سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظفر گڑھ میں یونی ورسٹی بنانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ ضلع مظفر گڑھ کے رہائشیوں کا علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ بالکل درست ہے جس کی طرف حکومت کو فی الفور توجہ دینی چاہیے خاص طور پر اس وقت جب یہ پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے کہ وہ ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی ضرور قائم کرے گی۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہماری کسی بھی حکومت نے تعلیم کو ترجیح نہیں سمجھا اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج پنجاب کے بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں یونیورسٹی تو کجا، سکول اور کالج بھی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان تعلیم اور صحت دونوں کو اپنی اولین ترجیح گردانتے ہیں جو بلاشبہ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بناتے مگر آج جب حکومت کو قائم ہوئے اڑھائی برس سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن تعلیم اور صحت دونوں اہم ترین شعبے حکومت کی نظر سے تاحال اوجھل ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب تعلیم جیسی بنیادی ضرورت والدین کے لئے ایک تھیسس کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے تو ایک آزاد ملک میں مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جاناچاہیے لیکن ہمارے ہاں چونکہ سیاستدان عوام کو غریب اور شعور سے عاری رکھناچاہتے ہیں تاکہ کوئی ان سے ان کی کوتاہیوں بارے جواب طلب نہ کرسکے۔ یہی نہیں بلکہ جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی کا نظام بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ جاگیردار اور وڈیرے اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ اگر غریب کے بچے پڑھ گئے تو کون ان کی چاکری کرے گا اور کون ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہوگا۔ یہ جاگیردار اور وڈیرے چونکہ ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں اس لئے وہ کبھی بھی ایسے اقدامات کی تائید نہیں کریں گے جن سے ان کی اپنے علاقے میں چودھراہٹ پر کوئی اثر پڑے۔
اگر یہاں پر صرف مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کے قیام کی بات کی جائے تو ہم کئی برسوں سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی جانب سے سب کیمپس وہاں بنانے کی باتیں سن رہے ہیں لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔مظفرگڑھ کے ریٹائرڈ بیورو کریٹ، سماجی رہنما اور وکیل خیر محمد بدھ کے بقول پیپر ورک مکمل ہوچکا ہے اور عمارت کا بھی انتخاب کیا جاچکا ہے لیکن کووڈ19کے باعث معاملات ٹھپ ہوگئے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب تعلیم جیسے اہم شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرتی اور صوبے بھرمیں سکولز، یونیورسٹیوں اور کالجوں کی آبادی کے لحاظ سے ضرورت کو سمجھتی اور ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے پی ٹی آئی کے منشور پر عملدرآمد میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر اس لئے نہ کرتی کہ بدترین مہنگائی کے حالات میں والدین کے لئے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا بہت مشکل ہوگیا ہے اور پھر اوپر سے فیسوں کے علاوہ ہوسٹل کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
آج پاکستان میں اس ضرورت کو بڑی شدومد کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے کہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور والدین سے بہتر تربیت تو کوئی اور کر بھی نہیں سکتا اس لئے حکومت جہاں دیگر ’’اہم‘‘ فرائض منصبی میں مصروف عمل ہے اس کو چاہیے کہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے قیام کو فی الفور یقینی بنائے کیونکہ نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے ملازمت کے نئے دروازے کھلیں گے اور یوں اس خطے میں بیروزگاری میں بھی کچھ کمی
ممکن ہے۔ ہم ان سطور کے ذریعے جنوبی پنجاب کے مخیر حضرات جن میں شیخ احسن رشید، خواجہ جلال الدین رومی، جہانگیر ترین، چودھری ذوالفقار انجم اور خسرو بختیار سمیت دیگر بڑے سرمایہ داروں سے خصوصی درخواست کریں گے کہ وہ اس نیک کام میں حکومت کا ساتھ دیں اور اس کام کی تکمیل میں حکومت کو فنڈز کے ساتھ یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے جگہ فراہم کریں تاکہ پرانی یونیورسٹیوں پر دبائو کم ہوسکے اور اساتذہ بہتر انداز میں بچوں پر ان کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق توجہ مرکوز کرسکیں۔ اسی طرح ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس کے قیام کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ اگرچہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کی جانب سے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کی مسلسل بات کی جارہی ہے کیاہی بہتر ہو کہ حکومت نوجوانوں کو ملازمت کی بجائے اپنا روزگار شروع کرنے کی طرف مائل کرے کیونکہ ڈگری ہی فقط والدین اور نوجوانوں کے مسائل حل نہیں کرپائے گی۔ یہ درست ہے کہ حکومت سب بیروزگاروں کو اس وقت روزگار فراہم نہیں کرسکتی اس لئے حکومت اور عوام دونوں کو خیالی دنیا سے نکل کر مثبت انداز میں سوچنے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ پاکستان کا فخر ہے کہ آج سب سے زیادہ فری لانسنگ ہمارے ہاں سے ہورہی ہے جو اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زخیز ہے ساقی‘‘ حکومت کو بلاشبہ اس وقت بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن ان بڑے چیلنجز میں سے اکثر تو خود ساختہ ہیں۔ حکومت کو عوام کی بہتری کے لئے اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
یہ امر عوام کے لئے باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کو کھلے الفاظ میں بتادیا ہے کہ اب عوام کی خدمت کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں اس لئے ہم ان سطور کے ذریعے وزیراعظم، گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب سے خصوصی درخواست کریں گے کہ وہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے قیام کو فی الفور یقینی بنائیں۔ مظفر گڑھ میں 2020ء میں وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی کی منظوری دی لیکن آج تک اس پر کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ پاکستان کے پاس بڑے زرخیز دماغ ہیں جن میں خیر محمد بدھ ، رانا محبوب اختر سمیت دیگر بڑے بڑے بیورو کریٹس شامل ہیں جو نہ صرف مشرف دور کے بلدیاتی نظام میں موجود سقم دور کرنے میں حکومت کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے بھی اس کا خاصا تجربہ ہے اس لئے اگر حکومت آئندہ انتخابات میں عوام کی عدالت میں سرخرو ہوناچاہتی ہے تو ان دونوں اہم شعبوں کی طرف توجہ دینی چاہیے، یہی وقت کی پکار ہے۔ادھر حکومت پنجاب کی جانب سے 12یونیورسٹیز پر کام جاری ہونے کی تشہیر بڑے زوروشور کے ساتھ کی جارہی ہے لیکن ان میں سے ایک بھی جنوبی پنجاب میں نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اگر اپنے علاقے سے سوتیلی ماں کا سا سلوک جاری رکھا تو پھر تاریخ میں انہیں بھی شہباز شریف اور پرویزالٰہی ہی کی طرح اپر پنجاب کی ترقی کے خواہش مند لوگوں کی فرہست میں یاد رکھا جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر