا سرگرم ہوگیا پھر ہمدردان میدان میں کودے سب کو یاد آگیا کہ بھٹو نے پاکستان توڑا تھا۔
کیا نون لیگ قومی مجرم نہیں بن گئی کہ اس نے دوبار پاکستان توڑنے والی پارٹی سے سیاسی اتحاد کیا۔ ایک بار وفاق میں اس کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی۔ پنجاب میں بھی اس کے ساتھ مل کر 2008ء میں حکومت بنائی تھی۔
ملک توڑنے والی پارٹی کے سابق وزیراعظم کو پی ڈی ایم کا سینیٹ کے رکن اور چیئرمین کے عہدے کے لئے امیدوار تسلیم کیا؟
سیاسی تربیت سے خالی اسیران جمہوریت و سول سپرمیسی پچھلے چند گھنٹوں سے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کی ایسی ایسی ’’خوبیاں‘‘ بیان کررہے ہیں جو خود پی پی پی اور بھٹو خاندان کے علم میں بھی نہیں۔
ہمارے دوست ’’استاد جی‘‘ کا بس نہیں چل رہا کہ وہ پوری پیپلزپارٹی کو نشتر پارک میں جمع کرکے ایٹم بم ماردیں۔
ویسے کڑوا سچ یہ ہے کہ نون لیگ جیسی عالمگیر جماعت کو چاہیے کہ وہ پیپلزپارٹی جیسی علاقائی جماعت سے سیاسی اتحاد ختم کرکے اپنے 24کروڑ سوشل میڈیا مجاہدین کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد پر چڑھائی کردے۔24کروڑ نصف جن کے 12کروڑ ہوتے ہیں جب راولپنڈی اسلام آباد پہنچیں گے تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوگی۔
قبل ازیں بھی ان سطور میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ سیاسی اتحاد فطری یا غیرفطری نہیں ہوتے، وقت، حالات اور مسائل اشتراک عمل پر آمادہ کرتے ہیں۔
مثلاً پی این اے کی وہ جماعتیں جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی سہولت کار تھیں جب ایم آر ڈی نامی اتحاد میں پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھیں تو اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو اور مولانا مفتی محمود دونوں کی گفتگو سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔
ایم آر ڈی میں تحریک استقلال کے اصغر خان بھی شامل تھے ان سے ایک قومی جرم سرزد ہوا تھا کہ انہوں نے 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران مسلح افواج کے سربراہوں کو مارشل لاء لگانے کے لئے خط لکھا اس خط میں کہا تھا ’’آپ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ فاشسٹ حکومت کو برطرف کرکے ملک میں جمہوریت بحال کرائیں‘‘۔
نون لیگ پہلی بار اے آر ڈی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھی۔ یہ اتحاد مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی کوششوں سے اس وقت قائم ہوا تھا جب جنرل پرویز مشرف نون لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرچکے تھے۔
اے آر ڈی میں شمولیت سے قبل پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاوس کراچی میں مخدوم امین فہیم کی صدارت میں ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی آراء بذریعہ ٹیلیفون سنٹرل کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ اس اجلاس میں پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کے پنجاب اور پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اے آر ڈی میں شمولیت پر تحفظات ظاہر کئے۔
1988ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیان نون لیگ کی دو حکومتوں کے پیپلزپارٹی سے برتاو اور بالخصوص 1988ء سے اگست 1990ء کے درمیان آئی جے آئی کے غلاظت بھرے پروپیگنڈے کا حوالہ دیا (نون لیگ آئی جے آئی میں شامل تھی)
اختتامی تقریر میں جو محترمہ بینظیر بھٹو نے ٹیلیفون کے ذریعہ کی کہا
’’ساتھیو میں آپ کو ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت محترمہ بیگم نصرت بھٹو کی گفتگو یاد دلاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گی ہم بحالی جمہوریت کے لئے سیاسی اتحاد میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اس اتحاد میں ہماری شمولیت ہی پچھلے گیارہ برسوں کے غلیظ پروپیگنڈے، الزامات اور مقدمات کا جواب ہوگا‘‘
محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ بھی کہا کہ
’’ہم سیاسی لوگ ہیں سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے کا سیاسی میدان میں مقابلہ ہوتا ہے‘‘۔
بالآخر پیپلزپارٹی نے نوابزادہ نصراللہ خان کو اے آر ڈی میں شمولیت کے لئے رضامندی دے دی۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ کے دو اتحادوں کے قیام اور پس منظر بارے معروضات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نون لیگ کو بھی سیاسی رویہ اپنانا چاہیے اور اپنے ہمدردوں کی تربیت بھی کرنی چاہیے۔
سیاست میں احسانات نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو پھر اے آر ڈی اور پی ڈی ایم میں نون لیگ کے ساتھ بیٹھنا پیپلزپارٹی کا احسان ہے کیونکہ جو گالی جمعہ کی سپہر سے نون لیگ کے حامی پیپلزپارٹی کو دے رہے ہیں اس کا جواب گالی میں دینے کی بجائے سیاسی آراء کا اظہار ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلزپارٹی خامیوں کے باوجود سیاسی جماعت ہے۔
نون لیگ کو سیاسی جماعت بننے میں ابھی وقت لگے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر