نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بگائی محل دیرہ اسماعیل خان کا نوحہ||حیدر جاوید سید

بنیادی سوال یہ ہے کہ ڈیرہ انتظامیہ، ڈائریکٹر آرکیالوجی و میوزیم کے تحریری حکم نامے ’’بگائی محل کی مسماری روکی جائے‘‘ پر عمل کیوں نہ کرواسکی۔ کیا قبضہ گروپ ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر سے زیادہ طاقتور ہے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے دوست عباس سیال کی یہ بات درست ہے کہ ’’بگائی محل ڈیرہ اسماعیل خان‘‘ سرائیکی قوم کی تاریخی نشانی ہے۔ تاریخی ورثے قوموں کی شناخت ہوا کرتے ہیں‘‘۔
میرا دل کرتا ہے کہ عباس سیال سے کہوں اصل سے کٹے کم اصل اور ہوس زر میں مبتلا تاریخ اور ورثوں کے نہیں دولت اور اختیارات کے پجاری ہوتے ہیں۔ بس پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ ایک طالب علم ایک دانش مند سے زیادہ نہیں جانتا۔
عباس سیال ہو یا ںسعید اختر سیال دونوں ہماری وسوں کے روشن چہرے ہیں۔ ان روشن چہروں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیبی و تاریخی شناخت ’’بگائی محل‘‘ کو منہدم کئے جانے پر احتجاج کیا تو قبضہ گروپ ان کے درپے ہوگیا۔
سعید اختر کے خلاف تو قبٗضہ گیروں نے باقاعدہ تھانے میں اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی ہے۔
پہلے دو باتیں عرض کردیتا ہوں پھر ان دوستوں کا تعارف کروادیتا ہوں۔
’’پہلی بات یہ ہے کہ جس کسی نے بھی پچاس لاکھ روپے کے عوض بگائی محل کا سودا کرکے اسے مسمار کرنے اور اس کی جگہ جدید پلازہ بنوانے کا راستہ ہموار کیا وہ تاریخ و تہذیب اورثقافت کا دشمن ہے‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈائریکٹرز آرکیالوجی اینڈ میوزیم ڈاکٹر عبدالصمد نے تحریری طور پر ڈی پی او ڈیرہ اسماعیل خان کو بگائی محل مسمار کرنے سے رکوانے کو کہا اور ڈپٹی کمشنر ڈی آئی خان فرید اللہ اعوان نے اے سی کو اس ضمن میں ہدایات دیں پھر موقع ملاحظہ ہوا اور سب دھرا رہ گیا۔
قبضہ گیر گروپ طاقتور نکلا اور بگائی محل کا ملبہ پچاس لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔ یہ بگائی محل لالہ رام داس بگائی کی یادگار حویلی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر1 اور ٹی بی ہسپتال دریا بند روڈ بھی لالہ رام داس بگائی کی زندہ یادگاریں ہیں۔
پچھلے دو دنوں سے بگائی محل کی مسماری کے نوحہ سنتے مجھ ملتانی کو پرہلاد کا دانش کدہ یاد آرہا ہے۔ یادیں دستک دیتی ہیں آنکھیں بھر آتی ہیں، دھرتی زادے اپنی ہی سرزمین پر بے بس ہیں۔ قبضہ مافیا طاقتور کیونکہ یہ مذہب کی چھتری تان لیتا ہے اور حکومت وقت کے درباریوں کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے۔ برصغیرکے مسلمانوں کا اجتماعی المیہ یہی ہے کہ ہم اپنی ہی تاریخ کو جوتے مارنے اور روندنے پر لگے ہوئے ہیں۔ بھلا تبدیلی مذہب سے تاریخ بھی بدلتی ہے۔ تہذیب و تمدن اور رواجات کا تعلق سرزمین سے ہوتا ہے دھرموں سے نہیں۔
چلیں میں عباس سیا ل اور سعید اختر سیال کا تعارف کروائے دیتا ہوں۔ سرائیکی وسیب کے دل ڈیرہ اسماعیل خان کے یہ دونوں صاحب علم مجھ طالب علم کوبہت عزیز ہیں۔ تاریخ، فلسفہ، تقابل ادیان، تہذیب و تمدن اور رواجات پر اس وقت کی سرائیکی وسوں میں جو چند اہل دانش موجود ہیں، عباس اور سعید ان اہل دانش کی پہلی صف میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
عباس سیال نثر کی دنیا کا شہسوار ہے۔ متعدد سفرنامے اور تاریخ پر کتب کا مصنف ہے۔
سعید اختر سیال، شاعر ہے وسوں کے چند بلند پایہ شاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ دونوں باکمال انسان ہیں۔ صاحب فکر اپنی وسوں اور تاریخ کے عاشق صادق،
عباس سیال نگری نگری گھومتا ہے۔ عشروں سے بیرون ملک مقیم ہے لیکن دل سندھ دریا کنارے آباد ڈیرہ اسماعیل خان میں دھڑکتا ہے۔ ریت پریت اور تاریخ کے اس دیوانے نے سعید اختر سیال کی طرح بگائی محل کی مسماری پر آواز بلند کی، فتوے صادر ہوئے، قبضہ گیروں نے دھمکیاں دیں اور پھر کہا اب ڈیرہ آئو گے تو بھون کر رکھ دیں گے۔ سعید اختر کے خلاف قبضہ مافیا کے ٹوڈیوں نے تھانے میں درخواست دیدی۔
May be an image of outdoors
بنیادی سوال یہ ہے کہ ڈیرہ انتظامیہ، ڈائریکٹر آرکیالوجی و میوزیم کے تحریری حکم نامے ’’بگائی محل کی مسماری روکی جائے‘‘ پر عمل کیوں نہ کرواسکی۔ کیا قبضہ گروپ ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر سے زیادہ طاقتور ہے؟
جی بالکل کیونکہ قبضہ گروپ کے پیچھے ریاست کا وفادار مافیا ہے اور بدقسمتی سے وہ اس وقت اقتدار میں بھی ہے۔ ظلم یہ ے کہ ایک تو ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخی عمارت مسمار ہورہی ہے اوپر سے بدبخت قبضہ گروپ اسے لسانی رنگ دے کر شہر کے ماحول کو برباد کرنے کے درپے ہے۔
صورتحال تشویشناک ہے صاف سیدھی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر ڈائریکٹر آرکیالوجی و میوزیم ڈاکٹر عبدالصمد کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ قبضہ گروپ کے خلاف مقدمہ درج کروائیں ا ور ڈی پی او و ڈی سی کے تساہل پر چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور آئی جی پولیس سے بالمشافہ ملاقات کرکے بات کریں۔
جو حالات قبضہ گروپ بنارہا ہے یہ تو چوری اور سینہ زوری والی بات ہوئی۔ لالہ رام داس بگائی بلاشبہ محسن ڈیرہ اسماعیل خان تھے ان کا بنایا تعلیمی ادارہ اور ہسپتال آج بھی شہر میں پوری شان سے موجود ہیں۔ ایک جگہ نور علم کا فیض ملتا ہے دوسری جگہ صحت و تندرستی۔
سرائیکی وسوں کی بھی کیا قسمت ہے کہ اس کے فرزند اگر تاریخی عمارتوں کو مسمار کرنے پر آواز اٹھائیں تو کھٹ سے مذہبی و لسانی ہتھیار سونتے کچھ لوگ نکل آتے ہیں۔
ارے بھیا آپ کی کوئی تاریخ نہیں تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ہے کہ ان کی تاریخی شناختیں مٹانے کے د رپے ہو؟
کیا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اس معاملے کا نوٹس لیں گے؟
گو توقع نہیں پھر بھی درخواست کی جانی چاہیے۔ اسی طرح عباس سیال، سعید اختر سیال، شاہد کھارہ اور دیگر دیرہ والوں کو دی جانے والی دھمکیاں بھی قابل مذمت ہیں۔ وسوں کے اہل دانش ہی نہیں عام شخص کو بھی تاریخ سے بلاتکار کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے یہی سب کا فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author