حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالباً 2017ء میں سندھی ادیب و دانشور اور معروف کالم نگار امر جلیل نے ایک تمثیل لکھی۔ سادہ لفظوں میں اسے ہم اقبال کے شکوہ کی طرح کا ایک شکوہ کہہ سکتے ہیں۔ اب 2021ء میں پورے چار سال بعد جے یو آئی ف سندھ کے راشد سومرو کی باسی کڑی میں ابال آیا اور امر جلیل سے جواب طلبی کے ساتھ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم شروع کروادی گئی۔
راشد سومرو لاڑکانہ والے مرحوم ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے فرزند ہیں۔ اپنے والدکی طرح جے یو آئی ف کے عہدیدار اور مولانا فضل الرحمن کے دست راست۔ مرحوم خالد سومرو بھی زندگی بھر سندھ کے صوفی سماج میں انتہا پسندی کا بارود بھرتے رہے۔ صاحبزادہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔
آخر ہم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ شاعر، ادیب، دانشور تحریروکلام ہر دو میں مولوی کی اجازت کے بغیر بات نہ کریں۔
اسی سومرو کی پارٹی کاایک بلوچستان سے مولانا منظور مینگل کی تقاریر کے ویڈیو کلپس موجود ہیں۔ سماجی اقدار، اسلامی تعلیمات اور انسان سازی سے متصادم منظور مینگل کے خیالات پر کسی کو ہوش آیا نہ فکرمندی ہوئی کہ اس سے اسلام کا چہرہ مسخ ہورہاہے۔
مدارس کے لگے بندھے نصابوں سے باہر کی دنیا اور علوم رواجات اور تحقیق سے بے خبر یہ مذہبی تنظیموں کے رہنما سستی شہرت کے لئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
اس سے قبل بھی سندھ کے دو معروف ماہرین تعلیم پر فتووں کی توپوں سے چاندماری کی گئی۔ یہ رویہ درست نہیں ہے۔
جے یو آئی (ف) پچھلے چند برسوں سے اور خصوصاً تحریک انصاف کی حکومت کے آغاز سے مذہبی کارڈ کھیلنے کے جنون کا شکار ہے۔ دیوبندی مکتب فکر کی یہ سیاسی جماعت اپنا عمومی تعارف سامراج دشمن اور دیگر مذہبی جماعتوں کے مقابلہ میں ترقی پسند شعور کی حامل جماعت کا رکھتی تھی مگر سیاسی ناکامیوں کے صدموں نے اس جماعت کو بھی ان انتہا پسند تنظیموں کی صف میں لاکھڑا کیا جو گلی محلوں اور چوکوں پر اپنی انصافی عدالتیں لگانے، فتوئوں اور تکفیر کی شوقین ہیں۔
ان تنظیموں اور رویوں نے پچھلی چار دہائیوں میں سماجی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان انتہا پسند تنظیموں کے سب نے اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق ناز اٹھائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سارے گروپ خود کو جمعیت علمائے ہند کی فہم کا وارث قرار دیتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند اسلامی تعلیمات سے دستبردار ہوئے بغیر سماج کی اجتماعی ضرورتوں کے تناظر میں سیکولرازم کی حامی ہے اور اس کے پاکستانی ایڈیشنز کا ایک حصہ انتہا پسند عسکری تنظیموں کا گارڈ فادر کہلاتا ہے۔
جے یو آئی (ف) سماجی شعور کی سیاست کرتے کرتے چند ناکامیوں اور محرومیوں کے باعث اسی بند گلی میں آن پھنسی ہے جس میں عقائد کی انتہا پسندانہ تعبیروں والے پہلے پھنسے ہوئے ہیں۔
اصولی طور پر تو یہ ہمارے محب مکرم مولانا فضل الرحمن کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہ سماج کی ساری اکائیوں کی سماجی وحدت کے لئے سرگرم عمل رہیں گے یا اپنے مسلک کی ایک ’’خاص فہم‘‘ کو مستقبل میں اوڑھنا بچھونا بنائیں گے؟
اصولی بات یہ ہے کہ خود کو مذہبی رہنما کہلانے والوں کو آگ سے کھیلنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ انتہا پسندی اور فتوئوں کی چاند ماری نے پچھلی چار دہائیوں میں ہمیں شدید نقصان پہنچایاہے۔
فکری انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی عسکریت پسندی کے گھاو بہت گہرے ہیں اوران سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔ شاعر، ادیب اور دوسرے اہل دانش کی اکثریت جدید عصری شعور کی حامل ہوتی ہے وہ شکوے کرتے سوال اٹھاتے مکالمہ کرتے اور بحثوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہی سماجی ارتقا کی بنیادی ضرورت ہے۔
ہمیں بطور خاص سمجھنا ہوگا کہ اگر کسی شخص کے شعوری اظہار پر تلواریں سونت لی جائیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام یا کسی بھی مذہب کے اندر جو فرقے ہیں یہ سب کسی نہ کسی اختلاف پر ہی تعمیر ہوئے، پھلے پھولے۔ سو جن اختلاف پر یہ فرقے معرض وجود میں آئے اگر وہ کفروشرک نہیں تو دیگر آراء پر فتویٰ کیسے ٹھوک دیا جائے گا اور یہ کیسے درست ہوگا۔
امر جلیل پہلے شخص نہیں جن کے خلاف بوزنوں نے ہنگامہ اٹھایا ہوا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مذہب و عقیدہ اورعصری شعور ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ شعور کوئی اونٹ نہیں کہ اسے نکیل ڈال کر مہار کسی راشد سومرو جیسے کو تھمادی جائے۔ اور کیوں تھمادی جائے کیا غیرمذہبی سماج کے حامی کبھی یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات حرف آخر ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ انڈس ویلی کے اہل دانش کی اکثریت صوفی ازم سے متاثر ہے اور اس میں ایک بڑا طبقہ ملامتی صوفیاء سے۔ کیا راشد سومرو جیسے اور ان کے ہم خیال تصوف کی مختلف پرتوں سے آگاہ ہیں؟
یہ بجا کہ ان کے نزدیک شیخ احمد سرہندیؒ کی فکر مقدس ہوگی لیکن حسین بن منصور حلاجؒ سے سرمدؒ تک اور سچلؒ و سامی سے بلھے شاہؒ اور شاہ حسینؒ تک کی فکر کے حاملین کی پیروی کرنے والے بھی اسی سماج کا زندہ حصہ ہیں۔
بہت احترام کے ساتھ درخواست ہے کہ محض خودستائی اور بالادستی کے لئے سماجی وحدت اور سکون کو درہم برہم کرنے سے گریز کیا جائے تو اچھا ہوگا۔
امر جلیل اپنے سیاسی نظریات کے باعث بہت سارے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں لیکن اس سے امر جلیل یا کسی دانش مند کا علمی مقام کم نہیں ہوجاتا یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بدولت ہم ایسے طلبا سومرو کی بجائے امرجلیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر