حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جماندرو تجزیہ کاروں اور سیاپہ فروشوں کے لشکر ہی لشکر ہیں۔ ستم یہ ہے کہ چند اہل صحافت بھی مختلف اوقات میں گھریلو مجبوریوں ،نام و نمود اور سستی شہرت و فوری مرتبہ کے لئے ان لشکروں کا حصہ بن گئے۔
سوموار کو جن صاحب نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر ’’باکمال شاعر لاجواب اپوزیشن لیڈر‘‘ کے عنوان سے کالم پھڑکایا۔ یہ کسی دن اخلاقی جرات اور صحافتی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کالم اس معاملے پر ضرور لکھیں کہ انہیں روزنامہ پاکستان لاہور کا ایڈیٹر بنوانے والی شخصیت کس خفیہ ایجنسی کی سربراہ تھی؟ وہ بھول گئے ہوں تو میں یاد کروادیتا ہوں
’’آئی بی کے سربراہ ہوتے تھے ایک لغاری صاحب۔ لاہور میں ایک دعوت ولیمہ کے دوران وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر روزنامہ پاکستان کے مالک مرحوم اکبر علی بھٹی کے پاس لے گئے اور ان کا ہاتھ بھٹی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ بی بی صاحبہ (محترمہ بینظیر بھٹو) چاہتی ہیں کہ انہیں اپنے اخبارمیں ایڈیٹر بنادیں‘‘۔
خیر یہ کوئی بری بات ہرگز نہیں ایجنسیاں اپنے کارندوں کو استعمال کرتی ہیں تو فائدہ بھی پہنچاتی ہیں۔ اس ملک کی سیاست، صحافت اور دانش کا المیہ یہی ہے۔ یہاں پولیس کے سکہ بند ٹاوٹ صحافتی یونینوں کی قیادت بھی فرماتے رہے ہیں۔ دو ٹاوٹ اب بھی تجزیہ نگار بنے بیٹھے ہیں۔
پاس پڑوس کے ممالک میں بھی یہی ڈرامے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی برسوں بلکہ عشروں سے چل رہے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ موصوف نے کتاب
’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ کے حوالہ جات مسخ کئے۔ پیپلزپارٹی والوں کے ساتھ ویسے ہونا یہی چاہیے جو پنجابی میڈیا، سیاپہ فروش اور محبانِ سول سپر میسی کررہے ہیں۔
پاکستان کی عظیم جمہوری جماعت کبھی پیپلز میڈیا سیل بناتی ہے 18لاکھ روپے ماہوار ایک سیاپہ فروش کو دیتی ہے پورے 19ماہ اور وہ سیاپہ فروش ہمیشہ پیپلزپارٹی کے کپڑے چوک میں اتارتا ہے۔
خیر چھوڑیں ہماری بلا سے پیپلزپارٹی جانے اور اس کے محبوب جمہوریت پسند صحافی، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور پیپلزپارٹی بوقت ضرورت خوشی سے ان کے ہاتھوں ذلیل بھی ہوتی ہے۔
آپ کو وہ صحافی تو یاد ہی ہوگا جس کے گھنٹہ بھر کے لیکچر کے بعد آصف علی زرداری نے کہا تھا
’’ہمیں سیاست نہ سکھائیں ہم نے کیا کرنا ہے بہتر جانتے ہیں البتہ آپ کے لئے مشورہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت بنالیں اسمبلی میں پہنچیں اور پھر اپنے ان مشوروں پر خود عمل کریں‘‘۔
پھر کیا ہوا وہ پیپلزپارٹی کا جانی دشمن بن گیا۔ اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اس کاآسان ہدف ہوئیں۔ دفتر کے دفتر کالے کئے اس نے بیگم مرزاکی کرپشن پر اب پچھلے اڑھائی برسوں سے وہی بیگم مرزا وفاقی وزیر ہیں اور صحافی چپ ہے۔
کیوں نہ ہو دونوں ایک ہی گھاٹ سے جو ’’سیراب‘‘ ہوتے ہیں۔
ارے معاف کیجئے گا میں بھی کیا موضوع لے کر بیٹھ گیا۔ بڑے لوگوں کی دوستی اور دشمنی کے ماہ و سال اور دن دیہاڑ سب عجیب ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ جو ہوئے مجھ اور آپ جیسے سفید پوشوں (بلکہ ایک صحافی کے بقول ناکام آدمی) کو ان ’’جھڑولوں‘‘ میں نہیں پڑنا چاہیے۔
وجہ فقیر راحموں نے بتاسمجھادی۔ کہہ رہا ہے "شاہ جی یہاں تم اپنے ملتانی سید کی محبت میں ہلکان ہوئے جارہے ہو وہاں ممکن ہے کل کلاں تمہارا ملتانی سید اور توپ صحافی اکٹھے کھانا کھارہے ہوں‘‘۔
ہمارے دوست حارث اظہر کے بقول
’’جو ترقی پگڑیاں اچھال کر ہوتی ہے اس کا لطف ہی اور ہے شاہ جی‘‘۔
دونوں کی بات اپنی اپنی جگہ درست ہے۔ صحافت اب نظریہ کم اور پراپرٹی ڈیلری زیادہ ہے۔
جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھ چڑھ کر برباد ہوگئی۔ صحافت کس شمارمیں ہے۔
یہاں ہم نے بھٹو صاحب کو گھاسی رام کہنے لکھنے والا شام چوراسی کا صحافی محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں بنے سٹیج پر شان سے بیٹھے دیکھا تھا۔
آپ اثر چوہان کو جانتے ہیں؟ یہ پرانے وقتوں کے قدیم صحافی ہیں ان کی بیگم پی پی پی شعبہ خواتین پنجاب کی عہدیدار ہوا کرتی تھیں بھٹو دور میں۔ اسی اثر چوہان نے بھٹو خاندان کے لئے اپنے اخبار ’’سیاستٔ‘‘ میں غلیظ ترین زبان استعمال کی۔
ہمارے مرحوم استاد سید عالی رضوی کہا کرتے تھے ’’صاحبزادے پیپلزپارٹی کے نزدیک بڑا صحافی وہ ہوتاہے جو اسے رج کے ذلیل کرے۔‘‘
اللہ بخشے وہ درست فرماتے تھے۔
1988ء سے اب تک کے 33برسوں میں ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ آپ نے سنا ہی ہوگا
’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘
چلیں چھوڑیں تازہ اطلاع یہ ہے کہ جانی خیل دھرنا اور لانگ مارچ والوں کا کمشنر بنوں کی معرفت حکومت سے سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ سمجھوتہ کیا ہے وہی دائمی طفل تسلیاں اور وعدے۔ مقتول نوجوانوں کے ورثا مطمئن ہیں تو ہم اور آپ کیا کرسکتے ہیں۔
ویسے ورثا سے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ پانچ دن قبل اسی کمشنر نے جب معاہدہ کی دعوت بھجوائی تھی تو تب انکار کیوں کیا تھا؟
حرف آخر یہ ہے کہ کورونا وبا کا عذاب پھیل رہا ہے براہ کرم احتیاط کیجئے، ڈھکوسلوں اور ٹوٹکوں سے فاصلہ رکھیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں ان دانشوروں جیسا رویہ نہ اپنائیں جو ہر معاملے میں سازشی تھیوری نکال لاتے ہیں۔ کورونا کی تیسری لہر پہلی دو لہروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ احتیاط آپ کے بس میں ہے وہی کرلیجئے کہ جان ہے تو جہان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر