نعمان کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویز کینال جو کہ مصر میں 1859 میں فرانس اور انگلینڈ کی کمپنیوں نے بحری تجارت کی غرض سے Mediterranean sea سے Red sea کے درمیان بنوائی تھی جسکی لمبائی تقریبا 120 میل ہے اور یہ دو بڑے سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے ۔اسکے علاؤہ سویز کینال ایک shortest sea link ہے جو کہ ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتا ہے ۔ اس کینال سے روانہ کی بنیاد پے یعنی daily trade تقریبا 9.6 بلین ڈالر کے لگ بھگ یے اور دنیا کی تقریبا 12 ٪ Trade ہوتی ہے اس کینال سے ۔ یہ کینال چونکہ مصر میں واقع ہے اس لئے مصری گورنمنٹ اس کینال کو استعمال کرنے والی تجارتی کمپنیوں سے محض ٹیکس کی مد میں سالانہ 6 بلین ڈالر وصول کرتی ہے ۔
اب آتے ہیں اصل واقعے پر ، تقریبا آج سے دو ہفتے پہلے سویز کینال میں ایک بہت بڑا گارکو شپ پھنس گیا تھا جو کہ اب بہت محنت اور مشقت سے اسکا اصل رخ موڑ کر دوبارہ کینال میں تیرنے کے قابل بنا دیا ہے ،مگر بات یہی ختم نہیں ہوتی ۔ چونکہ سویز کینال کا سیکشن کافی تنگ یے اور اُن دنوں وہاں ہوا کی رفتار معمول سے زیادہ تھی جسکی وجہ سے یہ شپ جسکا نامever given ہے جسکی لمبائی تقریبا 400 میٹر ہے اپنی اصل سمت سے مڑ گیا اور اسکی سمت کینال کے بہاؤ کے perpendicular ہو گئی جس سے کینال کا راستہ جو پہلے سے بہت تنگ تھا وہ مزید بند ہو گیا اور وہاں سے گزرنے والے باقی جہاز بھی رک گئے المختصر دنیا کی جو تجارت اس بحری راستے سے ہو رہی تھی وہ رک گئی ۔ اس رستے سے زیادہ تر تیل اور گیس کے علاؤہ بھاری مشینری کی درآمد اور برآمد ہوتی رہتی ہے ۔ اس بحری جہاز کے پھنس جانے سے دنیا کو روزانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ دنیا کو تیل کی سپلائی رک گئ تھی اور اس رستے سے گزرنے والے تمام کارگو جہاز رکے ہوئے تھے سویز کینال اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2020 میں 19311 بحری جہازوں کی آمد و رفت ہوئی تھی جس میں 121 کروڑ ٹن کارگو کی تجارت ہوئی تھی نیز سویز کینال اتھارٹی کے مطابق تقریبا یومیہ 20 لاکھ بیرل خام تیل کے گزرتے ہیں ۔ red sea کے اوپر کی طرف جاتے ہیں تو آگے راستہ بند ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لئے یورپ جانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔
اب آتے ہیں کہ کیا پاکستان کے لئے یہ حادثہ کسی opportunity کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے تو اسکا جواب ہے "ہاں” ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "کیسے” اور "کیوں” ۔
پاکستان کا کیا تعلق سویز کینال سے یا اس میں پھنسے اس Giant Cargo ship سے ۔ تو آئیے زرا world Map پر نظر دوڑاتے ہیں ۔ اگر ہم بات کریں گوادر پورٹ کی تو گوادر پورٹ دنیا کی سب سے گہری sea port ہے ۔ جس میں بڑے سے بڑے بحری جہاز بھی کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ اور گوادر پورٹ جو کہ ایران کے کافی قریب ہے red sea سے اگر ہم ائیں تو ایران کے بلکل نیچے state of Harmo سے نکلتے ہی بلکل پاس گوادر پورٹ پڑتا ہے ۔ ایران کے ساتھ ترکی کے اور ترکی سے آگے پورپ شروع ہو جاتا ہے ۔
اب اگر( the cap of good)جو کہ بہت لمبا سمندری روٹ ہے اور بحری حادثوں کے حوالے سے بھی کافی مشہور روٹ ہے نیز سویز کینال کے مقابلے میں یہاں سے دس دن زیادہ لگ جاتے ہیں تو بجائے اسکے اگر red sea سے سیدھا گوادر پورٹ آئیں اور گوادر پورٹ پر تجارتی سامان اتار کے سی پیک روٹ جو گوادر سے چائنہ اور چائنہ سے لیکر انڈیا تک کو connect کرتا ہے اس کے ذریعے ایران کے باڈر پر سامان لے آئیں اور وہاں سے ترکی اور پھر ترکی سے گیٹ وے آف پورپ تک تجارتی سامان لے جایا جا سکتا ہے جو کہ پہلے والے لمبے روٹ سے آدھے سفر پر مشتمل ہو گا اور دنیا کو traveling cost بھی کم پڑے گی نسبتاً۔
مگر اس کے لئے ہمیں بشمول پورے خطے کو اس تعصب اور جنگی ماحول سے نکلنا ہوگا، ملک کی ترقی اور دنیا کی خوشحالی کے لئے سوچنا ہو گا ۔ اب انڈیا نہیں چاہتا کہ گوادر پورٹ بنے حالانکہ اس سے انڈیا کو بھی فایدہ ہے اسکے ذریعے وہ بھی دنیا میں تجارت کر سکتا ہے ۔اسکی اگر میں اپکو مثال دوں تو انڈیا اس وقت چائنہ کے ساتھ تقریبا 33 بلین ڈالر کی ٹریڈ بحری جہازوں کے ذریعے کرتا ہے اور بظاہر انڈیا اور چائنہ "سو کالڈ” دشمن بھی ہیں ۔ ہمیں بشمول پوری دنیا کو ایران پر سے تجارتی پابندیاں ہٹانا پڑیں گی اس سے پوری دنیا prosperous ہو گی پوری دنیا کو فایدہ ہو گا اسکے علاؤہ ایران کو بھی بہت فایدہ ہے کیونکہ ایران خود تیل کا ایک بہت بڑا سپلائر ہے ۔ اگر ہم یہاں اس موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے ایران اور گوادر کو آفیشل تجارتی روٹ بنا دیں تو ہم بشمول پورا ایشیا بآسانی پورپ تک تجارتی رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور business cost نسبتاً (red sea ) آدھی ہو جائے گی کیونکہ یہ روٹ مشرق وسطیٰ کے ملک سے گزر کر جائے گا اس سے پورا خطہ فایدہ اٹھائے گا اور گوادر پورٹ ایک تجارتی ہب بن جائے گا۔
لیکن again میں کہوں گا کہ ہمیں تعصب کی فضا سے نکلنا ہو گا دنیا کو positively سوچنا ہو گا اس سے پورا خطہ ترقی کرے گا اور بلخصوص پاکستان بھی معاشی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ۔ لہذا ہمیں اس opportunity کو avail کرنا چاہئے اپنے لئے اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ۔
یہ بھی پڑھیں:
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
السلام وعلیکم نعمان بھائی سے گزارش ہے کہ جو زمینی فاصلہ گوادر سے ترکی کا ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا اور جس ٹرین پر سامان جانا ہے اس نے کتنا وقت لینا ہے اسے بھی مدنظر رکھا جائے اور کتنا سامان ایک ٹرین پر جاتا ہے اور اس سے کتنی فضائی آلودگی ہو گی 4800 سو کلو میٹر کے روٹ پر.
وسلام قوی شاہ
السلام وعلیکم نعمان بھائی سے گزارش ہے کہ جو زمینی فاصلہ گوادر سے ترکی کا ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا اور جس ٹرین پر سامان جانا ہے اس نے کتنا وقت لینا ہے اسے بھی مدنظر رکھا جائے اور کتنا سامان ایک ٹرین پر جاتا ہے اور اس سے کتنی فضائی آلودگی ہو گی 4800 سو کلو میٹر کے روٹ پر.
وسلام قوی شاہ