سدرہ سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کا حسن پانی سے ہی ہے۔ چاہے رنگ دھنک کے ہوں یا پھولوں کے، پانی سے کھِلتے ہیں۔ چشموں کی چمک اور ٹھنڈک خوشی اور امید جگاتی ہے۔
آبشاریں احساسات پر جادوئی اثرات چھوڑتی ہیں۔ شفاف جھیلیں آنکھیں چمکا دیتی ہیں۔ بل کھاتی ندیاں، دریاوں کی روانی اور سمندر کی لہریں من میں ہلچل مچاتی ہیں۔ فطرت بہت فیاض ہے، اس میں انسان کی بنیادی اور جمالیاتی ضرورتوں کی تسکین کے لیے بے پناہ نعمتیں موجود ہیں۔
لیکن جہاں جہاں خاکی قدم پڑے ہیں وہاں خاک اڑتی گئی، فطرت کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ جہاں موسم کی رت بدلنے کے ساتھ پنچھی ہجرت کرتے تھے، وہاں میزبانوں کے کارتوسوں کے خول ملتے ہیں۔ کبھی چاند شفاف جھیلوں میں اتر آتا تھا، اب جنگلات کی کٹائی نے خشک سالی کو ایسے خوش آمدید کہا کہ وہ جانے کا نام نہیں لیتی۔
ندیاں اپنی سیرابی کے لیے ساون کو ترستی ہیں۔ دریاوں میں مچھلیوں سے زیادہ گندگی تیرتی نظر آتی ہے۔ جن کے اجداد شفاف پانیوں میں نہایا کرتے تھے، ان کی اولاد جوہڑوں میں ڈبکیاں لگا رہی ہے۔ اب زمین سے پانی ناپید کرنے والے مریخ پر پانی کی تلاش میں ہیں۔ صاف پانیوں کو گندا کرنے والے پانی کو شفاف بنانے کے لیے دم کی پھونکیں مار رہے ہیں۔ حالات کی یہ خرابی فکری پسماندگی کے باعث ہے، جس سے آدمی کو شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہیے۔
کورونا وبا کے دوران پانی کی غیر معمولی اہمیت ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے۔ وبا سے بچاو کے لیے مسلسل ہاتھ دھونے کی ترغیب دی جا رہی ہے تاہم ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک بڑی تعداد میں آبادی کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں جبکہ ہر سال پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں بچوں کی اموات ہو جاتی ہیں۔
اس لیے پانی کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وبا سے بچاو کے لیے احتیاطی تدابیر پر مبنی کچھ ٹی وی اشتہارات میں ہاتھوں پر صابن کے استعمال کے دوران پانی کا نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے پبلک سروس میسج میں بھی خاتون کو ہاتھ دھوتے دیکھایا گیا، جس کے دوران مسلسل نل سے پانی ضائع ہوتا رہا۔ جب کہ آگاہی مہم کے پیغام میں اتنا اہم نکتہ نظر انداز کرنا غیرمناسب عمل ہے۔
جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو پانی کی سخت کمی کا سامنا ہے۔ پانی کی غیر معمولی اہمیت کے باوجود اس شعبے کے لیے زیادہ رقوم مختص نہ ہونا ایک پریشان کن حقیقت ہے۔ جہاں پانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے، وہاں دوسری طرف پانی کی کمیابی اور آلودگی، صحت مند زندگی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی بہتر نہیں اور عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کا پانی87 فیصد ناقص اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں یہ اہم قدرتی نعمت آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ساٹھ کی دہائی کا ایک فیصلہ دھرتی کا پانی چوس گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر میں لگائے گئے سفیدے کے درختوں نے واٹر ٹیبل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ موجودہ اکثر ڈیموں میں مسلسل سلٹ جمع ہونے سے ان کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے مگر اس سنگین صورتحال کے باوجود اس اہم قومی مسئلے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے حالانکہ پاکستان کی معیشت کا تمام تر دارومدار اس کی زراعت پر منحصر ہے اور یہی وہ شعبہ ہے، جو ملک کو غذائی طور پر خود کفیل بنانے کے علاوہ 60 فیصد آبادی کو براہ راست اور با لواسطہ طور پر روزگار بھی مہیا کر رہا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نئےآبی ذخائر کی تعمیر سے تمام صوبوں کو یکساں فائدہ ہو گا اور ان میں بے آباد لاکھوں ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنا کے لوگوں کو پیداواری عمل میں شامل کیا جا سکے گا۔ نئے ڈیمز کی تعمیر بھی اشد ضروری ہے، جن سے جہاں زراعت کے لیے اضافی پانی دستیاب ہو گا، وہیں اس سے ملنے والی سستی ہائیڈل بجلی سے لوڈ شیڈنگ پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت پاکستان میں دیامربھاشا ڈیم، مہمند اور داسو سمیت پانی کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے لیکن ان کو مکمل ہونے میں ابھی کئی برس درکار ہیں۔ اس لئے موجودہ پانی کی ذخائر کی مرمت، صفائی اور موثر استعمال کو جلد از جلد یقینی بنانا ہو گا۔
انفرادی طور پر بھی ہمیں اس نعمت کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے یہ مواقع آپ کو اپنے اردگرد بہت ملیں گے۔ پانی کے استعمال کے وقت نلکے کو زیادہ تیز اور بے جا کھلا نہ رکھیں۔ جتنے پانی کی ضرورت ہو، اتنا استعمال کریں۔ بچوں کو بھی پانی کے استعمال کا صحیح طریقہ کار سکھایا جائے۔ گھروں میں پانی کی موٹر چلا کر بھول نہ جائیں تا کہ ٹینکی بھرنے کے بعد پانی ضائع نہ ہو۔ مساجد میں وضو کرتے ہوئے پانی کو ضائع مت کریں۔
ٹپکتے نلکوں کو فوری ٹھیک کروایا جائے۔ کار واش اور کپڑوں کی دھلائی کے لیے بے جا پانی خرچ نہ کیا جائے۔کہی پانی کی پائپ لائن ٹوٹی ہوئی دیکھیں تو مطلقہ ادارے کو فوری فون کیا جائے۔ اس صورتحال میں بہتری لانے کے لیے تدریسی ماہرین، سول سوسائٹی اور تمام دوسرے طبقات کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کے بہتر استعمال کے لیے آگاہی کو عام کیا جا سکے، اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکا ہے
یہ بھی پڑھیں:
گل ودھ گئی اے مختاریا!|| شمائلہ حسین
کون بنے گا استاد؟۔۔۔عفت حسن رضوی
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
سدرہ سعید صحافی ہیں جو اور نیٹ ورک کے ساتھ بطور اسائمنٹ ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی