نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزراء مخدوموں کی سخاوت اور سینکڑوں دریا برد گھر ||جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام،، مارچ کے آخری ہفتے میں اربوں روپے کے فنڈز کہاں سے اور کیسے آ گئے ہیں. مالیتی سال تو اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے. نئے بجٹ کی تجاویز اور پلاننگ کے کام کا تقریبا آغاز ہو چکا ہے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے وزراء بھائیوں وفاقی وزیر اکنامک افیئرز اینڈ پلاننگ مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے ضلع کا ایک ساتھ پہلا طویل دورہ کیا جس میں اپنے گھر میانوالی قریشیاں میں چھپ کر بیٹھنے، مخصوص ملاقاتیں کرنےکی بجائے بڑے بھائی نے ضلع کے طول و عرض میں مختلف سیاسی شخصیات ایم این ایز، ایم پی ایز کے پاس جا کر ہر جگہ اربوں روپے کے فنڈز دینے کے اعلانات کیے.وفاقی وزیر کے محسن آباد سے خان پور پھر رحیم یار خان کے دورے کے دوران کچھ لوگوں کو مخصوص قسم کے دورے بھی پڑتے رہے اور انہوں نے مخدوم خسرو بختیار کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر ٹوکہ خبریں بھی چلائیں.جن میں تنقید سے زیادہ ساڑا نمایاں تھا.بلاشبہ عوام کو چکر دینے والے سیاستدان مخدوموں کو چکر دینے والے یہ مخدوم چتر چلاک اور سیاسی شاطر تو انتہا کے ہیں. اندرونی طور پر ذہنی اور دلی دونوں لحاظ سے ان صاحبان کو انتقامی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے. ان کو اگر سول ڈکیٹر کہا جائے تو ہرگز بے جا نہ ہوگا.ان کے حلقے میں آئین و قانون کی حکمرانی کی بجائے ان کا راج اور حکم چلتا ہے. یقین کریں یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں.ایسے بہت سارے کیسز اور مثالیں ہمارے سامنے ہیں. وردی اور بغیر وردی، مرئی اور غیر مرئی وطن عزیز کی ایجنسیاں چاہیں تو زمینی حقائق کا جائزہ لے سکتی ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ کام وقت کی اشد ضرورت ہے اسے کرنا خلق خدا کو ظلم و زیادتی اور ناانصافیوں سے بچانے کے لیے از حد ضروری ہو چکا ہے. اس موضوع اور داستانوں کو سلسلہ وار علیحدہ علیحدہ شائع کرنے کی ضرورت ہے آج ہم مخادیم صاحبان کے دورے، ضلع رحیم یار خان پر ان کی سخاوت اور اربوں روپے کے فنڈز کے اعلانات کی حقیقت پر کچھ بات کرنا چاہتے ہیں. موجودہ دور ہو یا ان کا سابقہ دور اقتدار یہ صاحبان اربوں سے کم بات ہی نہیں کرتے.نتیجہ لوگوں کے لیے عرب اور ان کے لیے ارب ہوتے ہیں. اقتدار کا خاتمہ ہونے پر یہ اپنے نئے باس اور حکمرانوں کے پہلو میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ سابق حکومت نے سرائیکی وسیب کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے جو فنڈز ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے تھے وہ ہمیں نہیں دیئے گئے. گویا الزمات کا انبار لگا دیتے ہیں یہی نہیں ان صاحبان کو وقت کے حکمرانوں کو شیشے میں اتارنے کا فن اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کے ہنر میں بھی خاص مہارت حاصل ہے.ان میں صرف ُ ُ دید ٗ ٗ نہیں ہے باقی بہت ساری خوبیوں کے مالک ہیں.
محترم قارئین کرام،، مارچ کے آخری ہفتے میں اربوں روپے کے فنڈز کہاں سے اور کیسے آ گئے ہیں. مالیتی سال تو اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے. نئے بجٹ کی تجاویز اور پلاننگ کے کام کا تقریبا آغاز ہو چکا ہے. یقینا یہ اربوں کے فنڈز کے اعلانات بھی آنے والے بجٹ کے سبز باغ کا قبل از وقت کرارا دیدار و نظارا، دلکش لارا اور امیدوں کے سہارے پیچھے پیچھے لگانے،کھینچنے والی مضبوط ٹوچھین ہے. وفاقی وزیر کے ضلع کے طول و عرض میں کیے جانے والے دورے کو ترقیاتی کی بجائے اور متوقع بلدیاتی الیکشن کے حوالے بلدیاتی دورہ کہا جائے تو بے جاہ نہ ہوگا.ضلع میں مخدوم خسرو بختیار کی قیادت کو کہاں کہاں اور کون کون تسلیم کرے گا اور کون نہیں کرے گا. اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا. ویسے تحریک انصاف کے مقامی اندرونی سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی سیر نہیں ہر کوئی آپ سوا سیر ہے.خان پور پر سیاسی چڑھائی میں کامیابی ملے یا نہ ملے آئندہ الیکشن میں یہ مہم جوئی ضرور ہو کر رہے گی. جہاں تک قیادت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا تعلق ہے اس کے لیے برداشت اور درگزر بہت ضرروی چیزیں ہیں.تکبر اور دوسروں کے بارے میں منفی سوچ اور رویوں کی موجودگی میں بات مشکل سے بنتی ہے. اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو بکاؤ لوگ اور دلا کہنے والوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ کبھی کبھی دلوں کو بھی غیرت آ جایا کرتی ہے. دلے مقامی و چھوٹی لیول کے ہوں، قومی یا انٹر نیشنل سطح کے ہوں مذکورہ بالا کہاوت کسی بھی وقت کہیں پر بھی سچ بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہے.تاریخ کو پڑھنا چھوڑ دینے سے تاریخ کی حقیقت بدل نہیں جایا کرتی.ماضی کی حکومت میں ہم نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن کے ہر ایم این سے اور ایم پی اے کا نعرہ، لارا، وعدہ، دعوی ایک ہی ہوا کرتا تھا. وعدے نہیں کام رحیم یار خان کے لیے اربوں کے ترقیاتی فنڈز. اب ایک بار پھر وہی صورت حال بنتی نظر آ رہی ہے کہ ضلع کا ہرحکومتی ایم این اے اور ایم پی اے یہی 13ارب روپے لیے عوام کو دکھاتا پھرے گا. یہ کہاں کتنے کیسےاور کب خرچ ہوں گے.کتنے یہاں خرچ ہوں اور کتنے ادھر اُدھر یا واپس کہیں اور چلے جائیں گے. ایسے رازوں کا پتہ تو ہمیشہ حکومت ختم ہونے کے بعد ہی چلتا ہے.جھوٹ اور دھوکہ کے سوا کون سے ایسی اور چیز ہے جو عوام کو عوامی نمائندگان اور حکمرانوں کی جانب سے ہر دور میں باقاعدگی ملتی ہو. گویا سرائیکی وسیب اور وطن عزیز میں جھوٹ اور دھوکے میں استقامت اور وفا ہے.
محترم قارئین کرام،، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کے اس عمل، فنڈز کے اعلانات و سخاوت اور رویے کو کیا نام دیا جائے کہ وزیر موصوف اپنے پانچ روزہ دورہ کے دوران اپنے حلقہ انتخاب کے موضع احمد کڈن، مڈ عادل، چک احمد یار وغیرہ کے دریائی کٹاؤ کے نتیجے میں دریا برد ہونے والے سینکڑوں گھروں اوردر بدر ہونے والے اپنے ووٹرز و سپورٹرز کے پاس انہیں دلاسہ دینے، ان کے آنسو پونچھنے کے لیے جانا گوارا ہی نہیں کیا.کیوں?. احساس نہیں ہے. کوئی ناراضگی ہے یا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ اب بار بار لوگوں کے ساتھ اور پھر موجودہ تلخ اور تباہ کن حالات میں عوام کے ساتھ جھوٹ بولا جائے. اگر یہ بات تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی مثبت اشارہ ہے.کچھ فنڈز نہ دینے کی طرح اگر عوام کو دھوکہ بھی نہ دیا جائے تو اسے مثبت ہی سمجھا کہا اور لکھا جانا چاہئیے. اگر گھلیجہ برادری کے چیف سردار جام کریم نواز گھلیجہ کی یہ بات کہ مخادیم صاحبان جام اسماعیل گھیلیجہ کی سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پوسٹوں سے سخت ناراض ہیں. اس لیے انہوں نے سپر بند کے فنڈز منظور ہونے سے رکوا دیئے ہیں.گویا جام اسماعیل کی مسلسل دریائی کٹاؤ پر چیخ و پکار، فریاد، عوامی نمائندگان اور حکمرانوں کو مدد اور بچاؤ کی اپیلیں کرنا ایک ایسا سنگین جرم بن گیا ہے جس سے ناراض ہو کر مخادیم نے سپر بند کے فنڈز منظور نہیں ہونے دیئے یا رکوا دیئے ہیں. لوگوں کی زمینیں حیتکہ گھر بھی دریا برد ہو چکے ہیں.ایسے عوامی نمائندگان اور قوموں کے سرداروں کو کوئی تمغہ ملنا چاہئیے یا ہر بار الیکشن میں ان کی بات مانتے ہوئے ووٹ دینے والے لوگوں کو جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانی چاہئیے. جس علاقے کے لوگوں کو خود اپنا اور اپنی عزت کا احساس نہیں ان کے بارے میں یقین کریں کوئی کچھ کرنے کے لیے آگے نہیں آئے گا.جب تک لوگ پُر امید ہیں یقین کریں ہرگز ہرگز کوئی تبدیلی نہیں آئے گی. مایوسی میں یہ تاثیر ہے کہ وہ تبدیلی کی راہ دکھاتی ہے. مکمل مایوسی کا یہ خاصا ہے کہ وہ کامیاب انقلاب کی طرف لے جاتی ہے.سرائیکی وسیب کے لوگوں کا معاملہ گویاخلا میں لٹکی کسی چیز کی مانند اور ہوا کے رحم و کرم پر ہیں.اقتدار کے دنوں میں جن صاحبان کو سرائیکی صوبہ زہر اور لسانیت سب سے بڑی ملک دشمنی لگتا ہے وہی حضرات الیکشن کے دنوں عوام کو اپنا صوبہ اپنا اختیار، سرائیکی صوبے کے نعرے لگا کر لوگوں کو پھدو بنا کر ووٹ حاصل کرکے جیت کر اقتدار کے ایوان کی زینت بن جاتے ہیں. پھر ان اقتداری مستیاں اور مداری ٹائپ خر مستیاں شروع ہو جاتی ہیں. وہ عوام کو بھکاری اور ووٹرز کو بکاؤ مال کہنے لگتے ہیں. تنخوار دار اور رضا کار دونوں قسم کے سپورٹرز کے بارے میں بھی ان کے خیالات سے تقریبا لوگ اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں. یہاں پر مجھے تفیصلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.سرائیکی وسیب کے عوام کی، نئے نہیں خاص طور پرانے عوام کی اکثریت سردار پرست، ملاں پرست اور پیر پرست ہے. جو مایوسی سے کوسوں دور سُہانی آس امیدوں کے باغات میں رہتی ہے. اس لیے یہاں پر کسی بڑی تبدیلی کا قریب قریب کوئی امکان نہیں یہی وجہ سے کہ یہاں ایلیٹ رولر کلاس کو ان دے اپنے سیاسی معاشی سماجی مستقبل کے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے. اوپر سے اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ بھی ان کا پرانا یارانہ و تعلق لوٹ مار،تسلط و قبضے کا اشتراکی عمل کامیابی سے جاری و ساری ہے.یقینا یہ سرا تماشہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگ خود اسے برداشت کرتے اور سہتے رہیں گے. پیر ملاں ہمیشہ کی طرح عوام کو صبر کا درس دے دے کر سُلاتے رہیں گے اور اسے خدا کی ونڈ قرار دے کر اپنے معاملہ خدا پر ہی چھوڑ دینے کے سبق یاد کراتے اور افادیت بتاتے رہیں گے.سردار صاحبان اپنی سرداریوں اور تھانیداریوں کو قائم رکھنے کے لیے بطور کارندہ خاص،ایجنٹ، نمائندہ، پولیٹیکل مشیر، کوآرڈینیٹر وغیرہ. عوام کو دبانے اور کچلنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہیں گے. کیا اس کا مطلب یہی سمجھا جائے کہ مخدوم سچ کہتے ہیں لوگ دلے ہیں.دریا برد ہونے والے سینکڑوں گھرانے کے لوگ بتائیں کہ مذکورہ بالا طبقات اور گروہوں میں سے کون کون ان کی آواز بنا ہے.
محترم قارئین کرام،، میری دعا ہے کہ اللہ کرے کہ ضلع رحیم یار خان کے لیے وزراء نے جن فنڈز اور منصوبہ جات کے اعلانات کیے ہیں وہ پورے ہوں اور عوام ان سے مستفید ہو سکیں بے شک آنے والے بجٹ میں سہی.تازہ ترین اعلانات کے حوالے سے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا کتنے فنڈز یہاں خرچ ہو سکیں گے اور کتنے لیپس ہو کر واپس تخت لاہور جا پہنچیں گے کیونکہ مالی سال کےاختتام کی یہ آخری سہ ماہی چل رہی ہے. جہاں تک آجکل ہونے والے چھوٹے موٹے ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے یہ بلدیاتی فنڈز اورمعطل نمائندگان کے فنڈز پر جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کا ڈاکہ ہے. جو تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ہر جمیوریت کی دعویدار جماعت ڈھٹائی کے ساتھ مارتی چلی آ رہی ہے. سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ وطن عزیز میں سول ڈکیٹر ہیں.جو جمہوریت کی نرسری بلدیاتی نظام کو خود برداشت نہیں کرتے.قوم کو گفتار کی جگہ کردار کے غازی کب اور کیسے ملیں گے?.جہاں قانون سازی کے لیے منتخب ہونے والوں کی اکثریت کا قانون شکنی کرنا ہی وطیرہ بن جائے تو اسے کیا کہا جائے یا نام دیا جائے ایسے لوگوں اور ایسے اداروں کو.وقت ملے تو ذرا سوچئے گا ضرور

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author