نومبر 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوادر کی ترقی اور ماہی گیر||گُہرام اسلم بلوچ

وہ کہتے ہیں کہ   غیر قانونی طور پر ٹرلرنگ سے یہاں کہ مچھلی کی افزائش نسل ختم ہوتا جارہا ہے  اس کی روک تھام کے لیے ابھی تک  عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔

گُہرام اسلم بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنی تکلیف دہ لمحہ ہوگا کہ اپنے بچوں کی ہاتھ تھام کر بجاے سکول میں داخل کروانے کے ہم انہیں اپنے ساتھ سمندر لیکر انکو یہ کہیں گے کہ یہی تمارا مسقبل ہے، گوادر کے ماہیگروں کی آنکھ نم کرنے والی باتیں ۔

جب بات ، چائنا پاکستان اکانومی  کوریڈور( سی پیک ) کی آجاتی ہے  تو بلوچستان بلخصوس  گوادر کا تذکرہ ضرور ہوجاتا ہے  ،   جیسا کہ ہم سُنتے آرہے ہیں کہ سی پیک کے تحت بلوچستان اور گودار کو ترقی دی جاتی ہے تو اس سے حوالے  مقامی لوگوں ، جن میں سیاسی رہنما، نوجوان،ماہیگر اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کی رائے کو نظر انداز کئے بغیر وہاں کے زمینی حقائق کا تجزیہ کرنا ایسا ہے جیسا کہ  ہم خود سے مخاطب ہوکر باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، حال ہی میں  پاکستان بیسڈ  تحقیقی ادارے  ، تھینک ٹینک  گروپ( سی آر ایس ایس)  کے زیر اہتمام ایک ڈائیلاگ  کے دوران   گودار  اور تربت کے صحافیوں ، سیاسی  پارلیمانی رہنماوں ، نوجوانوں، ماہیگیر کے نمائندوں  اور سوسائٹی کے دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے   دوستوں سے بلوچستان اور گوادر کی ترقی کے حوالے سے  مختلف سیشنز میں اُنکی ماہرانہ رائے  لی تو  وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہم ترقی کے مخالف ہیں  البتہ اس میں ضرور انکے کچھ تحفظات ہیں کہ اس ترقی کی دوڑ میں مقامی لوگوں کو کیسے شامل کیا جاتا ہے اور وہاں کی معاشی ترقی میں نوجوانوں ، ماہیگروں کی کیا شراکت ہوگی۔

ان مختلف ڈائیلاگ  میں ایک دو اہم مسائل مشترک تھی  وہ یہ کہ سیکورٹی کے نام پر شہریوں  کیساتھ سیکورٹی رویہ مناسب نہیں اور دوسری یہ کہ جو زیادہ تر نوجوان سوچتے ہیں کہ  اب تک اس ترقی کو مقامی لوگ قبول(  اون) کیوں نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس تمام صورت حال میں ، پالیسی بناتے وقت مقامی لوگوں کی رائے کو ترجیع نہیں دیتے ہیں بلکہ  ابھی تک کسی کو  یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ سی پیک  کے پروجیکٹس کیا ہیں اور بلوچستان اور گودار میں کون کونسی پروجیکٹس چل رہی ہیں ،  جب تک لوگوں کو ترقی  یا  سی پیک کے متعلق ( لٹریٹ) نہیں کریں گے تو   عامی ماہیگر کو کیا علم ہوگا کہ اس ترقی میں میں میری بھی زندگی مین تبدیلیاں آئیں گی۔  مقامی نوجوان یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے نام پہ چائینا گورنمنٹ کی طرف سے بلوچستان کے طلبا و طالبا ت  کے لیے  اسکالرشپس تھے اُس پہ تو بلوچستان سے باہر کے لوگ جا چکے ہیں۔ میں نہیں سمجتھا کہ یہ مسائل ناقابل حل ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ  نوجوانوں کو سُنا جائے  اُنکو تعلیم اور ٹیکنیکل میدان میں انکی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں  ترقی کے میدان میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق  ٹرین کئے جائیں مختلف ویکشنل ٹرینئگ سنٹر ز قائم کئے جائے اور انکے لیے باہر  پڑھنے کے لیے اسکارشپ کے مواقع پیدا کئے جائیں ۔

مقامی ماہیگیروں  کے مطابق اسوقت  پورے گوادر ضلع میں 13ہزار کے قریب کشتیاں ہیں اور 3500 کشتیاں  گودار  کے مقامی ماہیگیروں کے اور فی کشتی  میں  6 سے 9   بندے کام  ہیں ان سب کی گزر بسر اسی سمندر پہ انحصار کرتی ہے ، وہ کہہ کہ انکی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں ہیں  ابھی تک ہم اپنے  دادا  اور پردادا کے سو گز کی  چاردیوری  کے اندر رہ رہے ہیں اور آج تک ہم اس قابل نہیں ہوئے ہیں کہ اپنے لیے کوئی زمین خرید سکیں  اور نا ہی ہم اپنے بچوں کو  تعلیم دے سکتے  ہیں کیونکہ جب ہمارے بچے بالغ ہوجاتے ہیں اس مہنگائی کے دور میں  ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ سمندر  اسی ماہیگری میں مصروف کرتے ہیں  انکی تعلیم کے اخراجات ہم برداشت نہیں  کر پاتے ہیں ، ہمارے لیے کتنا تکلیف دہ کی بات ہوگی کہ ہمارے بچوں کو معاشرے میں کوئی طنزا ّٗ کہا جاتا ہے کہ یہ ماہیگیر( مید) کا بیٹا ہے ۔   ہمارے لیے کتنی تکلیف دہ لمحہ ہوگا کہ اپنے بچوں کی ہاتھ تھام کر بجاے سکول میں داخل کروانے کے ہم انہیں اپنے ساتھ سمندر لیکر انکو یہ کہیں گے کہ یہی تمارا مسقبل ہے ۔ اور یہاں ماہیگیروں  کئ بچوں کے لیے  کوئی اسکالرشپس  نہیں  اس حوالے سے نہ آج تک حکومت وقت نے ترجیع دی ہے اور نا ہی چائینا گورنمنٹ نے ، ماہیگرون کی کالونی  کی بات کئی سالوں سے ہم سُنتے آرہے ہیں مگر آج تک  اس پہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ   غیر قانونی طور پر ٹرلرنگ سے یہاں کہ مچھلی کی افزائش نسل ختم ہوتا جارہا ہے  اس کی روک تھام کے لیے ابھی تک  عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

کافکا اور فینن کی تحریروں سے محبت کرنے والے بلوچ طلبہ سے ملاقات||گُہرام اسلم بلوچ

 

About The Author