مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الوداع ڈاکٹر نعیم بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرخ سلام ڈاکٹر نعیم بلوچ||رؤف لُنڈ

اس طبقاتی نظام میں زندگی سے نبرد آزما ہونے کی تگ و دَو میں اگرچہ ھماری ڈاکٹر نعیم بلوچ سے وہ میل ملاقاتیں نہ رہیں مگر دل و دماغ کی قربت قائم رھی

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فرد اور ایک انسان جو اپنی موجودہ صورت میں نظر آتا ھے۔ اس کی فطری جسمانی ساخت کے علاوہ اس کی عادات و اطوار ، اس کے چال چلن اور گفتار و کردار کے پیچھے ان سب شخصیات ، حالات اور ماحول کا اپنا اپنا حصہ ہوتا ھے جن میں کوئی فرد یا انسان گذر کر اپنی موجودہ صورت میں یہاں تک پہنچتا ھے ۔۔۔۔۔۔ ان تمہیدی سطور لکھنے کا مطلب میرا یہ اعتراف کرنا ھے کہ میری سیاسی نوک پلک سنوارنے میں ڈاکٹر نعیم بلوچ کے علم، ادراک، بذلہ سنجی ، دوستوں کی محافل سجانے کی خوبی کا بڑا عمل دخل ھے ۔۔۔۔۔۔۔

ھماری بدقسمتی کہ ھم نے اس دور میں اپنی شعوری سفر کا آغاز کیا جب ملک کے سیاسی افق پر ضیاءالحقی آمریت کا منحوس عفریت اپنے جوبن پر تھا۔ لیکن پھر دوسری طرف جدلیاتی طور پر یہی وہ دورِ غنیمت تھا کہ جس نے ہمیں انسانیت کو سمجھنے اور انسانیت کو اس بھیانک طبقاتی نظام کی خباثتوں سے نجات دلانے کی جدوجہد کے راستے پر لا کھڑا کیا۔ اس وقت یا اس عہد میں ضیائی آمریت کے خلاف بائیں بازو کے سیاسی ورکرز اور بالخصوص پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی ، بے لوث ، کمٹڈ اور ان تھک جیالوں کی ہر قسم کے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر جیلوں ، شاھی قلعے کی صعوبتوں، کوڑوں اور پھانسیوں کی صورت آئے روز بے مثال داستانیں رقم ہو رھی تھیں۔۔۔۔ پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ داستانیں محض کسی کی اندھا دھند پیروی ، تقلید ، کسی مفاد یا کسی کی چاپلوسی کے شاخسانہ ہونے کی بجائے طبقاتی شعور، محنت کش طبقے کی نجات کے آدرشوں اور خوابوں کو ہر قسم کے جبر اور استحصال سے نجات دلانے کی تعبیر کی حسرت میں تاریخ کے اوراق پہ لکھی جا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔

یہ ھمارا گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخان میں طالب علمی کا روشن دور تھا۔ تب سماج بدلنے اور جبر سے نجات کی جدوجہد میں کالجز اور یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم اپنے سیاسی استادوں کے صرف شانہ بہ شانہ ھی نہیں بلکہ اگلی صفوں میں بر سرِ پیکار ہوتے تھے ۔۔۔۔۔ تب کوئی طالب علم تھا یا کہ کوئی سیاسی ورکر کسی سیاسی پروگرام ، میٹنگ یا جلسے میں شریک ہونے کی دعوت ملنے پر یہ نہیں کہتا تھا کہ ” ہمیں کیا فائدہ ؟”، وہاں کھانے کا انتظام ہوگا” ، "آنے جانے کا کرایہ ملے گا؟ ” ، ان بیہودہ باتوں اور سوالوں کی بجائے بس صرف کچھ سیکھنے ، سمجھنے اور کچھ کر گذرنے کی ایک دُھن ہوتی تھی جو سروں پر سوار رہتی تھی۔ ایسی دُھن کہ جس کے آگے ہر قسم کی لالچ اور خوف ہیچ ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ ھمارے عہد کے سیاسی ورکرز اور نوجوانوں کو شعور بخشنے کی ان محفلوں اور مجلسوں کی رونق ہونے والے چند دوستوں میں ڈاکٹر نعیم بلوچ کا نام نمایاں تھا۔۔۔۔

اس طبقاتی نظام میں زندگی سے نبرد آزما ہونے کی تگ و دَو میں اگرچہ ھماری ڈاکٹر نعیم بلوچ سے وہ میل ملاقاتیں نہ رہیں مگر دل و دماغ کی قربت قائم رھی ۔۔۔۔ پھر ایک غیر محسوس انداز میں ان رابطوں میں جیسے ایک خلا سا آگیا۔ یہ خلا شاید ان کی کینسر جیسے موذی مرض سے لڑائی کے عرصہ کا تھا۔ یہ بھی نظریاتی کارکنوں کا خاصہ اور اعزاز ھے کہ وہ جب تک صحتمند ہوتے ہیں ایک ایک دوست اور تعلقدار کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں مگر جب خود کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو اپنی کسی تکلیف کی تشہیر کی بجائے خود کو غیر محسوس انداز میں باقیوں سے الگ کر لیتے ہیں۔ ان کے اس عمل میں بھی ان کا یہ بڑا پن اور یہ سوچ ہوتی ھے کہ دوسروں کی خوشیوں میں کوئی خلل نہ آئے۔۔۔۔۔

دوسروں کی خوشیوں سے خوش ہونے والے، اپنے ارد گرد شعور کی شمع روشن رکھنے والے اور کینسر کے موذی مرض کی سب تکلیفیں خاموشی سے برداشت کرتے ہوئے دوستوں سے وداع ہو جانے والے ھمارے دوست، ھمارے استاد ڈاکٹر نعیم بلوچ تجھے سرخ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

%d bloggers like this: