حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دو اڑھائی گھنٹوں سے کاغذ قلم سامنے رکھے سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھا جائے؟ حرف حرف جوڑ کر ہم جو لکھتے ہیں اس پر کچھ لوگ ناراض بھی ہوتے ہیں۔
مجھے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم کا ارشاد گرامی یاد آیا۔ فرماتے ہیں
’’انسان کی عجیب فطرت ہے کہ تنقید جیسی سچائی پہ ناراض اور خوشامد جیسے دھوکے پر خوش ہوتا ہے‘‘۔ ہمارے چار اور ایسی صورتحال ہے۔ تعریف و توصیف بھلا کس کو اچھی نہیں لگتی۔
ہمارے فقیر راحموں بھی تعریف کئے جانے پر کاندھے اچکانے کے ساتھ مسرت بھرا قہققہ لگاتے ہیں۔ تنقید کرو تو کہتے ہیں شاہ جی یاد کرو گے جب ہم نہیں ہوں گے۔ یہ اچھی اچھی خبریں تمہیں ہمارے سوا کون دے گا۔ پھر ’’کالم سُونا سُونا ہوگا‘‘۔
زندگی بھر کا تجربہ بہرطور یہ سمجھا گیا کہ باب العلم سید ابوالحسن امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے درست فرمایا تھا کہ
’’سچ وہی ہے جو اپنے وقت پر بولا جائے‘‘۔
وقت پر بولے سچ کی قیمت چکانے والے فرزانے ہمیشہ محبوب ہوئے سامت سے سرمدؒ اور سقراط سے حسین بن منصور حلاجؒ یا پھر جناب عیسیٰؑ ابن مریمؑ سے آقائے امام حسین بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک۔ سبھی کئی ہزاریاں اور صدیاں گزرجانے پر پوری آب و تاب سے جہل کے اندھیرے کو کاٹ رہی ہے۔
سندھی کے صوفی شاعر سامی کہتے ہیں
’’سچ لوگوں کو کڑوا لگتا ہے مگر شہد جیسی مٹھاس ہی اسے زندہ رکھتی ہے۔‘‘
حسین لوائی کہتے تھے
’’بستیوں میں ناچتی بھوک کا رزق ہوئے لوگ ہی جانتے ہیں بھوک کیا ہوتی ہے‘‘۔
بھوک سے یاد آیا کہ مہنگائی کا عذاب جان لیوا ہے لوگ پریشان ہیں۔ آمدنی اور اخراجات کا توازن کب سے درہم برہم ہوچکا۔ خود اسٹیٹ بینک یہ تسلیم کرچکا کے جنوری اور فروری میں ہونے والی مہنگائی گزشتہ اڑھائی برسوں کی بلند ترین سطح پر تھی لیکن اس کا کیا کریں کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے ذکر پر اہل اقتدار ناراض ہوتے ہیں۔
پنجاب میں اطلاعات و نشریات کی معاون خصوصی آپا فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں
’’ہمارے دور میں لوگوں نے جتنی خوشحالی دیکھی اس کی مثال نہیں ملتی‘‘۔
آپا کہہ رہی ہیں تو سچ ہوگا ویسے ہمارے فقیر راحموں کے ڈن ہل سگریٹ زرداری دور میں 80روپے کا پیکٹ، نواز دور میں 140 روپے اور موجودہ دور میں 350 روپے تک اڑان بھر کر اب 290روپے ہے۔ کئی بار انہیں دوستوں نے سمجھا کہ سگریٹ بری چیز ہے جواباً کہتے ہیں ہم ملتانی دوستی اور دشمنی قبر تک ساتھ لے جاتے ہیں۔
ایک دن ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا فقیر جی ہم بھی ملتانی ہی ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ بات نہیں سنی۔ بولے شاہ تم ملتان میں رہے ہی کتنا۔ چوتھی پڑھتے تھے جب ملتان سے نکل لئے تھے۔ چند برس پہلے ملتان میں رہے اب پانچ مہینے سے رہ رہے ہو اس عرصہ میں سارا ملتان اور تاریخ بمعہ ضرب المثل گھوٹ کر تو نہیں پلایا جاسکتا۔
ارے چھوڑیئے ان باتوں کو سنا ہے وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی چھٹی اور حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنادیا گیا ہے۔ حفیظ شیخ بھی اچھی قسمت لے کر پیدا ہوئے جس دور میں بھی وزیر خزانہ بنے اس حکومت کے لئے کانٹے بوئے اور گڑھے کھود کر رخصت ہوئے۔
پیپلزپارٹی نے ان کی محنت کی ’’کمائی‘‘ خوب کھائی۔ 2013ء کے الیکشن میں آئندہ الیکشن میں قبلہ گاہی عمران خان بھی کھالیں گے۔
چھوڑیں ہمیں کیا حفیظ شیخ کا پراجیکٹ مکمل ہوا آخری کام اسٹیٹ بینک والا آرڈیننس تھا وہ بھی جاری ہوا۔ اچھا ویسے یہ آرڈیننس عجیب ہے۔ مستقبل میں کبھی بھی گورنر اور بورڈ آف ڈائریکٹرز و دیگر کو کوئی ریاستی ادارہ یا عدالت طلب نہیں کرسکتے۔
یہ آرڈیننس بھی اپنی مثال آپ ہے۔ گزشتہ دو دن سے اپنے قابل احترام انصافی دوستوں سے دریافت کرتا پھر رہا ہوں بندہ پرور کسی ایک ایسے ملک کا نام بتادیئے جس کے فیڈرل بینک کو ایسے قانون کا دائمی تحفظ حاصل ہو؟کوئی اللہ کا نیک بندہ مرید بنی گالہ شریف بتاکے ہی نہیں دے رہا۔
ساعت بھر کے رک جائیے مجھے حافظ شیرازیؒ یاد آرہے ہیں۔ فرماتے ہیں
’’میخانہ کی دہلیز پر کم ظرف کا کوئی کام نہیں‘‘۔
اب یہ نہ پوچھ لیجئے گا کہ جناب حافظ شیرازیؒ کی یہی بات کیوں یاد آئی۔
موسم میں شدت بڑھ رہی ہے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی نوک جھونک میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ خیر چھوڑیں۔ پی ڈی ایم کی سیاست یا جماعتوں کا ایک آدھ کالم میں تذکرہ نہیں کرتے۔
مجھے ایک عشائیہ یاد آیا جس میں چودھری پرویزالٰہی ایک صاحب جلال و وقار کے ساتھ دو عظیم ہستیاں اور بھی شریک تھیں لیکن تفصیل نہیں لکھوں گا ضروری تو نہیں کہ ساری عمر اور ہر کالم کی وجہ سے کسی کو ناراض کرلیا جائے۔
63برس جی لئے 64ویں میں جی رہے ہیں وقت ریت کی طرح مٹھی سے پھسل رہا ہے کب زندگی کی شام آن دبوچے کس کو پتہ کون جانے۔
ایک عزیزہ نے دو کتابیں بھجوائی ہیں ایک دوست اکٹھی سات کتابیں عنایت کرگیا ہے، وقت نکال کر انہیں پڑھ لوں پھر آپ کو مطالعے میں شریک کروں گا
فی الوقت یہ کہ مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ فرماتے ہیں ’’تسبیح چھوڑ مصلے کو ٹھپ (لپیٹ) کر یار کے دوارے (دیوار کے سائے میں) بیٹھ کر باتیں کرنے میں جو لطف و سرشاری ہے وہ اور کہاں‘‘۔
اس موئے کورونا نے مزارات اور خانقاہیں بھی بند کروادیں ورنہ جی چاہتا تھا ایک سپہر حضرت شاہ شمسؒ کے حضور اور ایک مرشد کریم سیدی بلھے شاہ کے حضور گزاری جائے اور جی بھر کے باتیں کی جائیں۔
کورونا کی لہر نجانے کب ختم ہو میں اگلی صبح اپنی امڑی (والدہ صاحبہ) کی تربت پر حاضری دوں گا اور حال دل ان کے حضور بیان کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر